وزیر ِ اعظم نواز شریف تیسری مدت کے لیے اقتدار میں ہیں لیکن ان کی سیاسی کارکردگی گزشتہ دو ادوار سے مختلف نہیں۔ عام طور پر وقت کے گزرتے لمحات بہت سی چیزوںکو تبدیل کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اُن میں سے نہیں ہیں۔ نوا زشریف صاحب نے سیاست میں ایک طویل عرصہ گزار دیا ہے، انہیں ملک میں حمایت بھی حاصل ہے اور عالمی معاملات کا تجربہ بھی ، لیکن ان کی کارکردگی سے اس کی جھلک نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ تہیہ کرکے سیاست کے میدان میں اترے (یا اتارے گئے) تھے کہ وہ تجربے پر تجربہ کریں گے لیکن کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
دراصل پاکستانی سیاست دنیا میں مروجہ سیاسی ماڈل سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے رہنما دیگر جمہوری ریاستوں کی مثالیں تو دیتے ہیں لیکن اُن کی پیروی نہیں کرتے۔اگرچہ دنیا کا ہر ملک جس طرح اپنی ثقافت اورانسانی رویوں کے اعتبارسے مختلف ہے ، اسی طرح اس کا سیاسی ڈھانچہ اور وسائل بھی ایک جیسے نہیںہیں، اس کے باوجود ریاستیں ایک دوسرے کے تجربہ سے استفادہ کرکے اپنے ہاں موجود صورت ِحال کو سمجھ اور سنبھال سکتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بھی دیگر ممالک کے رہنمائوں اور جماعتوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سیاسی رہنما دیگر ممالک کے تجربے اور اپنے معروضی حالات کو دیکھ کر مناسب نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات ہمارے موجودہ حکمرانوں کے بار ے میں نہیں کہی جاسکتی۔ اگر نواز شریف صاحب کے طرز ِ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ملکی ترقی کے حوالے سے غیر ملکی ماڈلوں کی نقالی کرنے کی الجھن کا شکار ہیں۔ اُنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں سڑکیں، موٹر ویز، میٹرو، ٹرنیں اور پل دکھائی دیتے ہیں لیکن سکول، کالج اورہسپتال نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوام یہ خبر سنتے ہیں کہ ملک میں مہنگی سڑکیں بن رہی ہیں اور ان کے قائدین معمولی بیماریوں کا علاج کرانے بیرونی ممالک گئے ہیں اور اُن (عوام) کے پاس بڑے بڑے شہروں میں بھی علاج کی سہولیات میسر نہیں تو اُن کا خون غصے سے کھولنے لگتا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں کی غلط ترجیحات کی ایک بڑی وجہ موروثی سیاست ہے ، جس کی وجہ سے وہ مشکل سیاسی فیصلے کرنے کے قابل نہیں۔ ٹیکس کے نظام کی بہتری سے لے کر اداروں کی ترقی تک، کچھ بھی ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ وہ ہر چیز کو اپنے سیاسی فائدے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے طالبان کی مخالفت کرنے سے گریز کررہے تھے۔
پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی، دونوںنے موروثی سیاست کو رواج دے کر پاکستان کے سیاسی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اوپر سے نیچے تک منظم بدعنوانی نے ادارے تباہ کردیے ہیں۔ اس ریاست میں عدل وانصاف ڈھونڈے سے نہیں ملتا، اورسیاسی انتقام اپنی جگہ پر، حقیقی احتساب کی کوئی روایت موجود نہیں۔ زیادہ تر ادارے مکمل تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے نظریات اور افعال میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن عوام کو چکما دینے کے لیے ایک دوسرے کو اپنا سخت حریف بتاتے ہیں۔ اشرافیہ کے سیاسی نیٹ ورک ایک سیاسی خاندان کے گرد قائم ہوتا ہے۔ اس کے سربراہ کا تعلق ہمیشہ بانی خاندان سے ہوتا ہے۔ پارٹی کے بانی کی ہر بات کو اٹل سیاسی سچائی کے طور پر آگے بڑھایا جاتا ہے۔ پارٹی کے حامیوں کو اس شخصیت کا پیروکار سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی خامی تلاش کرنے کی کوشش گستاخی کے مترادف ہوتی ہے۔ مرکز میں حکومت قائم کرنے والی جماعت عام طور پر صوبوں میں بھی حکومت سازی کی کوشش کرتی ہے تاکہ صوبوں کو کنٹرول کرنا آسان رہے ۔
ان دونوں اہم سیاسی جماعتوںنے ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے تباہی کے دہانے پر لا کھڑاکیا ہے۔ سیاسی وفاداروں کو اعلیٰ عہدوںسے نوازنا اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرنے کو جمہوریت کی روح سمجھا جاتاہے۔ پاکستان سٹیل ملز اور ریلوے اس کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی اداروں کی طاقت کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی روایت ایک معمول کی بات ہے۔ یہ صورت ِحال ہمیں مشرق ِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی آمریت کی یاددلاتی ہے۔ اہم ریاستی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت عوامی وسائل سے اپنی جیبیں بھرتی ہے۔ حکمران خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے افراد پر ہن برستا ہے۔ ٹھیکے، کمیشن اور کک بیک کے دروازے اُن کے لیے ہی کھلے ہوتے ہیں۔ احتساب کی عدم موجودگی میں سرکاری وسائل کی لوٹ مار کا حتمی بوجھ عوام کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ جمہوریت کے ذریعے ہی بہترین انتقام لیا جاسکتا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں غریب عوام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اپنی لوٹ مار جاری رکھتی ہیں۔ درحقیقت عوام کی خدمت اس ملک میں ایک کامیاب سیاسی نعرہ ہے۔ اس دوران عوام کو کیا ملا ہے؟کچھ نہیں۔ اگر پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی سیاسی کارکردگی کو تعلیم، صحت، روزگار اور معاشی بہتری کے ترازو میں تولیں توا س کا کھوکھلا پن عیاں ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دوعشروں کے دوران ان کی قائم ہونے والی حکومتوںکا سرسری جائزہ ظاہر کردے گا کہ اُنھوں نے ملک کی کتنی تباہی کی ہے۔
جب نواز شریف صاحب نے تیسری مدت کے لیے حکومت سنبھالی تو عوام کو کچھ امید تھی کہ وہ حکومت چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہوئے اچھے منتظم ثابت ہوںگے۔ پی پی پی کی گزشتہ حکومت کی انتہائی افسوس ناک کارکردگی دیکھتے ہوئے کہا گیا کہ کم از کم وہ اس حکومت سے تو بہتر ہوںگے۔ تاہم کئی ایک حوالوںسے وہ ملک کے لیے تباہی کا سبب بنے ہیں۔ اس وقت ، جبکہ وہ اپنی مدت کا نصف کے قریب پورا کرچکے ہیں، عوام اپنی آنکھوںسے دیکھ سکتے ہیں کہ اُن کی ہر ترجیح غلط ہے۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے ماضی میں پیلی( اور اب گرین) ٹیکسی اور لیپ ٹاپ اور سستی روٹی سکیم جیسے تباہ کن منصوبوں میں ٹیکس دہندگان کے اربوں اُڑا دیے گئے۔ آج بھی ملک میں بے مقصد توڑ پھوڑ جاری ہے، لیکن عوام کی تعلیم ، صحت، پینے کے صاف پانی، روزگار اور عوامی بہبود کا کوئی منظم پروگرام حکومت کی ترجیح دکھائی نہیں دیتا۔ پولیس اور نیب جیسے ادارے سیاسی تقرریوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں۔ اور عوام سے کہا جارہا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے گن گائیں اور خوش رہیں کہ یکے بعددیگرے مختلف حکومتیں اپنی مدت پوری کررہی ہیں۔