سعودی عرب میں ایک شیخ نمرالنمرسمیت 47 افراد کو دی جانے والی سزائے موت اور پھر تہران میں سعودی سفارت خانے کی آتشزدگی دو ایسے اشتعال انگیز واقعات ہیں جو خطے میں پہلے سے جاری انتشار کو مزید خون ریز اور دھماکہ خیز کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تضاد بظاہر فرقہ وارانہ نظر آتا ہے لیکن اصل مسئلہ خطے میں اجارہ داری اور سامراجی عزائم کے ٹکرائو کا ہے۔
پورے مشرق وسطیٰ میں سامراجی جارحیت، پراکسی جنگوں اور ریاستی وحشت کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سامراج کی ہی تخلیق کردہ بنیاد پرستی کی بربریت تہذیب کو تاراج کر رہی ہے۔ ایسے میں عراق، شام، ایران اور ترکی میں بکھرے کرد عوام نہ صرف معاشی ذلتوں کا شکار ہیں بلکہ تنازع میں ملوث تمام ریاستیں انہیں جبر کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ قومی استحصال اور جبر کے خلاف کرد محنت کشوں اور نوجوانوں کی کئی بغاوتیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ اسی تناظر میں موجودہ حالات، ترکی کو بڑی خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اپنے خلاف ایک ابھرتی ہوئی طبقاتی تحریک کو دیکھ کر اردوان نے قومی بنیادوں پر خانہ جنگی کو بھڑکا دیا ہے۔گزشتہ کئی ماہ سے ترکی میں کرد اقلیت بالخصوص بائیں بازو کی کرد پارٹی HDP پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ترکی میں بہت سے کاروبار اور دکانیں جو کردوں سے وابستہ ہیں، ان پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔ اسی دوران کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے عراق اور ترکی میں بہت سے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی گئی ہے۔ یہ سب اس وقت کیا گیا جب PKK ترک ریاست کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل میں داخل ہو چکی تھی۔ ترکی کے جنوب مشرقی حصے کے درجن بھر علاقوں کو خصوصی سکیورٹی زون قرار دیا جا چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
اردوان ایک طرف داعش کی مالی اور عسکری معاونت جاری رکھے ہوئے ہے ، دوسری طرف داعش کے خلاف جنگ کے نام پر کردوں اور بائیں بازو کے رجحانات کو کچلنے میں مصروف ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ داعش کو پہنچ رہا ہے جس کا اب تک سب سے مضبوط دشمن PKK اور اس سے وابستہ دیگر تنظیمیں تھیں۔ بہت سے مواقع پر PKK پر اس وقت حملہ کیا گیا جب اس کے مسلح کارکنان داعش سے برسر پیکار تھے۔ یہ واضح ہے کہ اردوان کبھی PKK کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے۔
کئی برسوں کی تیز ترین معاشی بڑھوتری کے باوجود ترک عوام کی اکثریت کے حالات زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ سکی جبکہ ایک چھوٹی سی اقلیت کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اور اب جب ملک کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے، اس کی قیمت بھی غریبوں کو ہی چکانی پڑ رہی ہے۔ اسی وجہ سے بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2013ء میں غیزی (Gezi) پارک کی تحریک کا باعث بھی یہی تھا جب دسیوں ہزار افراد سڑکوں پر اردوان حکومت کے خلاف نکل آئے تھے۔ لیکن قیادت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو اکھاڑ نہیں سکے۔ لیکن یہ مزاحمت ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ جب اس نفرت اور غم و غصے کو ترکی کی رائج الوقت سیاسی جماعتوں میں اظہار کا موقع نہیں ملا تو اس نے کر د تحریک اور اس کے سیاسی ونگ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) میں اپنا اظہار کیا۔ ترک حکمران طبقہ کئی دہائیوں سے کرد اور ترک نوجوانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود HDP موجودہ نظام سے نفرت کرنے والے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتی چلی گئی۔ کوبانی کے معرکے نے اس میں فیصلہ کن کردارادا کیا جہاں انتہائی خستہ ہتھیاروں اور معمولی امداد سے کردوں نے اردوان کی حمایت یافتہ داعش کے خلاف چھ ماہ تک لڑائی لڑی اور اسے شکست فاش دی۔ اسی مقبولیت کے تحت سماجی اور جمہوری اصلاحات کے انقلابی پروگرام کے ساتھ HDP 13 فیصد ووٹ لے کر پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچی۔ یہ اردوان کی بنیاد پرست AK پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا جو 2002ء کے بعد پہلی دفعہ پارلیمنٹ میں اکثریت سے محروم ہو گئی۔کسی پارٹی یا اتحاد کے حکومت قائم نہ کرسکنے (ہنگ پارلیمنٹ) کے باعث دوبارہ انتخابات کروانے پڑے جن میں ڈھٹائی سے بد ترین ریاستی جبر HDP پر روا رکھا گیا اور اردوان دوبارہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مارکس نے کہا تھا کہ کئی مرتبہ انقلاب کو آگے بڑھنے کے لیے رد انقلاب کے کوڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی کچھ آج ترکی میں ہو رہا ہے۔
کرد عوام کو ترک حکمرانوں کی جارحیت سے اپنا دفاع کرنے کا مکمل حق ہے۔ لیکن اس وقت انفرادی عمل ناکافی بلکہ بعض صورتوں میں مضر ہے۔ کسی فوجی یا پولیس والے کو قتل کرنے سے اردوان کمزور نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس وہ خود یہی چاہتا ہے۔ جتنے بھی فوجی مارے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی امیر طبقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ ترک ریاست اس انفرادی دہشت گردی کو ترک علاقوں میں اپنی حمایت میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے اور کرد اور ترک محنت کشوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کا جواز بناتی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ اردوان کی بد عنوان حکومت اور کردوں پر نسل پرستانہ جبر کے خلاف لسانی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے ایک عوامی مزاحمت کا آغاز کیا جائے۔
موجودہ بحران صرف اردوان حکومت کا نہیں بلکہ ترک سرمایہ داری کا بحران ہے۔ عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہ کرنے کے باعث یہ سرمایہ دار حکمران مسلسل جبر میں اضافہ کر رہے ہیں اور قومی تعصبات کو ابھار رہے ہیں۔ ترک حکمران طبقے کے ''جمہوریت پسند‘‘ حصے اردوان کے اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اردوان ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن یہی نام نہاد جمہوریت پسند مرد اور خواتین جانتے ہیں کہ 60ء اور 70ء کی دہائی کی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے انہوں نے خود آمریت نافذ کی تھی۔ اور حالیہ عام انتخابات میں ان کا پروگرام کیا تھا؟ زیادہ نجکاری، ڈی ریگولیشن اور لبرلائزیشن، یعنی محنت کش عوام پر مزید حملے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ترکی پر کون شخص حکمرانی کرے گا۔ اردوان کا رویہ در حقیقت ترک سرمایہ داری کی بوسیدگی کا عکاس ہے۔ اردوان کے خلاف کسی بھی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ترک اور کرد محنت کشوں کے کوئی الگ الگ یا متضاد مفادات نہیں۔ صرف اس نظام کے جبر نے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی حاصلات کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں جو حکمران طبقے نے انہیں دان کی ہیں۔ جبکہ دولت مند اور با اثر افراد ‘جو ذلت کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتے‘ پر تعیش زندگیاں گزارتے رہیں۔ صرف تمام مظلوم افراد کی ایک متحدہ جد وجہد ہی نجات کا واحد حل ہے، جس میں تمام وسائل اور دولت پر قبضہ کر لیا جائے اور اسے اجتماعی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔
2011ء میں مشرق وسطیٰ اور ملحقہ ممالک میں ابھرنے والی بغاوت ایک انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ تیونس، مصر، شام، اسرائیل اور یمن میں انقلابی طوفان برپا تھا۔ اس انقلاب کی اہمیت یہی تھی کہ یہ سرحدوں، فرقوں اور قومی و لسانی تعصبات کو چیرتا ہوا آگے بڑھا تھا اور طبقاتی جد وجہد کا نیا باب شروع ہوا تھا۔ لیکن انقلابی فتح کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے میں ناکامی نے خطے کو رد انقلاب، رجعت اور بربادی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج یہ بربریت جو مشرق وسطیٰ اور لیوانت میں تہذیب و تمدن کا خاتمہ کرنے کے درپے ہے اسے نہ تو جنگوں سے ختم کیا جاسکتا ہے نہ مذاکرات سے کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہاں بسنے والے کروڑوں استحصال زدہ انسانوں کی بقا کے لیے 2011ء سے کہیں بلند پیمانے کا ایک اور انقلاب درکار ہے جس کی فتح یابی کے لیے انقلابی مارکسزم کی عوامی قوت اور قیادت نا گزیر ہے۔