تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-01-2016

Money Makes The Mayor Go

ایک شخص کو خیال آیا کہ اس کا ایک دوست سال بھر سے پیرس کا میئر بن گیا ہے اور اس نے اسے نہ تو مبارک باد دی ہے اور نہ ہی ملاقات کی ہے‘ تو وہ اس سے ملنے کے لیے چل کھڑا ہوا۔ پیرس پہنچ کر ایک دکاندار سے میئر کے گھر کا پتا پوچھا تو وہ بولا : 
''وہ رشوت خور کمینہ؟ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟‘‘
اس کے بعد اس نے ایک لانڈری والے سے اس کے گھر کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا‘
''کس منحوس اور لالچی کتے کا صبح صبح نام سننا پڑ گیا‘ آج تو شاید کمانا ہی نصیب نہ ہو‘‘
چنانچہ ایک پولیس والے نے اس کی مشکل حل کی اور اس نے اسے موصوف کے گھر پہنچایا۔ وہاں پہنچ کر دیگر گپ شپ کے بعد اس نے اپنے دوست سے پوچھا :
''تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟‘‘ تو وہ بولا۔
''میں تنخواہ نہیں لیتا‘ اللہ نے جو عزت دے رکھی ہے‘ میرے لیے وہی کافی ہے‘‘۔
ملک عزیز میں رشوت خوری کا یہ عالم ہے کہ خود صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ رشوت خوری ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور قوم کے جسد خاکی میں ایک بہت بڑے ناسور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس پر حکمران طبقہ اپنے 
طور پر بے حد حیران ہے کیونکہ انہیں یہ بلا کہیں نظر نہیں آتی‘ حتیٰ کہ خادم اعلیٰ پنجاب تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت کر دی جائے تو وہ نام بدل لیں گے۔ کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ رشوت کا سراغ تو ایف آئی اے اور نیب نے لگانا ہے‘ اور اگر کوئی ثبوت مل بھی گیا تو یہ مقدمہ آخر پولیس اور پراسیکیوشن ہی نے چلانا ہے اور وائٹ کالر کرائم اپنا ثبوت چھوڑتا بھی کہاں ہے۔ 
طوائف سے کسی نے حال چال پوچھا تو وہ بولا:
''خدا کا شکر ہے‘ وہ عزت کی روٹی دے رہا ہے‘‘
تو ہمارے ہاں سارے کے سارے رشوت خور اپنی اپنی عزت کی روٹی ہی کھا رہے ہیں ‘چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکمران‘ عدلیہ اور بیورو کریسی‘ کوئی بھی رشوت خور نہیں تو آخر یہ کام کر کون رہا ہے جو صدر مملکت اور چیف جسٹس دونوں نے اس کے خلاف ہا ہا کار مچائی ہوئی ہے۔ سو‘ حکومت اگر چیف جسٹس کو نہیں تو صدر صاحب کو تو اس نامناسب پُکار سے روک سکتی ہے جنہیں حکومت نے خود اس منصب تک پہنچایا ہے۔ ان تینوں طبقات کے بعد تو عوام ہی بچتے ہیں جو دھڑا دھڑ یہ کام کر رہے ہیں اور حکومت سمیت یہ سارے ادارے مُفت میں بدنام ہورہے ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ بندوبست کسی نہ کسی طرح عوام ہی کا کیا جائے جو یہ سارا دھندا چلا رہے ہیں‘ اگرچہ حکومت ان کا بھی انتظام کافی حد تک کر چکی ہے کہ ان پر صحت‘ تعلیم اور روزگار وغیرہ کے دروازے اچھی طرح سے بند کر دیئے گئے ہیں تاکہ انہیں اپنی ہی پڑی رہے اور وہ رشوت ستانی سے باز رہیں‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے دیمک اور ناسور کی صورت اختیار کر لی ہے۔
البتہ اب سُرنگ کے آخری سرے پر روشنی کا ایک نقطہ نظر آ رہا ہے جو امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم مارچ سے کرپشن فری پاکستان کے لیے تحریک شروع کریں گے‘ اور ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ جماعت اگر کسی کام کا ارادہ کر لے تو اسے پورا کر کے ہی چھوڑتی ہے‘ اس لیے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ عوام کو چاہیے کہ یکم مارچ تک جلدی جلدی جتنی رشوت خوری کرنی ہے کر لیں کیونکہ اس کے بعد تو ملک نے کرپشن فری بن جانا ہے۔
ہمارے ایک کرم فرما چودھری پرویزالٰہی کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری سب سے بڑا ڈالر ساز منصوبہ ہے اور ادھر کراچی سے تازہ خبر یہ آئی ہے کہ وہاں کی معروف مافیا نے بلدیہ کراچی کی پانچ سو ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا ہے جس سے اس ادارے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ بلدیہ نے اپنی زمین کا قبضہ خود ہی چھوڑ رکھا تھا اور لاوارث سمجھ کر کچھ حاجت مندوں نے اس بیکار پڑی زمین کو قومی مصرف میں لانے کی یہ صورت نکال لی ہو گی‘ ایک کار چور کو جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے حسب ضابطہ اس سے سوال کیا: 
''یہ کار تم نے چرائی ہے؟ ‘‘تو وہ بولا:
''نہیں جناب‘ یہ ایک قبرستان میں کھڑی تھی‘ میں نے سمجھا اس کا مالک مر گیا ہے...‘‘
اور‘ اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل :
دل سے دُشنام کیا نکلتی ہے
اک طرح سے دُعا نکلتی ہے
دیکھنا ہے بغیر برسے ہی
کس طرف کو گھٹا نکلتی ہے
بھرتا رہتا ہے نائو میں پانی
بادباں سے ہوا نکلتی ہے
کہیں رکھتا ہوں اور یاد اُس کو
یہ کہیں اور جا نکلتی ہے
چُپ رہوں بھی تو کیا اگر میری
خامشی سے صدا نکلتی ہے
دیا بجھتا ہے اور دھوئیں کی لکیر
میرے سر سے جُدا نکلتی ہے
جاں نکلتی ہے جسم سے ایسے
جیسے گھر سے بلا نکلتی ہے
دوسرے کو سزا ملے جو‘ ظفر
تیسرے کی خطا نکلتی ہے
آج کا مقطع
نہیں موجود ظفر اپنی جگہ
ہے کہیں اور زمانہ ہوا تُو

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved