تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     06-01-2016

قرآن وسنت اور پیغام ِتوحید

قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے جملہ احکامات کو نازل کیا ۔ اس کتاب میں جہاں زندگی گزارنے کے مستحسن طریقوں کا بیان پوری وضاحت سے کیا گیا ہے وہیں پر قرآن مجید میں توحید کی دعوت پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے جتنے بھی انبیاء کائنات کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمائے ان سب نے جہاں بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا اہتمام فرمایا وہیں پر سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی۔ سورہ ہودمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب علیہم السلام کی جدوجہد کا ذکر کیا ہے ۔یہ تمام انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے لوگوںکو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ گو کہ قوم لوط اورقوم مدین میں جنسی بے راہ روی اور کاروباری اعتبار سے بھی بے اعتدالیاں پائی جاتی تھیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے جلیل القدر انبیاء حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت بھی دیتے رہے۔ جس وقت ان اقوام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذاب کو ان پر مسلط کر دیا۔ چنانچہ قوم نوح کے لوگ سیلاب کا نشانہ بنے، قوم عاد آندھی کی زد میں آئی اور قوم ثمود کو ایک چنگھاڑ نے تباہ کر دیا۔ ان انبیاء کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی توحید کی دعوت اور اس کے ابلاغ کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔ آپ کی قوم کے لوگوں میں عقیدہ توحید سے انحراف کی دو صورتیں تھیں ایک، وہ اجرام سماویہ کی پوجا کیا کرتے تھے ، دوسری، بتوں کی پرستش ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے 
بت کدے میں داخل ہو کر سارے بتوں کو توڑ دیااور بڑے بت کے گلے میں کلہاڑے کو ڈال دیا۔ جب بستی کے لوگ واپس بت کدے میں پہنچے اور انہوںنے بتوں کو ٹوٹا ہو ادیکھا تو ان کے ذہن میں فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خیال آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے بتوں کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اس امر کا اعلان فرمایا کہ ان کو تو ان کے بڑے نے توڑا ہے اور اگر تم ان بتوں کی حقیقت کو پہچاننا چاہتے ہو تو ان سے سوال کرو اگر یہ بات کرنے پہ قادر ہیں تو جواب دیں گے۔ قوم کے لوگ اس بات کو سمجھتے تھے کہ بتوں میں بات کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلا م سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ بات کرنا نہیں جانتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ تم پر اُف ہے تم ان کی پوجا کرتے ہو جو تمہارے نفع اور نقصان کے مالک نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعوت کے جواب میں قوم کے لوگوں نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے ان کو نذرآتش کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قوم کے لوگوں کے مکر سے نجات دی اور ان کی ساری سازشوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ اجرام سماویہ کی پوجا کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ پرستی کا رد کیا، چاند کی پرستش اور سورج کی پوجا کا انکار کیا اور اس امر کا اعلان فرما دیا کہ میں اپنے چہرے کا رُخ اس کی طرف موڑتا ہوں جس نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی توحید کے ابلاغ کے لیے پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی توحید سے انحراف کی بہت سی صورتیں موجود تھیں ۔ کچھ لوگ بت پرستی میں مشغول رہا کرتے تھے جب کہ اس کے مدمقابل آتش پرست دو خداؤں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ عیسائیوں کے یہاں پر تین خداؤں کا تصور موجود تھا ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سارے باطل تصورات کی حقیقت کو واضح کر دیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اسی طریقے سے توحید کی دعوت کو عام کیا جس طریقے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت کا ابلاغ کیا تھا۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ کی دشمنی پر تیار ہو گئے۔ آپ کے گلو اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا، آپ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا ، آپ کے وجود اطہر پر پتھر برسائے گئے لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ساری صعوبتوں کو سہہ کر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انتہائی مقدس ہستی مانتے تھے ، ان کا نقطۂ نظر تھا کہ چونکہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں اس لیے (معاذاللہ) اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ان کا باپ ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب نجران کے عیسائی پادری آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ان کے سامنے رکھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اکیلا ہے، یگانا اور یکتا ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ وہ کسی کا بیٹا۔ جب انہوں نے اس بات کا اصرار کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی مانند ہے، جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا ''ہوجا‘‘تو وہ ہو گئے۔ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کو واضح فرما دیا کہ جو اللہ حضرت آدم علیہ السلام کو بن ماں اور بن باپ کے پیدا فرما سکتا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے بھی پیدا فرما سکتا ہے۔ثنویت کے رد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام سے اس حقیقت کو واضح کیا کہ اگر کائنات میں دو خدا ہوتے تو ہر طرف فساد ہی فساد ہوتا ہے۔کائنات کے اندر نظر آنے والا اعتدال اورنظم ونسق اس حقیقت واضح کرتا ہے کہ کائنات بنانے والے اور کائنات کے نظم کو چلانے والی دو ہستیاں نہیں بلکہ ایک ہی واحد ہستی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہستی ہے۔ ستارہ پرستی کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حم سجدہ کی اس آیت کو لوگوں کے سامنے رکھا کہ نہ سورج کے سامنے سجدہ کیا کرو اور نہ چاند کے سامنے بلکہ اس اللہ کے سامنے سجدہ کیا کرو جس نے سورج اور چاند کو بنایا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں حدیبیہ کے مقام پربارش ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب ہو کرارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایک بارش نے کئی لوگوں کو کافر اور کئی کو مومن بنا دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استفسار کیا کہ وہ کس طرح؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے کہا کہ بارش ستارے کی حرکت کی وجہ سے ہوئی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے میرا انکار کیا اور ستاروں پر ایمان لے کر آئے۔ جن لوگوں نے کہا کہ بارش ستارے کی حرکت سے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ہوئی،اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں ان لوگوں نے ستاروں کا انکار کیا اور مجھ پر ایمان لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ستاروں کا، زندگی کے ماہ وسال اور روز وشب پر اثر انداز ہونا تو دور کی بات ہے وہ کسی ایک واقعہ پر، کسی ایک بارش پر اور کسی ایک وقوع پر بھی اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی توحید کا ابلاغ فرماتے رہے اور اسی پرآپ کائنات سے رخصت ہوئے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے قرآن مجید میں توحید کی اہمیت اور دعوت کو بہت زیادہ واضح کیا ۔
امت محمدیہ علیہ السلام کی ذمہ داری ہے کہ توہم پرستی، بداعتقادی، بدشگونی اور غیر اللہ کی پرستش سے بچتے ہوئے خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اس کی پوجا اور اس کی بندگی کے راستے کو اختیار کریں۔ اس لیے کہ یہی سابق انبیاء کا مشن ہے،یہی قرآن کی دعوت ہے یہی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے۔ اگر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان اور یقین رکھنا شروع کر دیں اور ہر مشکل اور مصیبت میں اسی سے اپنے تعلق کو استوار کریں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاملات اور ہماری مشکلات کو حل کرنے پر قادر ہے ۔ اسی طرح اس عقیدہ توحید کی برکت سے اور شرک سے انحراف کی وجہ سے ان شاء اللہ جہاں پر دنیا کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاملات کو سنوارے گا، آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں بھی ہمارا مقدر بن جائیں گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ توحید کا فہم اور شعور نصیب فرمائے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved