انتہا پسند ہندو تنظیموںاور بھارتیہ جنتا پارٹی کی صورت میں اصل حکمران راشٹریہ سیوک سنگھ بھارت میں ایک نیا مشروب مارکیٹ میں لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو ایک طرح کا سافٹ ڈرنک ہی ہو گا لیکن اس میں گائے کے پیشاب کو شامل کیا جائے گا جسے آر ایس ایس کی جانب سے انسانی صحت کیلئے بہترین قرار دیا جارہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ایک سال تک اس کیلئے دستیاب تمام مشینری نصب کر نے کے بعد اسے مارکیٹ میں مہیا کر دیا جائے گا۔گوکہ یہ تیاریاں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن بھارت بھر میں پھیلی ہوئی راشٹریہ سیوک سنگھ اس کی بھر پور ایڈورٹائزنگ میں مصروف نظر آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ گائو جل ہندوتواکی ہی پراڈکٹ ہو گی جسے ہر سٹور اور سافٹ ڈرنک کیلئے بنائے گئے کھوکھوں پر رکھنا لازمی قرار دیا جائے گا اور اس پر با قاعدہ لکھا جائے گا کہ یہ گائو ماتا کے پیشاب سے تیار کیا گیا ہے اور اس کا نام انگریزی میں Bovine Brew تجویز کیا گیا ہے لیکن بھارت میں اسے ''گائو جل یا گائے کا پانی‘‘ کہہ کر پکارا جائے گا اور حتمی پراڈکٹ شروع کرنے سے پہلے اسے دنیا بھر میں متعارف کرانے کیلئے اس وقت مختلف قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ سے گزار ا جا رہا ہے ۔
بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہندو معاشرے میں اسے مزید متبرک بنانے کیلئے اس کا پلانٹ دریائے گنگا پر واقع ہردوار میں لگا رہی ہیں اور گائو جل یا گائے کے پانی کیلئے قائم کئے جانے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سینئر رکن اوم پرکاش نے بھارت کے مشہور انگریزی اخبار' دی ٹائمز‘ کے نمائندے کو فون پر اس مشروب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ'' اس میں سے کسی بھی صورت میں پیشاب کی بو نہیں آ ئے گی اور اس کا ذائقہ کسی بھی صورت میں برا نہیں ہو گا بلکہ جب ہم یہ مشروب مارکیٹ میں لائیں گے تو اس پر با قاعدہ لکھا ہو گا کہ یہ انسانی صحت کیلئے مفید ہے اور یہ دوسرے غیر ملکی سافٹ ڈرنکس کی طرح نہ تو کاربونیٹڈ ہو گا بلکہ ہر قسم کےToxins سے بھی مبرا ہو گا۔‘‘
ایسا لگ رہا ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کی جانب سے شائد گائو ماتا کو بھارت میں رہنے والوں کی ہر نسل اور قوم کی رگ رگ میں پہنچانے کی یہ آخری کوشش ہے۔ گو کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد بھارت میں آج سے90 سال قبل1925ء میں بہت کم لوگوں نے رکھی تھی لیکن اس وقت ان کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بھارت میںاس کے ممبران کی تعداد80 لاکھ سے بڑھ چکی ہے جن کا نعرہ ہے کہ بھارت میں صرف ہندو بن کر رہنے والوں کا حق ہے اور جو ہندو نہیں بن سکتا‘ وہ وہیں چلا جائے جہاں اس کے مذہب سے متعلق لوگ رہتے ہیں۔ ہندوستان صرف ہندو کا ہے‘ کسی اور کیلئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہو نی چاہئے۔ہندو گائے کو باقاعدہ پوجتے ہوئے اس کا احترام کرتے ہیں۔ جہاں بھی گائے انہیں نظر پڑتی ہے وہ بڑے ادب سے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے جھکتے ہیں اور ان کے نزدیک گائے کو ذبح کرنا تو بہت دور کی بات ہے ‘اس کو مارنا بھی ہندو دھرم کی زبردست توہین ہے؛ اسی لئے بھارت کی کئی ریا ستوں میں اس کے ذبح کرنے پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور اس کیلئے با قاعدہ قانون بنا دیا گیا ہے جس کے تحت گائے کو ذبح کرنے والوں کے خلاف پولیس با قاعدہ کارروائی کرتے ہوئے سخت ایکشن لیتی ہے۔
بر صغیر کے دیہات اور قصبوں میں گائے کے گوبر کو اپلوں کی صورت میں گیس اور مٹی کے تیل کی جگہ استعمال کرتے ہوئے کھانا پکانے کے کام میں لایا جاتا ہے لیکن ہندو گھروں میں گھر کے صحن‘ کمروں اور خصوصی طور پر رسوئی یا باورچی خانوں یا جہاں پر جلانے کیلئے چولہا وغیرہ رکھا جاتا ہے‘ گائے کے گوبر کا یہ کہہ کر لیپ کیا جاتا ہے کہ اس سے رسوئی ہر قسم کی پلید شے سے پاک ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے استعمال سے کیڑے مکوڑے ، جراثیم اور مچھر وغیرہ بھی اس جگہ سے دور بھاگتے ہیں جبکہ بھارت کی نچلی ذات کے ہندوئوں میں گائے کا گوبر اور پیشاب ان کی شادی بیاہ کی رسموں کے دوران رسومات کی ادائیگی کیلئے بنائے جانے والی جگہ یا کچے بنائے گئے مندروں کی صفائی کیلئے استعمال میں لانے کا رواج بہت ہی عام ہے۔
2001ء میں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت اس کی اتحادی انتہا پسندوں تنظیموں نے ایک پراپیگنڈہ مہم چلانی شروع کر دی تھی ‘ جس میں ہندوئوں کے ذہن میں یہ تاثر بٹھانا شروع کر دیا کہ گائو ماتا کے پیشاب کے استعمال سے جگر کا مرض ختم ہو جاتا ہے بلکہ راشٹریہ سیوک سنگھ نے تو اپنے لٹریچر اور دیہاتی پنچایتوں میں یہ درس دیا کہ گائے کے پیشاب کے استعمال سے کینسر جیسے مرض سے بھی شفا مل جاتی ہے اور اس تاثر کو پختہ کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہندوئوں کے ساتھ ساتھ غریب ترین دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جو کینسر اور جگر کے امراض میں مبتلا ہیں اور معمولی سے علاج کی بھی سکت نہیں رکھتے‘ انہیں گائے کے پیشاب کا عادی بنا تے ہوئے ان کے دلوں سے کراہت کو ختم کر دیا جائے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ سمیت وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیموں نے بھارت کی بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اداروں سے بھتہ وصولی کو معمول بنایا ہوا تھا ۔ان کی روز روز کی دھمکیوں سے تنگ آ کر 1994ء میں بھی بعض کمپنیوں نے ان انتہا پسند ہندو گروپوں کو بھتہ دینے سے ہاتھ کھینچ لیا تو ان کے بائیکاٹ کی ایک بہت بڑی مہم شروع کر دی گئی کہ یہ اپنی پراڈکٹ میںPesticides کا استعمال کرتی ہیں ۔بھارت میں کولا برانڈز کی مارکیٹ بہت زیا دہ ہے لیکن گذشتہ چند سالوں میں اسے ان انتہا پسند تنظیموں کی اپنے خلاف کی جانے والی اس مخالفانہ مہم کا بڑی تگ و دو سے مقابلہ کرنا پڑا ‘پھر کہیں جا کر وہ عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ہردوار میں بنائے جانے والے گائو جل کے پلانٹ بارے ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اوم پرکاش کا کہنا ہے کہ دریائے گنگا کے پانی کو فلٹر کرنے کے بعد اس گائو جل میں شامل کیا جا رہا ہے۔ گو کہ یہ مشروب مکمل طور پر گائو ماتا کے پیشاب پر مشتمل ہو گا لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس میں چندMedicinal اورAyurvedic جڑی بوٹیاں بھی شامل کی جا رہی ہیں اور یہ کولا برانڈز کے مقابلے میں سستا بھی ہو گا اور مارکیٹ میں آنے کے بعد یہ تمام کولا برانڈز کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا اور گائو جل کے استعمال سے انسان کو ذہنی سکون بھی ملے گا ۔بھارت میں اس کی سپلائی بہتر کرنے کے بعد اسے بیرون ملک بھی بر آمد کیا جا سکے گا اس کیلئے ایک علیحدہ سے تشہیری مہم چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس میں غیر ملکیوں کو اس میں شامل کئے جانے والے اجزا اور ان کے انسانی صحت پر پڑنے والے بہترین اثرات کے بارے میں خصوصی طور پر آگاہ کیا جائے گا۔آر ایس ایس والوں کا کہنا ہے کہ گائو جل یا گائے کے پانی کے استعمال سے دنیا کے تمام مذاہب کے لوگ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہندو دھرم میں گائے کے پیشاب کو متبرک کہنا بالکل درست ہے اور مسلمانوں کو گائے کے ذبیحہ سے روکنے کیلئے نریندر مودی کی حکومت کے بنائے جانے والے قوانین بالکل صحیح ہیں۔