تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-01-2016

دہشت گرد‘ ہندپاک کے مشترکہ دشمن

آج بی بی سی نے پٹھان کوٹ کے واقعات کی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے‘ جس میں پہلی مرتبہ بھارت کے دفاعی اداروں کی حکمت عملی کی ناکامیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں حوالے کے طور پر ممبئی کے واقعات بھی آ گئے۔ اندازہ ہوا کہ ممبئی میں‘ دہشت گردوں کے ہاتھوں بھارت کو زیادہ نقصانات اس لئے اٹھانا پڑے کہ اس نے دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے جن فوجی دستوں کا انتخاب کیا‘ وہ ان کے دائو پیچ کا پوری طرح سامنا نہیں کر پائے ‘اس وجہ سے انہیں زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔ بھارت اپنے ملک کی 13 ریاستوں میں بغاوتوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان سب میں‘ چھوٹے یا بڑے پیمانے پرگوریلا جنگیں ہو رہی ہیں۔وہاں کے دفاعی ماہرین کی بنیادی ضرورت یہ تھی کہ اس غیرروایتی طرزجنگ کا سامنا کرنے کے لئے ‘ روایتی طریقوں سے کام لینے کے بجائے‘ گوریلا جنگ کے طور طریقے اختیار کئے جاتے‘ جن سے ناواقف ہونے کے سبب‘ بھارت کو ممبئی میں بھی زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے اور پٹھان کوٹ کے واقعات کی تازہ رپورٹ سے تو بہت کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ایک بات بہرحال ثابت ہو گئی کہ بھارت کی باضابطہ افواج‘ دہشت گردی کے حربوں سے نمٹنے کے طریقے اچھی طرح نہیں جانتیں۔ اسی عدم واقفیت کی بنا پر اسے زیادہ نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ پاکستان‘ دہشت گردوں سے مقابلے کے طورطریقے‘ طویل تجربات کی بنا پر سیکھ چکا ہے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کا جال پوری طرح پھیل چکا تھا‘ تب پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کر کے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بری طرح شکست دی۔ پٹھان کوٹ کے واقعہ کا تجربہ ہونے کے بعد‘ بھارت کو یہ ضرورت محسوس کر لینا چاہیے کہ اس کی افواج کو ‘ دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے جدیدحربے سیکھنا پڑیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی رابطوں کے دوران جو باہمی اعتماد پیدا ہونے لگا ہے‘ اس میں پختگی لانے کے لئے‘ دونوں کے دفاعی اداروں کودہشت گردوں سے لڑنے کے لئے آزمائشی طور پر تعاون کی ابتدا کرنا ہو گی۔ ہو سکتا ہے‘ یہ عمل مسلسل کشیدگی کے طویل دور کے خاتمے کا ذریعہ بن جائے۔ اب وہ رپورٹ پیش کرتا ہوں‘ جو پٹھان کوٹ کے واقعات پر بی بی سی کے ذریعے منظر عام پر آئی۔
''بھارتی حکام کو پاکستانی سرحد کے نزدیک واقع پٹھان کوٹ فوجی ہوائی اڈّے پر ہونے والے حملے پر قابو پانے میں چار دن لگ گئے جبکہ اس حملے میں سات بھارتی فوجی ہلاک اور 22 زخمی ہوئے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کے خیال میں اس سکیورٹی آپریشن کو بیان کرنے کے لیے بدنظمی کے الفاظ ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔سرکاری اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے پاس پہلے سے ‘یکم جنوری کو ایک حملے کی منصوبہ بندی کی معلومات موجود تھیں۔تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملوں کا جواب دینے میں بھارت کا رویہ سمجھدارانہ نہیں تھا۔ بھارت کی جانب سے ناکافی جارحانہ اقدامات کئے گئے۔ کئی اقسام کی افواج کی شمولیت اور مناسب دفاعی سامان کی غیر موجودگی نے اس آپریشن کو ناکامی کے نزدیک پہنچا دیا تھا۔
جس وقت حملوں کا آغاز ہوا‘ قومی سلامتی کے مشیر ڈوول نے‘ دہلی کے نواح میں واقع منیسر فوجی اڈّے سے نیشنل سکیورٹی گارڈز کے 150 اہلکاروں کو ہوائی جہاز کے ذریعے‘ غیر مانوس ماحول میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا انتخاب کیا۔اس مشن کی آپریشنل کمانڈ ‘این ایس جی‘ ڈیفنس سروس کور (ڈی ایس سی) اور بھارتی فضائیہ کے خصوصی فوجی دستوں کو سونپ دی گئی تھی۔ڈی ایس سی ریٹائرڈ اور جذبے سے عاری اہلکاروں پر مشتمل تھی ‘جبکہ سپیشل فورسز کے جوان مشن میں شامل دیگر فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جدوجہد میں ہی لگے رہے۔تمام تر آپریشن کو خود کنٹرول کرنے کی واضح خواہش میں ‘ڈوول نے ان تقریباً 50 ہزار فوجی جوانوں کو نظرانداز کر دیا ‘جو کہ پہلے ہی پٹھان کوٹ کے علاقے میں موجود تھے۔خیال رہے کہ پورے ملک میں کسی محدود علاقے میں ‘فوجیوں کی موجودگی کی ‘یہ ممکنہ طور پرسب سے زیادہ تعداد ہے۔اطلاعات کے مطابق ڈوول نے آرمی چیف سے بیک اپ سپورٹ کے لیے محض 50 سے 60 فوجی جوان مہیا کرنے کی درخواست کی تھی۔سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فوج کشمیری عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔این ایس جی کے جوان اور افسر‘ اس علاقے سے ناواقف تھے اور اسی وجہ سے اسے وہ نقصانات اٹھانا پڑے‘ جن سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔ ان میں لیفٹیننٹ کرنل نرنجن کمار کی ہلاکت بھی شامل ہے۔وہ عسکریت پسند کی لاش تلے دبے بم کے دھماکے میں مارے گئے۔ اس دھماکے میں این ایس جی کے چار اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ایسی فوج‘ جس کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کا تجربہ ہوتا، ممکنہ طور پر انہیں عسکریت پسندوں کے اس ہتھکنڈے سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا تھا‘ جس میں آخری چارے کے طور پر بم کی پن نکال کے عسکریت پسند اس پر لیٹ جاتے ہیں تاکہ بم نظر نہ آئے۔عسکری ذرائع کے مطابق این ایس جی کو آلات کی تنگی کا بھی سامنا رہا۔ ان کے پاس تاریکی میں دیکھنے والے مخصوص آلات بھی نہیں تھے اور نہ ہی پٹھان کوٹ میں درپیش حالات سے نمٹنے کے لیے دیگر ضروری سامان ان کے پاس تھا۔چار روز تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران ‘فوج کو کوئی خاص کردار ادا کرنے نہیں دیا گیا۔تاہم لڑائی کو 48 گھنٹے سے زائد گزرنے اور وزیر اعظم نریندر مودی‘ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ‘ وزیر دفاع منوہر پاریکر سمیت ‘دیگر وزرا کی جانب سے آپریشن کی کامیابی کے اعلان کے بعد تقریباً دو سو فوجیوں کی تعیناتی کر دی گئی۔
چار شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعد مبارکباد کے پیغامات آنا شروع ہوگئے تھے ؛تاہم اس کے بعد فائرنگ کا ایک نیا سلسلہ پھر شروع ہوا۔فائرنگ کے نئے سلسلے کے بعد‘ اہم سوال یہ پیدا ہوگیا تھا کہ فوجی ہوائی اڈّے کے گرد‘ 12 سو ہیکٹر پر پھیلی قدآور گھاس میںآخر کتنے مسلح حملہ آور چھپے ہوئے ہیں؟ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کو رات گئے تک‘ فوجی اڈّے کے اندر وقفے وقفے سے ہونے والی فائرنگ کے درمیان ‘دستی بموں کے دھماکوں کی گونج بھی سنائی دیتی رہی تھی‘ تاہم وہ اندر کے زمینی حقائق کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔پیر کی شام ڈپٹی این ایس جی کمانڈنٹ میجر جنرل دْشنت سنگھ کا کہنا تھا کہ ''عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے جاری آپریشن اس وقت آخری مراحل میں ہے۔‘‘وزیر دفاع پاریکر نے منگل کے روز پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ''چھ مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی اڈّے کو شدت پسندوں سے مکمل طور پر صاف قرار دینے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے آپریشن میں کچھ کمی نظر آتی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ سلامتی پر ہم نے کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نومبر 2008 ء میں ‘ممبئی پر حملوں کے دوران کی گئی عملی غلطیاں اور کوتاہیاں‘ پٹھان کوٹ واقعے میں بھی واضح طریقہ کار کی غیر موجودگی کے باعث ‘ایک بار پھر دہرائی گئی ہیں۔یاد رہے کہ 2008ء کے ممبئی حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ممبئی میں 10 مسلح افراد کے خلاف ‘ابتدائی طور پر مقامی پولیس کو استعمال کیا گیا تھا تاہم بعد میں ان کی جگہ بھارتی بحریہ کی میرین کمانڈوز سپیشل فورسز (ایم اے آرسی او ایس) نے لے لی تھی۔ بعد ازاں ایم اے آر سی او ایس سے فوجی کمانڈوز نے حملوں کی تین جگہوں کا چارج لے لیا تھا جن میں دو ہوٹل اور ایک یہودی ثقافتی مرکز شامل تھا۔این ایس جی کی جگہ‘ بالآخر بھارتی فوج نے لے لی تھی جنہیںممبئی پہنچنے میں تقریباً 12 گھنٹے لگے تھے۔
عسکری تجزیہ کار میجر جنرل شیرو تھاپلیال کہتے ہیں کہ''پٹھان کوٹ آپریشن میں شامل تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک لائحہ عمل تک نہ پہنچ پانے اور موثر طریقہ عمل پر متفق نہ ہونے کا نتیجہ تھا۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ایسی کھلی اور محدود جگہ پر جہاں عام شہریوں کو کسی قسم کا خطرہ پہنچنے کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہو، صرف پانچ یا چھ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے میں چار دن لگ جانا قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
اس پورے آپریشن کی ایک مثبت بات جوسامنے آئی وہ یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز‘ فضائیہ کی اہم ملکیت ‘یعنی مِگ -21 جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو شدت پسندوں سے بچانے میں کامیاب رہیں۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved