تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-01-2016

دنیا ہے نہ دین

دشمن کی سرزمینیں فتح کر نے کی نہیں، ہمیں اپناگھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حضورِ والا، اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ؎ 
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دین 
ایک عہد ہے جو بیت گیا۔ ایک دور ہے جو نمودار ہونے والا ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ کنفیوشس نے کہا تھا: دائمی سچّائی صرف تبدیلی ہے۔ انسانوں کے خالق نے زندگی کو تنوع اور کشمکش میں پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی ۔ قدرت کے بنیادی قوانین کبھی نہیں بدلتے لیکن موسم کے ساتھ حکمتِ عملی بدلنا پڑتی ہے ۔ جیسا کہ سب سے محترم کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے کہا : کشمیریوں کی جدوجہد کو پٹھان کوٹ ایسے واقعات سے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ برسوں پہلے اس آدمی نے یہ کہاتھا: ہم شاید اس اخلاقی معیار کو نہیں پہنچے کہ جہاد برگ و بار لائے۔ کیا عجب ہے کہ تب قرآنِ کریم کی وہ آیت ان کے ذہن میںرہی ہو''انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ تمہی غالب رہو گے ، اگر تم مومن ہو۔ جہاد اسلام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے ۔اس کا انکار کفر ہے۔ ارشاد ہے کہ جوقوم جہاد تر ک کردے گی، ذلّت و مسکینی اس پر مسلّط کر دی جائے گی ۔ جہاد کی مگر شرائط ہیں اور سخت شرائط۔ درخت نہیں کاٹا جائے گا۔ فصل جلائی نہیں جائے گی ۔ بے گناہ قتل نہ کیا جائے گا۔ بوڑھے ، بچّے اور عورت کو امان ہے ۔ کھیت میں مصروفِ عمل اور کارخانے میں سرگرداں محنت کش کو بھی۔ پھر جہادِ اکبر اپنی اصلاح کا نام ہے ، دوسروں کو ہموار کرنے کا نہیں ۔
ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ پٹھان کوٹ واقعے کا ذمہ دار کون ہے ۔ممکن ہے خالصتان کے فدائین ہی۔ سید صلاح الدین کے بیان پر لیکن تعجب ہوا ، جس میں کشمیر جہاد کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے حملے کی ذمہ داری انہوں نے قبول کی۔ ان کا یہ مدّاح ششدر رہ گیا۔ایک ہفتہ قبل وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِ اعظم مودی نے قیامِ امن کی کوششوں کو مہمیز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی وزیرِ اعظم کے بارے میں اس ناچیز سمیت کسی کے کتنے ہی تحفظات ہوں ، ان کے پیمان کو کوئی سبوتاژ کیسے کر سکتاہے ؟ ان کا عہد پاکستان کا عہد ہے اور فرمانِ الٰہی یہ ہے ''اَوفو بالعہدِ انّ العہد کان مسئولا‘‘وعدے پورے کیا کرو، روزِ حساب ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ 
سید صلاح الدین ایسے جہاندیدہ آدمی کو سوجھی کیا؟ کیا کسی نے انہیں ایساکرنے کا مشورہ دیا یا یہ خود ان کا فیصلہ ہے ؟ جس کسی نے بھی یہ کارنامہ انجام دیا ہے ، ملک کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ایک بارہ سنگھے کی طرح ، جس کے سب سینگ جھاڑیوں میں الجھے ہوئے ہوں ۔ پاکستان بدترین مشکلات کا شکار ہے ۔ کوئی ہوشمند اور کوئی خیر خواہ ان مشکلات میں اضافہ کیوں کرے گا؟
پٹھان کوٹ آپریشن میں بھارتی فوج کی ناکردہ کاری اور نالائقی کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا۔ اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی نالائقی سے مگر ہماری لیاقت ثابت نہیں ہو جاتی ۔ دوسروں کی خامیوں پرنہیں ، زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے ۔ اگر کسی پاکستانی جہادی گروہ نے مہم جوئی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کی سزا ملک کو نہیں ، اسی کو ملنی چاہئیے ۔ 1965ء کے آپریشن جبل الطارق سے لے کر کارگل تک، اگر ہم یہ بھی نہیں سیکھ سکے کہ جنگ مہم جوئی نہیں ، ایک بہت ہی سوچا سمجھا فیصلہ ہوا کرتاہے تو اللہ ہم پر رحم کرے۔ جنگ صرف میدان ہی میں نہیں لڑی جاتی ۔ خطّے اور عالمی سطح پر اس کے سیاسی نتائج ہوتے ہیں۔ شاعر منیرؔ نیازی نے کہا تھا : جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہو جائیں ، اس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا۔ 
پاکستانی ریاست کو بنیادی مسائل درپیش ہیں ۔ امن و امان قائم علی شاہوں ، شہباز شریفوں ، ثنا ء اللہ زہریوں اور پرویز خٹکوں کے رحم و کرم پر ہے ، جس پر استحکام کا انحصار ہوتاہے ۔ پرویز خٹک توخیر کہ ناصر درّانی کو کافی آزادی حاصل ہے مگر باقی صوبوں کا حال کیا ہے ؟ بلوچستان میں فوج نگران ہے ا وروزیرِ اعظم بھی ۔ اس کے باوجود زہری صاحب کے مخالفین اور سرکاری افسر خوفزدہ ہیں ۔ ''سائیں سرکار‘‘ کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ہر تین ماہ بعد تھانہ کلچر بد لنے کا اعلان کرنے والے خادمِ پنجاب کا حال یہ ہے کہ گوجر خان میں بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے شہر ایک بدنامِ زمانہ سیاستدان کے حوالے کر دیا ۔ اسمبلی میں اس کی رکنیت سال بھر سے معطل ہے اور سپریم کورٹ کو جلد ہی اس کی ڈگری پر فیصلہ کرنا ہے ۔ درجنوں مقدمات اس کے سوا ہیں ۔ اس شخص کی خواہش پر ایک دیانت دار پولیس افسر کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ۔نون لیگ کے ارکانِ اسمبلی سمیت سارا شہر چیختا رہ گیا۔ سول سوسائٹی اور وکلا بھی ۔ وزیرِ اعلیٰ کے کان پر مگر جوں تک نہیں رینگی ۔
خد اکی پناہ۔ کب کسی ملک میں ایسا اندھیر مچا ہوگا کہ ریاست کو ایک فیصد رشوت دے کر اپنی کالی دولت سفید کرلو۔ خواہ منشیات سے کمائی ہو یا غنڈہ گردی سے ۔ آگے بڑھ کر حکومت کیا ایک اور قانون منظور کرنا پسند کرے گی؟آئند ہ سے چوری اور ڈکیتی کے مال پر پولیس سودے بازی کر لیا کرے ؟ آدھا ڈاکو کا، آدھا سرکار کا۔عوام کا تو حق ہی نہیں ۔
ٹیکس چوری سنگین جرم ہے ۔ ریاست اگر کمزور ہے ، مجرموں کو فوری اور سخت سزا نہیں دے سکتی تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ ان کے سامنے گھٹنے ہی ٹیک دے ۔ جنہیں ٹیکس چوروں کی مدد سے الیکشن لڑنے اور جیتنے ہوں ؟پانچ برس ہوتے ہیں ،جناب اسحٰق ڈار اس پاک باز آدمی احسن رشید مرحوم کے ہاں تشریف لے گئے اور کہا: ہم نے قسم کھائی ہے کہ اب کرپشن نہ کریں گے ۔ اس مصرعے کی داد انہیں دی جا سکتی ؛البتہ ایک سوال ہے۔ کیا بدعنوانوں کا احتساب نہ کرنے کی بھی قسم کھا رکھی ہے ؟ 
کیا ایسی ریاست جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے ؟ کیا وہ ایک خاص مکتبِ فکر کے انتہا پسندوں کی یرغمال بن کر سرخرو ہو سکتی ہے؟ حضورِ والا! ان کا اپنا ایک ایجنڈاہے ا ور یہ ایجنڈا مذہبی اور روحانی بہرحال نہیں ، سیاسی ہے ۔اور یہ کوئی راز نہیں کہ ان میں سے بعض کے بھارت سے مراسم ہیں ۔ ان کے ایک جنگجو گروہ کا لیڈر ایک پُراسرار واقعہ کے بعد بھارتی جیل سے رہا کر دیا گیا۔اوّل تو یہ کہ جنگ آخری آپشن ہو تاہے ۔ یہ کوئی کھیل نہیں کہ دونوں طرف کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو خطرے میں ڈال دیا جائے ۔ دو ایٹمی ریاستوں کے تصاد م کا خطرہ مول لیا جائے ، جو خدانخواستہ برپا ہوا تو ا س کرّہ ٔ خاک پر شاید زندگی ہی باقی نہ رہے۔ فرض کیجیے ، جنگ لڑنا ہی ہو تواس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ ملک کی حکومت اور یہ ایسی چیز ہے ، جس پر دنیاکی تمام تہذیبیں اور تمام دانشور متفق ہیں ۔ افغانستان اور کشمیر کے تجربے سے ہم کیوں نہ سیکھ سکے کہ اسلحہ غیر ذمہ دار گروہوں کے ہاتھ جا لگے تو نتیجہ کیا ہوتاہے ؟ساٹھ ہزار شہریوں اور پانچ ہزار فوجیوں کی شہادت اور قومی معیشت کی بربادی کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جلد ملنے والا ہے ۔
دشمن ہمارے دفتروں ، سیاسی پارٹیوں اور سرکاری اداروں میں داخل ہو چکا۔ ہمارے میڈیا، سول سوسائٹی اور ایوانِ اقتدارمیں اس کی رسائی ہے ۔ عسکری قیادت نے پے درپے حماقتوں کا ارتکاب کیا اور خدا خدا کر کے سنبھلی ۔ سیاستدان کرپٹ ہیں اور کرپٹ ہی نہیں بعض پرلے درجے کے بے شرم بھی ۔ میڈیا گاہے غیر ذمہ داری کا ارتکاب کرتاہے اور بہت غیر ذمہ داری کا ۔ 
دشمن کی سرزمینیں فتح کر نے کی نہیں ، ہمیں اپناگھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ حضورِ والا، اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ؎
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دین 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved