تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     07-01-2016

گوادر کا یاد گار دورہ

پاکستان نیوی کی لیفٹیننٹ محترمہ حنا مجیب نے مجھے بتایا کہ آپ ہمارے ساتھ گوادر چلیں گے۔ جہاں آپ کو دکھایا جائے گا کہ گوادر بندر گاہ کی ترقی و تعمیر کے علاوہ نیوی کی جانب سے اس کے حفاظتی اقدامات کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد سے بھی چند اخبارنویس آپ کے ساتھ گوادر جائیں گے۔ میرے لئے گوادر بندر گاہ کی ترقی کی براہ راست جانکاری حاصل کرنے کا یہ اچھا موقع تھا؛چنانچہ میں فوراً تیار ہوگیا۔پیر کو نیو ی کے خوبصورت چھوٹے جہاز کے ذریعے‘ جسے نوجوان پائلٹ اُسامہ بن یوسف اڑا رہے تھے، ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم پسنی پہنچے ، جہاں ہم نیوی کی کوسٹر میں بیٹھ کر زمینی راستے سے اگلے ایک گھنٹے میں گوادر پہنچے۔
گوادر شہر کی کل آبادی 90ہزار ہے‘ جبکہ گوادر ضلع کی تین لاکھ کے قریب ۔ ماہی گیری یہاں کا آبائی پیشہ ہے ، لیکن گوادر کی ترقی کے ساتھ ساتھ اب نجی شعبہ بھی معرض وجود میں آرہا ہے، ریئل اسٹیٹ کا کاروبار ایک بار پھر سرگرم ہوگیاہے‘ کچھ عرصہ پہلے اس میں مندی آگئی تھی۔ چین کی مالی امداد(46بلین ڈالر) اور تعاون سے اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوچکا ہے، جس نے گوادر سمیت پورے بلوچستان کے عوام کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان نیوی پی این ایس قاسم کے ذریعہ گوادر کی سمندری حدود تقریباً ساڑھے تین سو ناٹیکل میل کی حفاظت کرنے کے علاوہ گوادر کی بندر گاہ اور اس کے قرب وجوار میں امن و امان کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ گوادر ضلع سے ذرا دور تربت واقع ہے، جہاںدہشت گرد غیر ملکی طاقتوں کے ایما اور مالی امدا د سے پاکستان کے خلاف اکثر تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں جن کی گوشمالی ایف سی کے علاوہ لیویز بھی کرتے ہیں ۔ انٹیلی جنس کی مدد سے ان تخریب کاروں کے خلاف مؤثرکارروائیاں ہوتی رہتی ہیں، جس سے یہ خاصے کمزور پڑگئے ہیں، لیکن کبھی کبھی یہ دوبارہ متحرک ہوکر قومی تنصیبات یا ایف سی کے اہل کاروں پرحملے کرتے رہتے ہیں۔ تربت کے قریب آوران ضلع بھی ہے، جہاں سے یہ تخریب کار سرکاری اداروں ، کارکنوں اور محنت کشوں پر حملہ کرکے خوف و ہراس کی صورتحال پیداکر دیتے ہیں، تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بلوچستان کی سیاسی حکومت ان گمراہ لوگوں کو تخریب کاریوں سے روکنے کی کوشش کررہی ہے اور انہیں باور کرایا جارہا ہے کہ ان کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ بلوچستان کی سیاست اور معاشی سرگرمیوں میں شامل ہوکر پر امن زندگی بسر کریں ۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کی کوششوں کا اچھا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ اور یہ عناصر آہستہ آہستہ ہتھیار پھینک رہے ہیں۔ نیوی ‘گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بڑی تیزی سے فلاحی کام کررہی ہے ۔ہسپتالوں اور سکولوں کے قیام کے علاوہ ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کے نئے طریقوں سے روشناس کرایاجارہا ہے۔نیوی کے زیرانتظام جو ہسپتال اور سکول کام کررہے ہیں ان میں ملازمتوں کے سلسلے میں مقامی لوگوں کودوسروں پرترجیح دی جارہی ہے۔تعلیم یافتہ بلوچی خواتین ان سکولوں میں بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں بیشتر عملہ تعلیم یافتہ بلوچی لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، چھوٹی موٹی نوکریوں کے لئے بھی بلوچیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔چائنا 
ہولڈ نگ کمپنی یہاں پر بلوچی عوام کے لئے ہسپتال اور سکول قائم کررہی ہے،اس کے علاوہ یہ کمپنی (جسے گوادر پورٹ کو چلانے اور ترقی دینے کے سلسلے میں چالیس سال کی لیز ملی ہے)، گوادر شہر کو جدید ترقی یافتہ شہر بنانے کے لئے پاک بحریہ کے ساتھ مل کر ایک مربوط حکمت عملی پر کام کررہی ہے، جس پر جلد کام شروع کردیا جائے گا۔اس وقت گوادر پورٹ پر تین برتھ کام کررہی ہیں ، جبکہ چینی کمپنی آئندہ سالوں میں مزید چھ جدید برتھ تعمیر کرنے کے لئے ضروری کاروائی کررہی ہے، نیوی اس ضمن میں ان کی مکمل رہنمائی کر رہی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گوادر پورٹ کی حفاظت، نگرانی، اورترقی کے علاوہ دیگر امور کے سلسلے میں پاک نیوی چینی کمپنی کے ساتھ کھڑی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے گوادر پورٹ کو فری ٹریڈ زون قرار دے دیا ہے۔ اس طرح آئندہ چند برسوں میں گوادر کے علاوہ پورے بلوچستان میں معاشی ترقی اور مختلف النوع معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہو جائے گا، اگر بلوچستان کے کچھ سرداروں نے اپنی منفی سوچ نہ بدلی تو وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، کیونکہ وقت اور لہریں کسی کا انتظار نہیں کرتیں۔
گوادربندرگاہ کی حفاظت اور ترقی کے لئے کام کرنے والے پاک نیوی کے افسروں اور جوانوں نے اپنے عمدہ اخلاق اور بلاامتیاز خدمت کے ذریعہ بلوچی عوام کے دل جیت لیے ہیں‘ خصوصاً جو نوجوان بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، پاک بحریہ ان کی مدد اور رہنمائی کرتی ہے۔ جبکہ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ ضلع گوادر‘ شہر اور اس کے نواح میں زیادہ سے زیادہ سکول قائم کئے جائیں۔ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کا حصول اہم مسئلہ ہے، جسے نیوی سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کے پلانٹ لگا کر جلد حل کرانا چاہتی ہے۔چینی کمپنی بھی انہی خطوط پر کام کررہی ہے، تاکہ اس شہر کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر آسکے ۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے، جسے بہت حد تک پاک آرمی اور نیوی مل کرکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بلوچی نوجوان پاک آرمی میں شامل ہوکر وطن عزیز کی خدمت کررہے ہیں اسی طرح بحریہ بھی ان نوجوانوں کو اپنے ادارے میں تمام تر سہولتوں کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دے رہی ہے۔ گوادر پورٹ کی ترقی سے بعض پڑوسی ممالک تشویش میں مبتلا ہیں یہی ممالک بلوچی نوجوانوں کو تحریب کاری کے لئے استعمال کررہے ہیں ، حالانکہ انہیں اس تخریب کاری سے کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے ، بلکہ تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved