تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-01-2016

صبر کا زیادہ امتحان نہ لیجیے!

جائز اور معقول بات جو بھی کہے گا ہم اس کی حمایت کریں گے خواہ وہ آصف علی زرداری ہی کیوں نہ ہوں۔ موصوف کے حوالے سے ہمارے بے شمار تحفظات ایک طرف ‘ اور جو باتیں انہوں نے اگلے روز کہی ہیں‘ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ کسی فرد یا ادارے کو اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس معاملے پر ہر باشعور پاکستانی ان کے ساتھ ہے‘ بے شک اس کے لیے کہیں زمین ہموار کی بھی جا رہی ہو‘ یہ مذاق ہم نے کئی بار برداشت کیا ہے لیکن اب یہ گیم نہیں چلے گی‘ کسی بہانے بھی نہیں۔ اگر یہ دھمکی ہے تو یونہی سہی۔ اس لیے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانا ہی حب الوطنی ہے۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پنجاب میں اگر کرپشن ہے بھی تو اس کی نوعیت مختلف ہے‘ یعنی کراچی میں کرپشن کا پیسہ دہشت گردی کی کارروائی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ رینجرز کو سندھ حکومت نے خود بلایا تھا۔ لیکن کیا پنجاب میں ایسا نہیں ہے؟ کیا پنجاب میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود نہیں اور اُنہیں پکڑا نہیں جا رہا؟ اور کیا سہولت کاری کا یہ پیسہ آسمان سے اترتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ کرپشن ہی کا پیسہ ہے۔ چنانچہ پنجاب حکومت جس پر مخالفین طالبان اور دہشت گردوں کے لیے دل میں خصوصی نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں۔وہ رینجرز کو ضرورت کے باوجود کیسے طلب کر سکتی ہے؟ کیونکہ اس کی زد میں یہ خود بھی آئیں گے 
جبکہ پنجاب میں اس کے علاوہ بھی یعنی بھتہ خوری اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں سمیت سب کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جوڑ توڑ کے لیے کرپشن کا نام استعمال کرنا بدترین کرپشن ہے‘ اور سیاسی جوڑ توڑ سے بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ جہاں سیاست ہو گی وہاں جوڑ توڑبھی ہو گا اور اس میں مختلف حربے بھی استعمال کیے جائیں گے جبکہ پنجاب میں مدارس کے حوالے سے بھی آگے نہیں جایا جا رہا۔ متعدد مدرسوں کے خلاف متعلقہ اداروں کی رپورٹس بھی آ چکی ہیں کہ ان کی سرگرمیاں مشکوک ہیں اور جہاں دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے فنڈز کے بارے میں بھی صرف اتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ ان کے اکائونٹس میں چند ہزار روپوں سے زیادہ موجود نہیں ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ انہیں فنڈز کی یہ ترسیل غیر قانونی طریقوں سے کی جاتی ہے۔ اور ‘ اب تو پنجاب میں داعش کی موجودگی کا بھی کافی لیت و لعل کے بعد اعتراف کر لیا گیا ہے جس سے خطرے کی نوعیت اور شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا آج ہی کا بیان ایک کھلی کتاب کی طرح ہے کہ دہشت گردوں 
اور ان کے سہولت کاروں کا گٹھ جوڑ ختم کر کے رہیں گے یعنی جس کام کے لیے سندھ حکومت نے رینجرز کو زحمت دے رکھی ہے پنجاب حکومت وہ خود کرے گی حالانکہ اس کی لحاظ داریوں ہی کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ کرپشن کا خاتمہ نیب اور ایف آئی اے سمیت محکمہ اینٹی کرپشن کے ذمے ہے۔ اگر یہ ادارے سندھ میں کرپشن ختم نہیں کر سکے اور رینجرز کو بلانا پڑا تو وہ پنجاب سے کرپشن کیونکر ختم کر لیں گے جبکہ خود ان محکموں سے تعلق رکھنے والے کئی اعلیٰ افسروں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔
پیپلز پارٹی والے یہ نہیں کہتے کہ کرپشن کے خلاف کارروائی نہ کرو۔ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ پنجاب حکومت کو کیوں مقدس گائے کا درجہ دیا جا رہا ہے جبکہ پنجاب کی دہائی خود صدر مملکت اور چیف جسٹس بار بار دے چکے ہیں۔ پنجاب حکومت اپنی سہولت کی خاطر اقرار نہ کرے تو الگ بات ہے کہ یہاں ہونے والی کرپشن کا پیسہ دہشت گردی میں استعمال نہیں ہو رہا اور یہ محض پیپلز پارٹی کا مطالبہ نہیں بلک عوام اور سوشل میڈیا کی بہت بڑی اکثریت اس جانبداری اور ناانصافی کو شدت سے محسوس کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی یہ بات بھی وزن اور منطق سے خالی نہیں کہ اس کے بُرے اثرات وفاق پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ جانبداری اور ناانصافی کا ایک تاثر اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے بھی زور پکڑ رہا ہے اور جو کچھ اندر خانے ہو رہا ہے وہ سب کو شک و شبہ میں مبتلا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس میں سب سے بڑا اعتراض اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آخر اس کی تفصیلات کو پارلیمنٹ سے کیوں مخفی رکھا جا رہا ہے۔ پختونخوا حکومت نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح ہوتا رہا اور ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم اس منصوبے کی مخالفت اور مزاحمت کریں گے ۔مگر حکومت روزِ اوّل سے محض طفل تسلیوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں ہی سے کام لے رہی ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت کا ٹریک ریکارڈ ایسا ہے اور مختلف معاملات میں یہ سیدھی سیدھی دروغ گوئی سے اس قدر کام لے چکی ہے کہ 
کوئی اس کا اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ۔اسے متنازع بنانے کے سلسلے میں کالا باغ ڈیم کی مثال بھی دی جا رہی ہے جبکہ پنجاب کے دوسرے شہروں کے فنڈز بھی لاہور میں ٹھونسے جانا بجائے خود ایک مستقل اشتعال انگیزی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سو‘ اصل خطرہ جس کی طرف زرداری صاحب نے توجہ دلائی ہے وہ یہی ہے کہ پنجاب حکومت نے اگر انصاف سے کام نہ لیا اور رینجرز کو نہ بُلایا تو یہ کام کسی اور طریقے سے بھی ہو سکتا ہے جبکہ اس ناانصافی کا بوجھ صحیح یا غلط طور پر کہیں اور بھی ڈالا جا رہا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کس سرگرمی سے ہو رہا ہے‘ اور یہ ایک برائے نام ادارہ ہو کر نہیں رہ گیا!
یہ ایک الگ لطیفہ ہے کہ وفاقی حکومت اپنے اس رویے سے جہاں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کر رہی ہے وہاں دانستہ یا نادانستہ طور پر پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بھی واپس لا رہی ہے جو ان حالات کی وجہ سے مظلوم بن کر اُبھر رہی ہے اور اس کا گراف روز بروز اوپر جا رہا ہے ع
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی!
آج کا مطلع
دن رات میرے دل سے گزر مت کیا کرو
اچھا نہیں ہے اتنا سفر مت کیا کرو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved