تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-01-2016

’’ذکرِ سگاں‘‘ بھی ہوجائے!

چند روز ہوئے، ہم گھر کے نزدیک ہوٹل پر معمول کی بیٹھک میں شریک تھے۔ ایک کرسی پر بھائی حسن بھی بہ اندازِ مراقبہ براجمان تھے۔ وہ باذوق ہیں یعنی سخن فہم بھی ہیں اور سخن گو بھی۔ ہم نے جب بھی کوئی اچھا شعر اُن کی سماعت کی نذر کیا ہے، کماحقہ داد پائی ہے۔ بھائی حسن شعر شناس ہیں اور چونکہ ہم جیسوں کو دوست رکھتے ہیں اِس لیے اُن کی ''مردم شناسی‘‘ بھی ہر شبہے سے بالا ہے! اُس دن معلوم ہوا کہ وہ غضب ناک حد تک ''سگ شناس‘‘ بھی ہیں! 
بیٹھک جوبن پر تھی۔ اساتذہ کی جولانیٔ طبع کا ذکر ہو رہا تھا۔ بھائی حسن کلاسیکی شاعری کے چند نمونے سُن چکنے کے بعد مراقبے اور غنودگی کی ملی جلی کیفیت کے غار سے باہر آئے اور ''سگ شناسی‘‘ کے حوالے سے مہارت کے اظہار پر تُل گئے! ہمیں حیرت ہوئی اور پھر ہم کچھ شک میں بھی پڑگئے۔ وہ فرمائش کرکے ہم سے (ہماری) اپنی غزلیں سُنتے ہیں اور اُتنی داد بھی دیتے ہیں جتنی دی جانی چاہیے یعنی سخن شناسی کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اب اُنہوں نے سگ شناسی کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی تو ہم شش و پنج میں مبتلا ہوگئے کہ خدا جانے وہ ہمیں کس زُمرے میں رکھ کر بہ نگاہِ استحسان دیکھتے ہیں! 
بھائی حسن نے ہمیں اصلی و نسلی سگانِ جہاں کی خصوصیات اور قدر و قیمت کے بارے میں بتانا شروع کیا اور اِدھر ہمارا حال یہ تھا کہ سُنتا جا، شرماتا جا! خصوصیات کی بات تو خیر رہنے ہی دیجیے، ہاں اعلٰی نسل کے کتوں کی ہوش رُبا قیمتوں کا سُن کر اپنی بے بضاعتی کا پوری شدت سے احساس ہوا! ؎ 
کیا کہیں کیا ہے زندگی اپنی 
کوئی قیمت نہیں رہی اپنی 
بھائی حسن سُناتے جارہے تھے اور ہم اپنے صحافیانہ مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُنہیں یُوں سُن رہے تھے جیسے کوئی پریس کانفرنس اٹینڈ کر رہے ہوں! بیٹھک میں بھائی فرحان بھی موجود تھے جنہوں نے ''پکچر سپورٹ سسٹم‘‘ کا کردار ادا کیا یعنی بھائی حسن ''خواصِ سگاں‘‘ کی منزل سے گزرتے جاتے تھے اور اُن کی ''سگ بیانی‘‘ کے سلسلے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بھائی فرحان لگے ہاتھوں اسمارٹ فون پر انٹرنیٹ کی مدد سے ہر متعلقہ کتے کا دیدار بھی کراتے جاتے تھے! 
اب تک تو ہم قرب و جوار کے اور خالص اپنے یعنی دیسی کتوں سے واقف تھے، بھائی حسن اور بھائی فرحان کی مہربانی سے ہم جرمن شیفرڈ، بل ڈاگ، نپولین میسٹف، بلیک ہاؤنڈ، ایفنپنشر، ایڈی، ایئر ڈبل ٹیریئر، ایکبیش، اکیتا اینو، ایلینو ایسپانول، امریکن کاکر اسپینیل، امریکن اسکیمو ڈاگ اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن کے ''بُلی کتا‘‘ جیسے کتوں کے خواص، عملی اہمیت اور اُسی کی مناسبت سے پائی جانے والی قدر و قیمت سے کماحقہ واقف ہوئے۔ غالبؔ نے کہا ہے ع 
میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا 
بھائی حسن نے بھی بھائی فرحان کے ساتھ مل کر ایک ''دبستانِ سگاں‘‘ ہماری آنکھوں پر بے نقاب کردیا! اعلیٰ نسل کے کتوں کے خواص اور قیمت کا سُن کر ہم میں اچانک عجز اور انکسار کے جذبات پیدا ہوئے اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جب یہ کتے خواص اور قیمت دونوں ہی معاملات میں ہم سے خاصے آگے نکل گئے ہیں تو اپنے انسان ہونے پر کیا اِترانا! 
ہم نے بھائی حسن کی سگ شناسی کو سراہتے ہوئے عرض کیا کہ اگر وہ تھوڑی محنت اور کریں تو جس طور گزرے ہوئے زمانوں میں تذکرہ مرتب کیا جاتا تھا اُسی طرز پر ''تذکرۂ سگاں‘‘ مرتب کرکے سگ نواز حلقوں سے کماحقہ داد پاسکتے ہیں! 
کتوں کی ایک دو نسلوں میں ہیئت کے اعتبار سے قدرت کی ''فیّاضی‘‘ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ نپولین میسٹف کی کھال اتنی زیادہ اور لٹکی ہوئی ہوتی ہے کہ عام جسامت کے دو تین کتے اُس میں آسانی سے سما جائیں! کمال یہ ہے کہ اتنی زائد اور فاضل کھال کا حامل ہونے پر بھی یہ کتا اپنی کھال میں رہتا ہے، انسانوں کی طرح کھال سے باہر آنے کو بے تاب نہیں رہتا! 
بھائی حسن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جب ہم نے بھی سگ ہائے جہاں کی نسلوں کے بارے میں انٹر نیٹ کی مدد سے کچھ جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ اہلِ جہاں کو اب صرف ایک فکر لاحق ہے ... یہ کہ کتا یا گھوڑا گھٹیا نسل کا نہیں ہونا چاہیے۔ جتنی تحقیق کتوں اور گھوڑوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اُن کی ''ذہنی‘‘ پیچیدگیاں دور کرنے پر کی جارہی ہے اگر اتنی ہی تحقیق انسانوں پر کی جانے لگے تو دنیا کسی حد تک تو رہنے کے قابل ہو ہی جائے! 
اعلٰی ترین نسل کے کتوں کی فہرست پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ اِس معاملے میں بھی امریکا اور یورپ ہی بالا دست ہیں۔ امریکی اور یورپی کتوں نے سب کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ ویسے یہ کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کے لیے جو پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں ان کے پیش نظر اعلٰی نسل کے کتوں کا اُنہی کے ہاں پایا جانا بالکل درست اور ''قریب المزاج‘‘ ہے! اب آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ مغربی پالیسیاں ہمارے مفادات کو کتوں کی طرح بھنبھوڑنے پر کیوں مائل رہتی ہیں! 
ایشیا کی طرف سے لے دے کر ایک بس ہمارا ''بُلی کتا‘‘ ہے جس نے امریکہ اور یورپ کے خوں خوار، شکاری ٹائپ کتوں کو کچھ منہ دے رکھا ہے۔ Gaddi نام کا ایک پاکستانی کتا بھی اس فہرست کا حصہ ہے۔ یہ نام شاید ہماری سڑکوں پر گاڑیوں کا مزاج دیکھتے ہوئے دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں گاڑیاں بھی تو سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے یا پیدل چلنے والے لوگوں پر کتوں ہی کی طرح حملہ آور ہوتی ہیں! ایک اور وجہِ تسمیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ Gaddi جیسے کتوں کو خریدنے کے لیے بڑے نوٹوں کی خاصی موٹی ''گڈی‘‘ درکار ہوتی ہے! 
پوری فہرست میں ڈھنگ کے صرف تین پاکستانی کتے ملے۔ یہ دیکھ کر ہمارا دل بھر آیا اور ذہن میں ایک بے ہنگم سی بھونک گونج کر رہ گئی! جب تک ہم حیوانات کے حوالے سے اپنے اندر جوہر شناسی پیدا نہیں کریں گے اور ''خر پرورانہ‘‘ مزاج کے ساتھ صرف گدھوں کو پروان چڑھاتے رہیں گے تب تک سگ پروری کے میدان میں بھی پھسڈی ہی ثابت ہوتے رہیں گے! 
ہم سمجھ رہے تھے کہ اعلیٰ نسل کے کتوں کی فہرست میں کئی انڈین کتے شامل ہوں گے مگر ہمارا اندازہ تو بالکل غلط نکلا۔ ہمیں ڈھنگ کا صرف ایک انڈین کتا ملا اور وہ بھی فہرست میں خاصا نیچے۔ پھر خیال آیا کیا پتا اعلیٰ نسل کے بیشتر انڈین کتے پاکستان کو بھنبھوڑنے کی کوشش میں کام آگئے ہوں! یا شاید چند ایک پاکستان مخالف پروپیگنڈا مشینری چلانے پر تعینات ہوں! یہ سوچ کر دل کو تھوڑا سُکون ملا کہ چلیے، کم از کم کتوں کی حد تک تو ہم نے بھارت کی علاقائی بالا دستی کا تصور خاک میں مِلا دیا! 
بھائی حسن سُخن شناسی کے منصب پر از خود نوٹس کے تحت فائز ہونے سے تو کچھ نہ پاسکے مگر یہ بات ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ سگ شناسی کے شعبے کو پوری ذہنی تیاری اور دلچسپی کے ساتھ اپنائیں تو نام بھی کمائیں گے اور دام بھی۔ ضمنی یا اضافی فائدہ یہ ہوگا کہ سگ شناسی کے فن میں پختگی آنے سے وہ انسانوں کو بھی خواص کی بنیاد پر پرکھنے کے قابل ہوجائیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved