تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-01-2016

جندال سے سوال تک

سوال جتنے اہم ہیں جواب اتنے ہی ابہام سے بھرپور۔ قانون کی زبان میں ایسے جواب ''Evasive‘‘ کہلاتے ہیں۔ ابہام تب پیدا ہوتا ہے جب جواب دینے والا اس قدر نااہل اور نالائق ہو کہ اسے خود اپنا کیس تک معلوم نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ جواب کو بھی ''قرضِ حسنہ‘‘ سمجھ کر ٹال دے۔
پاکستان کی سرحد سے صرف 25 کلومیٹر کے فاصلے پر پٹھان کوٹ واقع ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہے پٹھانوں کا گاؤں۔ پاکستان میں پٹھان کوٹ کا ابتدائی تعارف 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سامنے آیا‘ جب رات کی تاریکی میں لاہور پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کر کے بھارت پاک سرزمین پر چڑھ دوڑا۔ پٹھان کوٹ کی پہلی وجہء شہرت پاکستان ایئرفورس کے شاہین صفت پائلٹ ہیں‘ جنہوں نے فضاؤں کی تاریخ میں کئی معجزے جنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی برپا کر ڈالے۔ اب پٹھان کوٹ کا نام پاک بھارت تعلقات کا نیا موڑ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سب سے بڑی فوج نے پٹھان کوٹ ایئربیس کے حوالے سے سوالات کا لنڈا بازار لگا دیا۔ یہ سوالات بھارت کے گلے کی ہڈی ہیں‘ جبکہ پاکستانی حکومت کے منہ میں پڑا ایسا چیونگم جس نے ان سوالوں پر حکمرانوں کو گونگے پہلوان بنا دیا‘ لیکن سچ جاننا قوم کا حق ہے۔ اس لیے آئیے پٹھان کوٹ ایئربیس حملے سے پیدا ہونے والے ضروری سوال اور ان کا جواب دیکھتے ہیں۔
پہلا سوال: کیا سات سکیورٹی پردوں میں محفوظ پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ بھارت کا اندرونی کارنامہ ہے یا بھارت میں بیرونی مداخلت؟
اس سوال کا جواب خود بھارت کے مختلف وزیروں اور سرکاری حکام نے دے دیا۔ حملے کے پہلے 15 منٹ میں انہوں نے دعویٰ کیا ''درانداز‘‘ پاکستان سے آئے ہیں اور ایئربیس میں گھس بیٹھے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا ان کے پاس حملے کے مکمل شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ یہ منتر متعصب ہندو قیادت اور جانبدار ہندو میڈیا کئی دن تک پڑھتا رہا‘ جس کے بعد بھارت نے دوستی ایکسپریس واقعہ کی طرح آہستہ آہستہ اپنا تھوکا ہوا چاٹنا شروع کر دیا۔ اس سوال کے بطن سے اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی وفاقی سرکار اور وزارتِ خارجہ نے کئی دن تک میراتھن پاکستان کے خلاف چلنے والے میڈیا ٹرائل میں مجرمانہ خاموشی کا راستہ کس کے کہنے پر اپنایا؟ اس سوال کا جواب میں قوم پر چھوڑ دیتا ہوں‘ لیکن اس قدر اشارا ضرور دوں گا کہ جب بھارتی وزیر اعظم ہمارے وزیر اعظم کو کہہ رہا تھا کہ ہم آپ کو ثبوت دیں گے‘ تو پہلے وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ بے بنیاد بھارتی پروپیگنڈے پر احتجاج کرتے اور پھر بے شک تحقیقات میں مدد کا کہہ دیتے۔
یہاں برسبیلِ تذکرہ وفاقی سرکار اور اس کے طے شدہ ڈھنڈورچی بھی قوم کے سامنے ہیں‘ جو اپنے ملک کی سیاسی لیڈرشپ کا مخالفوں اور ڈھیلی ڈھالی برادرانہ سی مفاہمتی اپوزیشن پر ہائیڈروجن بم بن کر گرتے ہیں‘ لیکن ایک ہفتے تک پاک سرزمین کے بین الاقوامی میڈیا ٹرائل پر شیروں کے اس بریگیڈ میں سے ''ککڑوں کوں‘‘ جتنی آواز بھی نہیں نکل سکی۔
پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے اور قبضے کا مزید اہم سوال بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی گرفتاریوں سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ میری ذاتی رائے )جو موجود واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر قائم ہوئی( یہ ہے کہ پٹھان کوٹ ایئربیس پر قبضہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگر بین الاقوامی میڈیا رپورٹوں پر سَرسَری نظر ڈالی جائے تب بھی یہ کام ''گھر کے بھیدی‘‘ کا ہے۔ اس واقعہ کی ٹائمنگ اور محلِ وقوع کو بھی ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ ٹائمنگ یہ تھی کہ لوہے کا کاروبار کرنے والا شری نوین جندال بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان لایا۔ بلکہ جندال کے علاوہ 120 بھارتی پاکستانی سرزمین پر ویزا لیے بغیر آئے بھی پروٹوکول بھی لیا اور چلے بھی گئے۔ جندال نامی کاروباری بھوت کا سایہ مودی حکومت کے ذریعے دنیا کے کئی ملکوں پر پڑ رہا ہے۔ یہ وہی جندال ہے جس نے مودی کی آمد سے پہلے لاہور سے سر نکالا اور پھر پٹھان کوٹ واقعہ اور بھارتی ایئربیس پر قبضے کی ذمہ داری پاکستان کی حفاظت کے ذمہ داروں پر ڈال دی۔ جندال کی اس حرکت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مزید کس کس راز سے واقف ہے؟ امید ہے جندال کے سربراہ اس کی آواز دوبارہ سنائیں گے۔ فی الحال یہ جان لیجئے کہ جندال کے جال میں نہ مذاکرات ہیں نہ مسئلہ کشمیر کا حل‘ بلکہ جندال خالص ہندو بنیے کی کاروباری چال ہے۔
پٹھان کوٹ ایئربیس پر قبضے کا محلِ وقوع اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ اسی علاقے میں صرف چند ماہ پہلے سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کی مسلسل بے حرمتی ہوئی۔ اسی علاقے میں آپریشن ''بلیو سٹار‘‘ کیا گیا۔ اسی علاقے میں بے انت سنگھ نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سکھوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے۔ اسی علاقے میں پچھلے سال بھارت کے سکھ فوجیوں نے مسلسل احتجاج کیا۔ میں نہیں کہہ سکتا یہ حملہ کس نے کیا‘ لیکن واقعاتی ثبوت بتاتے ہیں بھارت اس حملے سے تین مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اولاً،پاکستان کو عالمی سطح پر تشدد کا ''سہولت کار‘‘ بنا کر پیش کرنا۔ پھر زیرِ دباو ٔرکھ کر مذاکرات کے مقاصد کا حصول۔
ثانیاً، سکھوں کی قدیم خا لصتان تحریک کی جدید لہر کو روکنے کے لیے ریاستی تشدد کا استعمال۔ پٹھان کوٹ واقعہ میں ابھی تک صرف دو سرکاری اہلکار گرفتار ہوئے، دونوں سکھ ہیں۔
تیسرے، دنیا کو یہ پیغام دینا کہ کشمیری دہشت گرد ہیں، حریت پسند نہیں۔ اسی لیے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند لیڈروں نے پٹھان کوٹ ایئربیس حملے کی مذمت کی۔
پاکستان میں اس وقت کچھ امکانات وہ ہیں جو چین کے ساتھ مشترکہ منصوبوں سے پیدا ہوئے‘ جن کے لیے بنیاد پیپلز پارٹی کے دورِ حکو مت میں رکھی گئی‘ لیکن تاپی گیس پروجیکٹ کے ذریعے بھارت رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے کود پڑا۔ چین کے ساتھ حالیہ سرد مہری کوئی راز کی بات نہیں‘ اور دوسرا امکان یہ کہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ مزید توجہ اور بھرپور سفارتکاری سے پیش کرنے کا موقع ہے۔
لاہور میں جندال کے استقبال سے جو سوال اٹھنا شروع ہوئے تھے‘ ان کا جواب جندال کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مسلسل دے رہا ہے۔ بھارت سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی، شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔ جندال گروپ والے راجستھان کا پنک پتھر ایودھیا پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں دوستی کا کھلونا کھول کر اندر سے دیکھنا پڑے گا۔ ساری دنیا میں کھلونا بم استعمال ہوتے ہیں۔ جنگ کے محاذ سے سفارتی جنگوں تک۔
نجانے کیوں ہماری سیاسی قیادت ہر ہنر سے خالی ہاتھ ہے۔ وفاق چلانے سے لے کر فارن پالیسی تک!!
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری
با کمالوں میں گھِر گئے ہیں ہم
روشنی روشنی کی دشمن ہے
کن اجالوں میں گھِر گئے ہیں ہم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved