تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     08-01-2016

تاجر ، حکمران اور ٹیکس

بطور وزیر ِاعظم اپنی تیسری مدت کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے تاجروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ کی دو سکیمیں متعارف کرائیں۔ پہلی سکیم ستمبر 2012ء میں ، جبکہ دوسری 2015ء کے اختتامی ایّام میں سامنے آئی۔ دوسری سکیم کے اہم نکات اور اس کے سیاسی اور معاشی مضمرات گزشتہ ہفتے کے کالم میں زیر ِ بحث لائے گئے تھے۔ 
نئے سال، 2016ء کے پہلے دن وزیر ِاعظم نے بڑے فخر سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ و ہ اپنے وزیر ِ خزانہ سے کہتے رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی ''قابل ِ قدر‘‘ چیز پیش کریں جو طاقتور تاجروں کے لیے ''قابل ِ قبول ‘‘ہو۔ لگتا ہے کہ محترم وزیرِاعظم اس حقیقت سے آشنا نہ تھے کہ فنانس منسٹر ، اسحاق ڈار نے ایمنسٹی سکیم کی آڑ میں غیر دستاویزی معیشت کی حوصلہ افزائی اور کالے دھن کو سفید کرنے والی ایک ایسی سکیم متعارف کرادی ہے جو ناقدین کے مطابق آئین سے براہ ِ راست متصادم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران دھڑلے سے ٹیکس ادا کیے بغیر دولت جمع کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ ملک کے لیے ''بھلائی کے جذبے‘‘ کی آڑ استعمال کرتے ہیں۔ یہ حرکت عوام دشمن، بلکہ مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتی ہے۔ ٹیکس چوری کی سرپرستی کرنا اورقومی وسائل کو لوٹناہمارے حکمرانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ 
وزیر ِ اعظم پاکستان اور اُن کے لیے معاشی ماہرین کو یہ بات یاددلانا برمحل اور مناسب ہوگا کہ ان کی 2013ء میں متعارف کرائی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا کیا حشر ہوا تھا۔ اکیس مارچ 2014ء کو ایف بی آر کے ترجمان نے کراچی میں ہونے والی ایک ورکشاپ میں اعتراف کیاکہ ''اسٹیک ہولڈر ز کی عدم دلچسپی کی وجہ سے وزیر اعظم کی متعارف کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا حوصلہ افزا ردِعمل دیکھنے میں نہ آیا۔ ‘‘اُنھوں نے کہا کہ یہ انتہائی دکھ اور صدمے والی بات ہے کہ صرف تین ہزار افراد نے ہی اس سکیم سے استفادہ کرتے ہوئے اٹھاسی ملین روپے کی معمولی سی رقم ادا کی۔ 
ہمارے طاقتور حکمران اربوں کے ا ثاثے بیرونی ممالک میں رکھتے ہیں۔ اُنہیں طاقتور کاروباری افراد انتخابی مہم چلانے کے لیے بھاری عطیات فراہم کرتے ہیں، اس لیے انتخابات جیتنے کے بعد سیاسی جماعت ان تاجروں کوٹیکس میں چھوٹ کی سکیموںسے فائدہ اٹھا کر غیر دستاویزی معیشت کے ذریعے بھاری کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع فراہم کردیتی ہے۔ اس طرح یہ ''منصفانہ تعاون‘‘ جاری رہتا ہے اور فریقین اربوں روپے مالیت کے اثاثے جمع کرلیتے ہیں۔ اس دولت کا ایک بڑا حصہ بیرونی ممالک میں جمع کیا جاتا ہے۔ جو تاجر پاکستان اور دبئی میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہے ہوتے ہیں، وہ حکومت کی آشیر باد کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔دوسری طرف اخراجات چلانے کے لیے حکومتوں کو ادھار لینا پڑتا ہے لیکن وہ ان تاجروں کو ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اس کے نتیجے میں ملک قرض کے بھیانک جال میں جکڑ اجاچکا ہے جبکہ شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 1.5ٹریلین روپے قرض کی مدمیں ادا کرنے اور سات سوبلین روپے دفاعی اخراجاب کے مختص کرنے کے بعد عوام کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ 
ایف بی آر کے اپنے جائزے کے مطابق انکم ٹیکس میں تاجروں کا حصہ صرف 0.5 فیصد اور سیلز ٹیکس میں تقریباً ایک فیصد ہے۔ تمام طاقتور جاگیردار، جو خود محنت کرنے کی بجائے اپنی زمین بھاری ٹھیکے پر دے کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور تاجر برائے نام انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن وہ طاقتور سیاسی بازوکی مدد سے ٹیکس حکام کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔انکم ٹیکس کے لیے قانون سازی کرنے کی تاریخ ایسی پرویژنز سے بھری ہوئی ہے جن میں بازار کی شٹر کی طاقت کے سامنے حکومت ترمیم کرنے پر مجبور ہوگئی۔ درحقیقت شٹر ڈائون ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں میں مہارت حاصل کرتے ہوئے تاجر طبقہ حکومت سے اپنے ہرقسم کے مطالبات منوا لیتا ہے۔ حکومت چاہے سول ہو یا ملٹری، اُسے تاجروں کو خوش کرنے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دینا پڑتی ہے۔پاکستان کے مختلف ادوار پر نظررکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ 1970ء کی دہائی میں خود تشخیصی سکیم، 1980ء کی دہائی میں فارن کرنسی اکائونٹ یا 1990ء کی دہائی میں فارن ایکس چینج بیئرر سرٹیفکیٹس اوردیگر کئی سکیمیں فعال رہیں۔ اس کے لیے علاوہ ہم نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی بدنام ِزمانہ شق 111(4) بھی دیکھی۔ 
اس سے قطع نظر کہ ٹیکس میں چھوٹ دینے والی نئی سکیم کا کیا حشر ہو، سوال یہ ہے کہ تاجر انکم ٹیکس کے گوشوارے اور سیلزٹیکس کی سٹیٹمنٹ جمع کرانے سے انکاری کیوں ہیں؟یہ بھی درست ہے کہ اس صورت ِحال کا کوئی ایک دوٹوک اور واضح جواب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس خرابی کی ذمہ داری ایف بی آر کے ''خونخوار‘‘تصور سے لے کر معاشرے میں راسخ ہونے والے مسخ شدہ مذہبی نظریات اور دنیاوی لالچ اور سماجی بگاڑ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اگر شہری ایف بی آر پر اعتماد نہیں کرتے تو اس کی ذمہ داری بھی محض ایف بی آر پر عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف تاجر لاکھوں روپے کی زکوٰۃ اور عطیات دیتے ہیں مگر وہ ریاست کو ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایک عمومی تصور یہ بھی ہے کہ حکومتیں ٹیکس کی رقوم کو فضول کاموں اور زیادہ تر اپنے مفاد میں خرچ کردیتی ہیں۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ اُن کی فراہم کردہ رقوم سے اشرافیہ عیاشی کرتی ہے تو پھر وہ بھی ٹیکس ادا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔
تاجروں کی طرف سے اندھادھند منافع کمانے کو مذہبی طبقے کی غلط تشریحات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاجر بینک سے قرض لینے کی بجائے مختلف گروہوںسے رقوم لیتے ہیں، اس طرح وہ اپنی معیشت کو حکومت سے چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس سے ایک متوازی معیشت وجود میں آجاتی ہے جس پر حکومت کی کوئی دسترس نہیںہوتی۔ اسی طرح حکومت تاجروں کی طرف سے اشیائے ضروریات کی من مانی قیمت وصول کرنے کے رجحان کو بھی نہیں روک پاتی۔ قرآن مجید میں اشیائے ضروریہ کی ذخیر ہ اندوزی کی ممانعت آئی ہے لیکن اس کے باوجود نام نہاد علما تاجروں کو بتاتے رہتے ہیں کہ وہ جتنا چاہے ''رزق ِ حلال‘‘ کمائیں اور جس طرح چاہے خرچ کریں۔ علما تاجروں سے صرف زکوٰۃ ادا کرنے کا کہتے ہیں لیکن انہیں ریاست کو ٹیکس اداکرنے کی ضرورت کا احساس نہیں دلاتے بلکہ بعض تو ٹیکسز کے جدید نظام کے خلاف ہیں۔ اس کے نتیجے میں دولت جمع کرنے کی دھن نے معاشرے کو اخلاقی اور سماجی قدروں سے بیگانہ کررکھا ہے۔ تاجر حضرات ناقص اشیا فروخت کریں، گاہگوں کو جعلی اشیا فروخت کرکے دام کھرے کریں، ریاست کو ٹیکس ادا نہ کریں لیکن علما کو خوش رکھیں اور ریاست میں اتنی ہمت نہ ہو کہ اُن پر ٹیکس لگائے تو یہ ملک کیسے چل سکتا ہے؟ اس حمام میں صرف تاجر ہی نہیں، سب کا ایک سا حال ہے۔ 
پاکستان کو بہت سے مسائل نے گھیر رکھا ہے لیکن شاید سب کی بنیاد براہ ِر است ٹیکس کی عدم وصولی ہے۔ریاست عوام کی جان ومال کی حفاظت اور تعلیم، روزگار، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت ہر قسم کے پلیٹ فارم کو اپنے کنٹرول میں کرے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں ہے اور اس کے ذریعے سماجی اصلاح کا کام لیا جائے۔ اس کے ذریعے بنیادی لازمی تعلیم دی جائے۔ پاکستان کو بہت سی سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصول کرے اور اس کا فائدہ عوام تک پہنچائے۔ ملک کے موجودہ حالات دیکھ کر افلاطون کی بات یاد آتی ہے۔۔۔''جب تاجر حکمران بن جائیں تو ریاست تباہ ہوجاتی ہے۔‘‘ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved