آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو توسیع دیے جانے کا معاملہ ایک بار پھر ہوائوں میں گردش کرنے لگا ہے۔ شنید یہی ہے کہ وزیر اعظم انہیں توسیع دینا چاہتے ہیں لیکن صاحب موصوف ابھی اس پر آمادہ نہیں ہیں اور کوئی ذی شعور آدمی اس کے حق میں ہے بھی نہیں۔ جو لوگ اس کے آرزو مند ہیں‘ ان کی دلیل یہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد ضرب عضب میں شاید وہ شدو مد نہ رہے‘ حالانکہ یہ بات ہی بعید از قیاس ہے کیونکہ یہ ایک آدمی کا فیصلہ ہے نہ ہی ایک فرد اسے چلا رہا ہے ۔فوج اس طرح کام کرتی بھی نہیں کیونکہ اس کے اہم فیصلے اور آپریشن متفقہ طور پر کیے جاتے ہیں اور یہی ان کے ڈسپلن کا تقاضا بھی ہے۔ بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی ہے جس کے بغیر اکیلی فوج یا آرمی چیف بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لیے اس حوالے سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ آپریشن ہر صورت اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام میں آرمی چیف کی مقبولیت اس وقت اپنے عروج پر ہے جبکہ سول حکومت شوق سے نہیں بلکہ مجبوراً اس کارروائی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور اپنی حد تک خوفزدہ بھی ہے کہ صفائی ستھرائی کا کراچی میں ہونے والا عمل کہیں اس کے دروازوں پر بھی نہ آ پہنچے۔ دوسرے یہ کہ توسیع لے کر ان کی عزت و احترام اور مقبولیت میں چنداں اضافہ نہیں ہونے والا‘ جیسے جنرل کیانی کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے فوج کے اندر دلسوزی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ
ترقی پانے کے لیے لائن میں لگے ہوتے ہیں ان کی حق تلفی ہوتی ہے‘ جیسا کہ جنرل مشرف کوئی دس سال تک آرمی چیف رہے اور خود ہی اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے ۔ اب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا چاہیے جس میں ایک خدشہ یہ بھی موجود ہے کہ توسیع پانے کے بعد جنرل مشرف کی طرح‘ اس عہدے یا معتبری کو طول دینے کا جذبہ سر اٹھانے لگتا ہے جس میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے اور ڈراپ سین مارشل لاء پر آ کر ہی ہوتا ہے۔
اوپر جس صفائی ستھرائی کا ذکر آیا ہے‘ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ صرف کراچی یا زیادہ سے زیادہ سندھ تک ہی محدود رہے گی کیونکہ اگر یہ اصول تسلیم کر لیا گیا تو پہلے یہ کار خیر گھر سے شروع کرنا پڑے گا ورنہ کوئی اسے کھلے دل سے تسلیم کرے گا نہ خوش آمدید کہے گا اور جہاں جہاں خود فوج کے اندرپانی مرتا ہے ‘ اس سے صرف نظر کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اس لیے معاملہ کے کراچی سے آگے بڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بیشک اسے ایک کھلی جانبداری قرار دیا جائے گا اور سندھ میں بے چینی اور بدامنی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ پنجاب میں اسی طرح کے آپریشن کا مطلب ہو گا وفاقی حکومت سے ٹکر لینا اور جس سے حکومت کا چھابا اُلٹ بھی سکتا ہے جس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ خود ضرب عضب متاثر ہو گا کیونکہ اس سے فوج کے درد سر میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر کارروائی صرف سندھ تک ہی محدود رہتی ہے تو بھی اس کا اثر ضرب عضب پر پڑے گا کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا بنیادی نعرہ ہی یہ ہو گا کہ پنجاب کو بچایا اور صرف سندھ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس طرح کرپشن کی ساری کہانیاں پس منظر میں چلی جائیں گی اور ایک نیا کھڑاگ کھڑا ہو جائے گا۔ حکومت کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کے خلاف ایکشن کے حق میں نہیں ہے گزشتہ دس سالہ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ بعض معروف وجوہ کی بناء پر یہ دونوں ایک دوسری کے خلاف جا ہی نہیں سکتیں کیونکہ دونوں ایک دوسری پر انحصار کرتی ہیں بلکہ اندر سے یک جان و دو قالب ہیں اور یہ شدید خواہش بھی رکھتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طرف بڑھنے سے ہر صورت روکا جائے۔ چنانچہ ایکشن پلان پر جس بے دلی سے پیش رفت ہو رہی ہے‘ اس سے حکومتی مزاج کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
تاہم‘ موجودہ صورتحال کے نتیجے میں فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اسے اس بات کا کوئی خدشہ نہیں کہ بین الاقوامی طور پر اس کے لیے کوئی مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ اس میں سب سے زیادہ اہمیت امریکہ کو حاصل ہے جس کی یہ اپنی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پوری حکومت کی بجائے ایک ہی فرد سے معاملہ کرنا اس کے لیے کہیں آسان ہو گا۔ اور اس کے ٹریک ریکارڈ سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ دوسری سب سے بڑی زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس کا خیر مقدم کرے گی‘ اس اُمید میں کہ بنیادی مسائل جو حل نہیں کئے گئے‘ اور جن کے جلد حل کا کوئی امکان انہیں نظر بھی نہیں آتا کیونکہ حکومت کی جملہ ترجیحات خود عوام دشمن ہیں۔
فوج کے لیے یہ اطمینان بخش اس لیے ہو گا کیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ حکومت کی طرف سے اندر خانے دہشت گردی کے خاتمے میں عدم یا نیم دلچسپی سے خود ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے جبکہ ملک کے اصل سٹیک ہولڈر سیاستدان نہیں‘ خود فوج ہے۔ دکاندار لوگ تو کہیں بھی دکان سجا کر بیٹھ جائیں گے۔ انہیں مُلک کی جتنی ضرورت تھی انہوں نے پوری کر لی‘ اگر کچھ اور دستیاب ہوتا ہے تو وہ بونس ہے۔ پھر ‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اعمال کی بناء پر ان کے لیے یہاں تو خطرات ہی خطرات ہیں جبکہ منتخب ہونے کی متھ بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اقتصادی راہداری ‘ منصوبہ بھی فوج ہی کے کنٹرول میں چل سکتا ہے کیونکہ حکومت نے اپنے مخصوص مفادات اور ضد کی وجہ سے اسے وقت سے پہلے متنازع بنا دیا ہے اور اس پر جھوٹ پر جھوٹ بولے چلی جا رہی ہے اور کوئی اس پر اعتماد بھی نہیں کرتا۔ ترجیحات یہ ہیں کہ حکومت کے نزدیک پاکستان کا مطلب پنجاب ہے اور پنجاب کا مطلب صرف لاہور ہے جہاں یہ خود رونق افروز ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کی کامیابی نے حکومت کا دماغ مزید خراب کر دیا ہے اور سریے میں مزید سختی آ گئی ہے اور ‘ ہر چہ بادا باد کے خناّس نے سروں میں اپنی مستقل جگہ بنا لی ہے* لیکن معاملات اس طرح سے نہیں چل سکتے ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ تماشہ لگوا کر رہے گی ع
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
آج کا مطلع
مدت سے کوئی بات کوئی گھات ہی نہیں
کیا عشق ہے کہ شوقِ ملاقات ہی نہیں