تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-01-2016

میکروفنانس، منطق، انڈہ اور اس کی ماہیت

مورخہ یکم جنوری 2016ء کو یعنی گزشتہ ہفتے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ''چھ کھرب کا نقصان اور اسحاق ڈار کی چھلانگیں‘‘۔ اس کالم پر آنے والی دیگر ای میلز کا کیا ذکر کہ وہ خود ستائشی میں شمار ہو گا، ہاں ایک ای میل ایسی تھی جس میں میرے قاری نے میرے جی بھر کر لتے لیے۔ قاری کا نام کیا لکھنا کہ قاری صرف قاری ہوتا ہے۔ پیسے خرچ کر کے اخبار خر یدتا ہے پھر اپنا قیمتی وقت لگا کر ہماری بری بھلی تحریریں پڑھتا ہے۔ اس خرچے اور مشقت کے بعد یہ اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کر ے، سو، میرے اس قاری نے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے ایک مختصر سی ای میل میں میری حتی المقدور طبیعت صاف کی۔ اس ای میل سے مجھے مرحوم چیمہ صاحب یاد آ گئے۔ چیمہ صاحب ایمرسن کالج میں پروفیسر تھے اور ڈانٹتے ہوئے پورے ابلاغ سے کام لیتے تھے۔ طالب علم کے بارے میں یہ جانے بغیر کہ وہ کس لسانی طبقے سے ہے، ایک ہی لفظ کے سارے متبادل ترجمے ایک ہی سانس میں کر دیتے تھے۔ مثلاً اگر کسی طالب علم کو ڈانٹتے ہوئے کسی احمق جانور سے تشبیہ دینا مقصود ہوتا تو ایک ہی جملے میں اسے کہتے ''اوئے! کھوتے، گدھے، ڈنکی۔ تو یہ کیا کر کے لے آیا ہے؟ اس سے ہر طرح کا طالب علم پوری طرح مستفید ہوتا اور کسی قسم کے ابہام کے بغیر ان کے ابلاغ سے فیض یاب ہوتا۔ میرے اس قاری نے گو کہ چیمہ صاحب کی طرح ایک ہی لفظ کے متبادل ذخیرے سے کام نہیں لیا، لیکن انگریزی کی دو سطروں میں جس طرح معاملہ لپیٹا ہے میں ان کی انگریزی پر دسترس اور اختصار نویسی کا قائل ہو گیا ہوں۔ تا ہم وہ ابلاغ میں چیمہ صاحب سے مار کھا گیا ہے۔
میرے اس قاری نے میرے یکم جنوری والے کالم کے اعداد و شمار پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جو لکھا ہے مناسب ہے کہ انگریزی میں ہی لکھ دوں کیونکہ مجھے گمان ہے کہ ترجمہ اس کا کماحقہ احاطہ نہ کر پائے گا۔ قاری محترم نے لکھا ہے کہ You Invariably always miscalculate, misinterpret, and misrepresent National Accounts and Macrofinance Indicators. یعنی ''آپ ہمیشہ بڑی استقامت سے مسلسل غلط حساب کتاب، جھوٹی تعبیرات اور ہیر پھیر کے ذریعے قومی میزانیے اور معاشی اشاریے کو پیش کرتے ہیں‘‘۔
میں نے اپنا یکم جنوری والا کالم دوبار پھر سے پڑھا تا کہ دیکھ سکوں کون سی غلطی ہوئی ہے اور کہاں پر اعداد و شمار میں ڈنڈی ماری ہے۔ پہلے تو عنوان کو بغور دیکھا کہ اس میں غلطی نہ ہو۔ اس میں چھ کھرب روپے اور اسحاق ڈار کی چھلانگوں کا ذکر تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے اسحاق ڈار کی چھلانگوں کی تعداد نہیں لکھی تھی وگرنہ اسے ثابت کرنا تو اس عاجز کے بس سے مکمل طور پر باہر تھا۔ اب معاملہ رہ گیا چھ کھرب روپے اور گانٹھوں کی تعداد وغیرہ کا جو میں نے لکھی تھیں تو مجھے اپنی ایک فاش غلطی فوراً ہی نظر آ گئی۔ سندھ کی گزشتہ سال کی کپاس کی کل پیداوار انتالیس لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو گانٹھ تھی جو میں نے رائونڈ کرتے ہوئے انتالیس لاکھ چوہتر ہزار لکھ دی اور اس طرح تعداد میں پانچ سو گانٹھ کی جونا قابل تلافی ڈنڈی ماری اور اس کے نتیجے میں اس فاش ترین غلطی سے جو حسابی کتابی گڑ بڑ ہوئی ہے اس سے ظاہر ہے پوری قوم گمراہ ہوئی لہٰذا میں اس کالم میں اپنی اس اعداد و شمار کی غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ میرے قاری کو غصہ کسی اور پر تھا اور نکل گیا اس عاجز پر کہ '' نزلہ برعضو ضعیف ‘‘ والا معاملہ تھا۔ ویسے پنجابی میں ایسی صورتحال کے لیے زیادہ مناسب محاورہ موجود ہے تا ہم اس مناسب محاورے کا لکھنا کچھ زیادہ مناسب نہیں۔
ایسے کالموں میں دو قسم کی غلطیوں کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایک اعداد و شمار میں اور دوسری ان اعداد و شمار کی وسیع تناظر میں تشریحات کے دوران۔ میرے قاری کا خیال اگر ان تشریحات کے بارے میں ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ تشریحات تو سب کی اپنی اپنی ہوتی ہیں۔ اسحاق ڈار دودھ دہی وغیرہ پر ٹیکس لگا کر اعلان کرتے ہیں کہ غریبوں پر اس اضافے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ غریبوں کا خیال اس سے قطعاً مختلف ہے۔
میں نے اپنے یکم جنوری کے کالم میں ملک میں چوالیس لاکھ گانٹھ کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے تقریباً چھ کھرب روپے کے نقصان کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جب میں نے وہ حساب کتاب لکھا تھا تب میرے پیش نظر پی سی جی اے یعنی پاکستان کا ٹن جنرز ایسوسی ایشن کی مورخہ اٹھارہ دسمبر2015ء کی رپورٹ تھی جس میں، میں نے رجائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندازاً کہا تھا کہ مزید چودہ لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کی امید ہے؛ تا ہم اکتیس دسمبر2015ء کی رپورٹ آنے کے بعد میرا خیال تبدیل ہو گیا ہے۔ یکم جنوری کے کالم میں، میں نے کل متوقع پیداوار ایک کروڑ چار لاکھ گانٹھ لکھی تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں چوالیس لاکھ گانٹھ کم تھی مگر تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک بانوے لاکھ اناسی ہزار ایک سو پانچ گانٹھ آئی ہے (میں پوری تعداد اپنے قاری کے تنقیدی خوف سے لکھ رہا ہوں) پیچھے فصل بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اگر ایک پنجابی لفظ کے مطابق ''ہونجا‘‘ بھی پھیر لیا جائے تو پیداوار پچانوے لاکھ گانٹھ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اب صورتحال مزید خراب نظر آتی ہے اور پیداوار میں کمی چوالیس لاکھ کے بجائے تریپن لاکھ سے زیادہ ہے۔ مختصر الفاظ میں اس سال کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں چھتیس فیصد کم ہے جبکہ یہ پورے پاکستان کا معاملہ ہے ،پنجاب کی صورتحال ازحد خراب ہے۔ پنجاب کی کل پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں انچاس فیصد کم ہے، یعنی تقریباً نصف۔ یہ پورے پنجاب کی صورتحال ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں حالات بد ترین حد تک خراب ہیں کہ یہاں لوگوں کی فصل گزشتہ سال کے مقابلے تیس سے چالیس فیصد ہوئی ہے اور ساٹھ سے ستر فیصد کم ہے۔ جنوبی پنجاب عمومی طور پر اور ملتان، خانیوال، وہاڑی اور پاکپتن خصوصی طور پر برباد ہو گئے ہیں۔
پچیس لاکھ گانٹھوں اور اس سے نکلنے والے بنولے کی صافی قیمت ایک کھرب سڑسٹھ ارب بنتی ہے۔ ویلیوایڈیشن کے اعداد و شمار محض اندازاً ہوتے ہیں ۔ اگر اس روئی کا دھاگہ بنایا جائے اور اوسطاً فرض کریں کہ یہ سارا دھاگہ بیس کائونٹ کا موٹا دھاگہ ہے نہ کہ چونسٹھ کائونٹ کا فائن دھاگہ تو پچپن لاکھ گانٹھ، جس میں ہر گانٹھ ایک سو چھپن کلو گرام کی ہے ، اس سے بننے والے دھاگے کی قیمت موجودہ مارکیٹ ریٹ ایک سو پانچ روپے فی پائونڈ (دھاگہ آج بھی پائونڈ کے حساب سے بکتا ہے) دو کھرب تیس ارب روپے سے زیادہ کا بنتا ہے۔ ابھی فائن کائونٹ کے دھاگے کو فرض نہیں کیا حالانکہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اسی ایک پائونڈ دھاگے سے آدھ پائونڈ وزن کی تیار شرٹ کی قیمت دو ہزار روپے کے لگ بھگ ہے اور تیار کپڑا پانچ سو روپے فی پائونڈ کے لگ بھگ ہے۔ اس ویلیوایڈیشن کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل سیکٹر میں کل نقصان چھ کھرب سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اگر بنولے کو شامل کریں اور اس سے بننے والی کھل، تیل، سالونٹ انڈسٹری کو جمع کر لیں تو نقصان اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
مجھے ایک بات کا اعتراف ہے کہ مجھے Macrofinance Indicators اورNational Accounts کا بالکل پتہ نہیں ہے مگر مجھے یہ ضرور پتہ ہے کہ اگر پنجاب میں کپاس کی پیداوار کا نصف برباد ہو جائے تو کاشتکار کا کیا حال ہوتا ہے۔ آدھی کپاس اگر درآمد کرنی پڑے تو ملکی زرمبادلہ پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ گزشتہ دو سال سے فصلوں کے برباد ہونے والے کاشتکار کا اس کمر توڑ نقصان نے کیا حال کیا ہے۔ پاکستان دنیا میں سپننگ کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ ایشیا میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ملکی جی ڈی پی کا ساڑھے آٹھ فیصد صرف ٹیکسٹائل سے آتا ہے۔ پاکستان بھر میں کام کرنے والوں کا تقریباً اڑتیس فیصد کپاس کی صنعت سے وابستہ ہے۔ کپاس سے وابستہ ایکسپورٹ ہماری کل ملکی ایکسپورٹ کا ساٹھ فیصد ہے اور کل ملکی پیداوار کا چھیالیس فیصد ہے۔ تیرہ لاکھ کاشتکار براہ راست کپاس کی فصل سے جڑے ہوئے ہیں۔ چار سو سے زائد ٹیکسٹائل ملز، ستر لاکھ سے زائد سپنڈلز، تیس ہزار کے لگ بھگ لو مز(آٹومیٹک /شٹل لیس)، اڑہائی لاکھ سے زائد لومز (گھریلو صنعت) سات سافٹ ویئر، چار ہزار گارمنٹس یونٹ (دو لاکھ سلائی مشینیں) چھ سو پچاس رنگائی اور چھپائی وغیرہ کے یونٹ، گیارہ سوسے زائد جننگ فیکٹریاں، تین سو کے لگ بھگ آئل یونٹ (بڑے پیمانے پر) بیس ہزار کے لگ بھگ چھوٹے آئل ایکسپیلرز (کوہلو وغیرہ )۔ یہ سب کچھ پاکستان کی کپاس سے جڑا ہوا ہے۔ چالیس فیصد سے زائد کپاس برباد ہو گئی ہے۔ اور ہم میکرو فنانس انڈیکیٹرز کا رونا رو رہے ہیں۔ 
ایک نوجوان منطق کی تعلیم لیکر بیرون ملک سے واپس گائوں آیا تو صبح ناشتے کی میز پر بیٹھے اس کے والد نے پوچھا کہ وہ باہر سے کیا پڑھ کر آیا ہے۔ لڑکے نے کہا لاجک (Logic) ۔ باپ نے پوچھا اس کا مطلب کیا ہے؟ بیٹے نے کہا اس کا مطلب ہے منطق۔ باپ بولا یہ تو پہلے سے بھی مشکل ہے۔ مجھے اس کا مفہوم مثال سے سمجھائو۔ بیٹا کہنے لگا ابا جی یہ ہمارے سامنے ایک فرائی انڈا پڑا ہے۔ آپ کے نزدیک محض یہ ایک انڈا ہے لیکن منطق سے میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ محض ایک انڈا نہیں۔ ایک اس کی ماہیت بھی ہے۔ باپ نے اکلوتا انڈا اٹھا کر اپنی روٹی پر رکھا اور کہا۔ پتر! میں اس انڈے سے روٹی کھا رہا ہوں تم اس کی ماہیت سے اپنے سلائس لگا کر کھا لو۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ پنجاب کی کپاس کی آدھی فصل تباہ ہو گئی ہے۔ اگر آپ کے میکرو فنانس انڈیکٹرز اس تعداد کو کم کر سکتے ہیں تو اس عاجز کو آگاہ کر دیں ورنہ یہ سب بھاری بھرکم الفاظ اور اصطلاحات کم از کم میرے لیے تو بالکل بیکار ہیں۔ خدا کاشکر ہے کہ میں ان سے آگاہ نہیں ہوں۔ کیونکہ میکرو اکنامکس انڈیکیٹرز‘‘ پر دسترس رکھنے والوں نے ہی اس ملک کی اکنامکس کا بھٹہ بٹھایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved