تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-01-2016

اسلامیات کا تعلیمی نصاب

نویں جماعت کی طالبہ میری بیٹی کا نتیجہ میرے سامنے آیا توحیرت اور تاسف نے مجھے گھیر لیا۔اسے اسلامیات کے مضمون میں ناکام قرار دیا گیا۔
میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ میں اس پر اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں۔میرے والد دین کے عالم تھے۔ میں نے دینی فضا میں آنکھ کھولی۔ میں نے شعوری کوشش کی کہ یہ روایت بچوں تک منتقل کی جائے۔ بیٹی پڑھنے کے قابل ہوئی تو روایتی مسلمان گھرانے کی طرح قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز ہو گیا۔ایک استانی کو تلاش کیا گیا جو تجوید کے فن سے واقف تھی اور یوں اس کا اہتمام کیا گیا کہ وہ قرآن مجید کو درست لہجے میں پڑھ سکے۔ الحمدﷲ اس نے دو مرتبہ اپنی استانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھا۔ بچوں کے ننھیال ددھیال کی سماجی فضا بھی مذہبی ہے۔میرے گھر میں سب سے زیادہ کتب تفسیر، حدیث اور علوم اسلامیہ ہی سے متعلق ہیں۔ اس فضا میں پروان چڑھنے والی ایک بچی اگر اسلامیات میںناکام ہوئی تو کیوں؟ میں نے اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ اس کا حاصل میں یہاں بیان کر رہا ہوں کہ میرے خیال میں یہ مسئلہ بہت سے بچوں کو درپیش ہو گا۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نویں جماعت کے لیے جو نصاب ترتیب دیا ہے، اس میں سورہ الانفال بمعہ ترجمہ و تفسیر شامل ہے۔تفسیر کے حوالے سے، یہ سورہ قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ غزوہ بدر کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ غزوہ بدر کے واقعات کو جانے بغیر اس سورہ کو سمجھنا مشکل ہے۔ خود اس غزوہ کے محرکات کے باب میں بڑے دقیق مباحث ہیں جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔مولانا مودودی نے ان کے بارے میں لکھا:'' جنگ بدرکے بیان میںتاریخ و سیرت کے مصنفین نے ان روایات پر اعتماد کر لیا ہے جو حدیث اور مغازی کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان روایات کا بڑا حصہ قرآن کے خلاف ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے‘‘۔ ( تفہیم القرآن، جلد 2صفحہ 126)
اس سورہ کے مضامین میں جہاد و قتال ، صلح و جنگ اور دارالاسلام کی آئینی حیثیت جیسے مسائل شامل ہیں۔سورہ کی پہلی آیت ہی یہ ہے کہ''یہ تم سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں‘‘۔اصطلاحی مفہوم میں یہ وہ مال و اسباب ہیںجو فتح کی صورت میںمسلمانوں کے ہاتھ لگتے ہیں۔ دور جدید میںجنگ کی نوعیت یکسر تبدیل ہو چکی۔ مالِ غنیمت کا تصور بھی ذہنوں سے محو ہو چکا۔سوال یہ ہے کہ یہ سارے مباحث ایک نویںجماعت کے طالب علم کی گرفت میںکیسے آ سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر سورہ کی آیت67 سے جو مباحث شروع ہوتے ہیں، ان کی تفسیر مفسرین کے اشکالات سے مملو ہے۔جب میں نے پہلی بار ان آیات کا مطالعہ کیا تو طویل عرصہ شدید الجھن میں مبتلا رہا۔تفسیر کی کتب دیکھیں تومعلوم ہوا کہ مفسرین کی آراء نے تو مولانا مودودی جیسے عالم کو بھی الجھا دیا ہے۔ انہوں نے اس الجھن سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ان کی تفسیر مجھے نہیں نکال سکی۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہو امام امین احسن اصلاحی پرکہ انہوں نے یہاں دست گیری کی۔ کاش لوگ جان پاتے کہ ''تدبر قرآن‘‘ تفسیر کے باب میں کیسا تاج محل ہے جو مکتب فراہی کے اس جلیل القدر فرزند نے تعمیر کر دیا ہے۔میں اس الجھن سے نکلا تو ان آیات کی تفسیر پرایک تقابلی مقالہ لکھا جو میری کتاب ''بیسویں صدی کا فہم اسلام‘‘ میں شامل ہے۔
نویں جماعت کی اس نصابی کتاب کو دیکھا تو اس کی دوسری تمرین میںآیت 67کے بارے میں سوال شامل ہے:'' مندرجہ ذیل 'عبارت‘ کا مفہوم بیان کر یں؟‘‘ آیت کو عبارت کہنے میں کیا حکمت ہے، یہ بھی مجھ پر واضح نہیں ہو سکی۔ میں لیکن یہ سوچتا رہا کہ جس 'عبارت‘ کا مفہوم مفسرین پر واضح نہ ہو سکا ، وہ نویںجماعت کے طالب علم پر کیسے کھلے گا؟
میرے لیے یہ باور کرنا تو مشکل ہے کہ اس نصابی کتاب کے مولفین نے سورہ الانفال کا بالاستیعاب مطالعہ نہیںکیا ہو گا، کیونکہ کتاب میں درج مصنفین کی فہرست میں بڑے بڑے نام ہیں جن میں سے اکثر ڈاکٹرز ہیں۔ گمانِ غالب یہی ہے کہ یہ ڈگری علوم ِ اسلامیہ ہی میں ہو گی۔ اگر اس سورہ کے مطالعے کے بعد اسے نصاب میں شامل کیا گیا تو پھر یہ طے ہے کہ یہ محترم حضرات تعلیمی نفسیات سے قطعی ناواقف ہیں۔طالب علموں کو قرآن مجید اور اسلامیات سے دور کرنے کا اس سے آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے اپنی بیٹی پر غصہ نہیں ،ترس آنے لگا ہے۔
ہر علم کی تدریس‘ تدریج کے مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ تعلیمی نفسیات کا مسلمہ اصول ہے۔سیاسیات کے مضمون میں یہ نہیںہوتا کہ نویں جماعت کے طالب علموں کو بین الاقوامی امور ، جنگ و صلح کے قوانین پڑھائے جائیں۔ طب کے طالب علموں کو انسان کے جنسی اعضاء کی تفصیل سمجھائی جائے۔ یہ سب علوم طالب علم کی عمر اور تفہیم کی صلاحیت کو سامنے رکھ کر پڑھائے جاتے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ قرآن مجید اور اسلام کی تعلیم میں اس تدریج کا اہتمام کیوں نہیںکیا جاتا ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسلامیات کے نصاب ترتیب دینے والے سیرت اور دینی حکمت سے بھی واقف نہیں۔ مکہ کے تیرہ سالوں میں قرآن مجید نازل ہوتا رہا۔ اس دوران میں جہاد کی کوئی آیت نازل ہوئی نہ حدود و تعزیرات کے نفاذکاحکم دیا گیا۔ہجرت کے بعد سورہ حج کی آیات(39-40) نازل ہوئیں جن میں جہاد ( قتال ) کی اجازت دی گئی۔ یہی معاملہ حدود کے نفاذ کا ہے۔ یہی نہیں روزے جیسی عبادت کا حکم بھی ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوا۔
اسلام کی تعلیمات دین کے ہر شعبے میںراہنمائی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طالب علموں کو ان میں سے کون سا حصہ اور کب پڑھایا جائے۔ سادہ سی بات ہے کہ عمر کا یہ مرحلہ جسمانی اور ذہنی تغیرات کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس میں شخصیت کی اخلاقی اور ذہنی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کا بڑا حصہ عقائد اور اخلاقیات کے باب میں نازل ہو ا ہے۔ سورہ الانفال میںبھی یہ تعلیمات موجود ہیں لیکن ان کا تناظر بالکل دوسرا ہے۔ ضروری یہ ہے اس عمر میں بچوںکو یہ سکھایا جائے کہ اہل خانہ کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اہل محلہ ، عزیز و اقارب کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ بنیادی اخلاقی خصائص کیسے پیدا کیے جائیں۔زندگی جوہری طور پراخلاقی تعمیر چاہتی ہے یا مادی۔ نویںجماعت کے طالب علم کو محاذ جنگ پر جانا ہوتا ہے نہ وزارت خارجہ میں ملازمت کرنی ہوتی ہے کہ اسے جنگ و صلح کے قوانین یا دارالاسلام کے مسائل سمجھائے جائیں۔ اس عمر میں تو اسے ایک معاشرے کا فعال رکن بننا ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ اسے اس حوالے سے تیار کیا جائے۔
بچوں کو اگر فزکس سے متنفر کرنا ہے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں آٹھویں نویں جماعت میں آئن سٹائن اور ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیقات پڑھائی جائیں۔ اس کے بعد دیکھیے کہ وہ فزکس سے کیسے بھاگتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فزکس میںبھی ہم یہی کررہے ہیں ۔ چند روز پہلے ایک انگریزی اخبار میں ڈاکٹر پرویز ہود بائی نے سندھ کے سکولوں میںپڑھائی جانے والی سائنس کی کتب کا جائزہ لیا ہے۔ اسے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ فزکس اور اسلامیات، دونوں میں رویہ ایک ہی ہے۔ اس کے بعد مذہب اور سائنس کے جیسے ماہرین تیار ہو سکتے ہیں، وہ ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ہم اپنے بچوں میں دین کا شعور اور دلچسپی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اس نصاب کی تشکیل نو کی جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved