تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-01-2016

یُوں تو چھوٹی ہے ذات مکھی کی

خاصا عوامی قسم کا یہ محاورہ تو آپ نے بھی سُنا ہی ہوگا کہ باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جہان بھر کے دقیق موضوعات پر بحث و تمحیص کا بازار گرم رہتا ہے اور حال یہ ہے کہ بہت معمولی دکھائی دینے والی چیزوں کو بھی ہم اب تک سمجھ نہیں پائے۔ زندگی کیا ہے اور زندگی کو درست راہ پر ڈالنے والا فلسفہ یا نظریہ کیا چیز ہے‘ اِس حوالے سے کیا خاک سوچیں کہ اب تک ہم مکّھی جیسی عام سی مخلوق کو سمجھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ کہنے کو ذرا سی چیز جس کا وجود اور عدم ایک پیج پر دکھائی دیتا ہے! غالبؔ نے شاید اِسی کی طرف اشارہ کیا ہے ع 
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! 
مگر جب یہی مَکّھی اپنے ہونے کو ثابت کرنے پر تُل جائے تو آن کی آن میں بڑے بڑوں کو خاک چاٹتا کردے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ مَکّھی کے آگے جنگل کا بادشاہ کس قدر بے بس دکھائی دیتا ہے‘ جس کے دہاڑنے سے ہرا بھرا جنگل ویرانے کا منظر پیش کرنے لگتا ہے وہی شیرِ نر اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مَکّھی کو اڑانے یا ہٹانے کی سَکت بھی نہیں رکھتا! جب مَکّھیاں شیر کو ستانے پر کمر بستہ ہوجاتی ہیں تو جنگل کے بادشاہ کو تِگنی کا ناچ نچادیتی ہیں اور وہ بے چارہ اپنے جسم کے مختلف حصوں پر منہ مار مار کر مَکّھیاں اڑانے کی کوشش میں ادھ مُوا سا ہو جاتا ہے! اور اگر آپ جنگل کی زندگی سے متعلق دستاویزی فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں تو مَکّھیوں کے کاٹے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں جنگل کے بادشاہ کو بے بسی کی موت مرتے بھی دیکھا ہوگا! 
مَکّھی کے ہاتھوں زِچ ہونے کے معاملے میں شیر اور انسان ایک ہی پیج پر ہیں! انسان چاہے تو ہاتھی پر قابو پائے اور اُسے اپنی مرضی کے مطابق چلائے مگر جنگل کے بادشاہ کا جینا حرام کرنے والی مَکّھی اشرف الخلائق کا ناک میں دم کرنے پر آجائے تو کس کی ہمت ہے کہ اُسے ایسا کرنے سے روکے؟ شیر ہو یا مَکّھی، جب سامنے آجائے تو ہمیں کیا کرنا ہے؟ پھر تو جو کرنا ہے، اُنہی کو کرنا ہے! گویا انسان کا جینا حرام کرنے کے معاملے میں شیر اور مَکّھی بھی ایک پیج پر ہیں! 
مَکّھی ستم ڈھانے پر آئے تو قیامت ہی ڈھا دیتی ہے۔ بس ایک ذرا آپ کے نظر کے چُوکنے کی دیر ہے، پھر دیکھیے کہ یہ ذرا سی مَکّھی معاملات کو کیا سے کیا کر ڈالتی ہے۔ گھر کے اچھے خاصے ماحول کو مَکّھی ذرا سی دیر میں اِس طور بگاڑتی ہے کہ بندہ بس دیکھتا، دل تھام کر ''زیر لب کے نیچے‘‘ بڑبڑاتا اور ''خاصی گرما گرم سرد آہیں‘‘ بھرتا رہ جاتا ہے! 
بہت سے گھروں میں صبح کے حسین و پُرلطف لمحات میں ایک مَکّھی کی کارستانی میاں بیوی میں تُو تُو میں میں کا بازار گرم کرکے دم لیتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بیگم صاحبہ بڑے چاؤ سے چائے بناکر لاتی ہیں اور ڈرائنگ روم یا برآمدے میں میاں کے آگے دھر دیتی ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ میاں چائے پر ایک نظر ڈال کر سوچتے ہیں ذرا ٹھنڈی ہو جائے تو پئیں گے اور پھر اخبار میں گم ہوجاتے ہیں۔ بس، یہی وہ لمحہ ہے جسے گھر کا سُکون غارت کرنے پر تُلی ہوئی مَکّھی جھپٹ لیتی ہے۔ گرم چائے کی پیالی میں ڈبکی لگاکر مَکّھی جان دے دیتی ہے اور بیگم صاحبہ اِس سانحے کی بنیاد پر میاں کی جان لینے پر تُل جاتی ہیں! مَکّھی پڑی چائے ''کالعدم‘‘ ٹھہرتی ہے یعنی بڑے چاؤ سے بنائی ہوئی چائے بیگم صاحبہ کو کچن کے سِنک کی نذر کرنا پڑتی ہے اور اِس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ بیان کرنے کی ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ آپ شادی شدہ ہیں تو جانتے ہی ہوں گے! بس، یہ سمجھ لیجیے کہ مَکّھی گرم چائے پر خود کش حملہ کرکے خبروں کے رسیا میاں کے لیے جو صورتِ حال پیدا کرتی ہے وہ بجائے خود گرما گرم خبر کا درجہ رکھتی ہے! 
مَکّھی ہی تو دیوار پر لگے ہوئے شیرے یعنی چاشنی کو چاٹنے کے لیے لپکتی ہے اور چھپکلی کو حرکت میں آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ چھپکلی پر بِلّی جھپٹتی ہے اور بِلّی کو متحرّک دیکھ کر کتے کو جوش آتا ہے اور پھر حلوائی کے ٹِھیے پر دُودھ کی کڑاہی زمین کو سیراب کرنے لگتی ہے! 
آپ سوچیں گے نہ مَکّھی ہو نہ اِتنا فساد پھیلے۔ مگر خیر، ایسا بھی نہیں ہے کہ سارا فساد صرف مَکّھی کا پیدا کردہ یا پھیلایا ہوا ہے۔ مَکّھی تو خیر جو ہے سو ہے، اُن لوگوں کی ''دریا دِلی‘‘ کا بھی کوئی جواب نہیں جو آنکھیں بند کرکے مَکّھی کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ آنکھوں دیکھی مَکّھی نگلنے والا محاورہ تو آپ نے بھی سُنا ہوگا۔ اِس معاملے میں قصور مَکّھی سے زیادہ نگلنے والے کا ہوتا ہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضے لیتے رہنے کے عادی جب حالات کا رونا روکر اہلِ جہاں کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن سے یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ آنکھوں دیکھی مَکّھی نگلنے جیسے قرضے لیتے رہنے کا مشورہ کس بزرجمہر نے دیا تھا! 
توبہ ہے صاحب، مَکّھی کے تذکرے میں ہم بزرجمہر کو کہاں لے آئے! ایسا نہیں ہے کہ مَکّھی چھوٹے موٹے معاملات ہی میں خرابی پیدا کرتی ہے۔ چائے، سالن، شربت یا سُوپ میں گرکر گڑبڑ پھیلانے کے علاوہ بھی مَکّھی بہت کچھ کرتی ہے۔ آپ یہ ہُنر جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، مَکّھی اچھی طرح جانتی ہے کہ کب ''لو پروفائل‘‘ میں رہنا ہے اور کب اپنا پروفائل اپ گریڈ کرکے خبروں میں آنا ہے! خبروں میں رہنے کا فن کچھ شوبز کے لوگوں ہی کا حصہ نہیں، مَکّھی بھی پلک جھپکتے میں کوئی بڑی واردات کرکے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں جگہ پانے کا ہر گُر اچھی طرح جانتی ہے! 
انڈونیشیا میں ایک مَکّھی نے اپنا وجود منوانے کی ٹھانی تو کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں، مسافروں سے بھرا ہوا طیارہ روک دیا! اندرون ملک پرواز کے لیے طیارہ جکارتہ ایئر پورٹ پر بالکل تیار حالت میں کھڑا تھا۔ ٹیک آف سے چند لمحات قبل پائلٹ کی چَھٹی حِس نے مخبری کردی کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ کسی اور نے کچھ کہا ہوتا تو ٹال دیا جاتا مگر جب خود پائلٹ نے محفوظ پرواز کے حوالے سے 
تحفظات کا اظہار کیا تو روانگی موخّر کرنا پڑی۔ ری چیک کا پروسیجر شروع کرنے پر معلوم ہوا کہ طیارے کی رفتار بتانے والی ''پیٹوٹ ٹیوب‘‘ کام نہیں کر رہی۔ سیر حاصل جائزہ لینے پر انکشاف ہوا کہ ایک مَکّھی نے پیٹوٹ ٹیوب میں داخل ہوکر جان قربان کرتے ہوئے رفتار بتانے والے نظام کا بھٹّہ بٹھادیا ہے! مَکّھی بھی جاندار ہے اور ایک جاندار کا خُون رائیگاں نہ گیا یعنی مَکّھی کی ''قربانی‘‘ کا بھرپور مان رکھتے ہوئے پائلٹ نے طیارہ اڑانے سے صاف انکار کردیا! تکنیکی خرابی دور کرنے میں چار گھنٹے لگے۔ متعلقہ عملے سے گرین سگنل ملنے ہی پر پائلٹ نے اپنی نشست سنبھالی۔ 
اب تو آپ کو مَکّھی کے کمالات کا معترف ہوجانا چاہیے۔ اب تک آپ کا گمان یہ تھا کہ طیاروں کی روانگی میں تاخیر صرف وی آئی پیز یا وی وی آئی پیز کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ایک مَکّھی بھی اگر چاہے اور بضد ہو تو ٹیک آف موخّر کرادے اور طیارے کو ٹس سے مس نہ ہونے دے! ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ انتہائی اہم سمجھی جانے والی شخصیات مَکّھی سی بے وقعت ہوتی ہیں بلکہ ہم تو یہ ''عظیم نکتہ‘‘ بیان کر رہے ہیں کہ کوئی مَکّھی بھی ٹھان لے تو اعلیٰ شخصیات کی برابری کرکے دم لے! 
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک خاصے پس ماندہ رہ گئے ہیں۔ وہاں طیاروں کی روانگی میں تاخیر اب تک مَکّھی جیسی عام سی مخلوق کی محتاج ہے! شاید اِن ممالک میں پروازوں کی روانگی موخّر کرانے والی اعلیٰ شخصیات کی کمی ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم ایسے برآمد کرنا شروع کردیں تاکہ اقوامِ عالم مَکّھی جیسی معمولی مخلوق کی محتاج ہونے سے بچ جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved