میں اکثر اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ حکومت پاکستان نے اقتصادی راہداری کے پاکستانی حصے کا چارج‘ ایک وفاقی وزیرکے سپرد کر کے‘ اس پر رازداری کے پردے کیوں ڈال دیئے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ چین کے اس وسیع تر منصوبے کے تحت پاکستان کے حصے میں جو نقشہ آیا تھا‘ اسے جوں کا توں پاکستانی قوم کے حوالے کر دیا جاتا‘ خصوصاً ان حصوں کے عوام کے لئے ‘ جہاں سے اس کاریڈور کا غالب حصہ گزرنا ہے۔ میں نے اس کاریڈور کے نقشوں کے بارے میں جو پڑھ رکھا ہے‘ اس کے مطابق یہ سڑک گوادر سے شروع ہو کر‘ بلوچستان سے گزرتی ہوئی‘ خیبرپختونخوا میں داخل ہو جاتی ہے اور گلگت بلوچستان سے ‘ زنجیانگ میں داخل ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں اگر یہ کہیں سے گزرتی بھی ہے تو محض تھوڑے سے علاقے کو چھو کر گزرتی ہو گی۔ لیکن یہ سڑک تعمیر کرنے کے پیچھے جو اصل مقصد کارفرما ہے‘ وہ ہے جنوبی چین سے ملحق‘ پسماندہ پاکستانی علاقوں کو ترقی دینا تاکہ مذکورہ دونوں صوبوں کے عوام کی غربت‘ پسماندگی ختم ہو اورحالات زندگی میں بہتری آئے اور وہ آسودہ اور پرامن زندگی گزار سکیں۔ خود بھی خانہ جنگی کی صورتحال سے نکلیں اور جنوبی چین میں بھی دہشت گردی کے رجحانات ختم ہوں۔ مجھے خبروں سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اصل سٹیک ہولڈرز‘ جن کے علاقوں سے اس کاریڈور کو گزرنا ہے‘ انہیں پاکستانی حصے کا پورا نقشہ دکھایا ہی نہیں گیا۔ اصل نقشے پر رازداری کے پردے ڈال کر‘ ایک وزیرکو مامور کیا گیا ہے اور وہ دونوں پسماندہ صوبوں کے نمائندوں کو اصل نقشہ دکھانے سے گریزاں ہیں۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ان صوبوں پر انگریز بہادر کی حکومت ہو اور اسی کے نمائندے ‘اصل منصوبوں کو مقامی لوگوں سے خفیہ رکھتے ہوئے‘ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے بارے میں عوام کو بتا رہے ہوں۔ میرا اندازہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے لیڈروں کو ابھی تک بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے اور بلوچستان کے اختر مینگل‘ دونوں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ان دو صوبوں میں راہداری کے نقشے سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اپنے صوبوں میں سڑک کا کوئی راستہ بتاتے ہیں اور کبھی کوئی۔ پرویزخٹک نے تو اپنے بیان میں واضح کر دیا ہے کہ یہ راہداری خیبرپختونخوا کے حصے میں آ کر صرف ایک سڑک رہ جاتی ہے‘ جس کا اقتصادی راہداری کے وسیع المقاصد منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔ پرویزخٹک نے تو بیزار ہو کے یہاں تک کہہ دیا کہ وفاقی حکومت ‘ چین کے اس منصوبے پر قبضہ کر کے ہمارے حصے کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو چھین لے جانا چاہتی ہے۔ جو سڑک وہ چین کے سرمائے سے ہمیں بنا کر دے رہے ہیں‘ اسے بھی اپنے ہی پاس رکھیں‘ ہم خود اپنے وسائل سے وہ سڑک بنا لیں گے‘ لیکن وہ چین کے ہمہ جہتی ترقیاتی پروگرام کا حصہ نہیں ہو گی۔ اسلام آباد نے ملک کے اندر ہمہ گیر ترقی کے منصوبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جس طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کو پسماندہ رکھا‘ وہ لوٹ مار کرنے والوں کی مجرمانہ ذہنیت کاعکاس ہے۔
بی بی سی نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں کالاباغ ڈیم منصوبے کو بھی ایک قومی منصوبے کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن ملک کے باقی حصوں کے لئے اس میں کچھ نہیں رکھا گیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹے صوبوں میں کالاباغ ڈیم کے خلاف جذبات بھڑکے اور سندھ اور خیبرپختونخوا کے عوام‘ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کے صوبوں کو ریگستان بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالاباغ ڈیم جو پورے ملک کے لئے ترقی اور زرعی پیداوار کا ذریعہ بن سکتا تھا‘ اسے اسلام آباد کی تنگ نظری نے سندھ اور خیبرپختونخوا کے لئے خطرے اور تشویش کی چیز بنا کر رکھ دیا اور آج ان دونوں صوبوں کے عوام‘ اس کا نام تک برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چین کے اس عظیم ترقیاتی منصوبے کو بھی‘ ان دونوں صوبوں کے عوام میں ناپسندیدہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے‘ جیسے کالاباغ ڈیم کو پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اس میں تیسرا فریق بھی ہے اور وہ ہے منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کرنے والا ملک چین۔ اصولی طور پر ان صوبوں میں چین جو سرمایہ کاری کرے گا‘ اس کی تفصیل پر انہی علاقوں کے باشندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اگر اسلام آباد کے حکمران‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے مستقبل کے بارے میں سوچتے‘ تو آج ان علاقوں کے عوام اور اسلام آباد کے درمیان اتنی بدگمانیاں موجود نہ ہوتیں۔ چین ہمارا دوست ملک ہے اور وہ ہمارے ملک کے پسماندہ علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد کے حکمران‘ وفاقی ذمہ داریوں کے تحت‘ صرف دو چیزوں کا خیال رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ اول یہ کہ چین کا یہ ترقیاتی منصوبہ‘ پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف نہ ہو۔ اس سلسلے میں ماہرانہ اور بنیادی رائے پاک فوج دے سکتی ہے۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں پاک فوج کی ماہرانہ رائے طلب کر کے اپنے فیصلے کریں۔ دوسری جو بات اسلام آباد کے حکمرانوں کو دیکھنے کا اختیار ہے‘ وہ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری پاکستان کے اندر کسی خطرے یا خرابی کا ذریعہ نہ بنے۔ پاک چین دوستی کا ریکارڈ اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ چینی حکومت اور عوام بلاتعطل ‘ پاکستان کی سلامتی‘ بقا اور ترقی کے حامی رہے ہیں اور ان کی قیادت نے مشکل کے ہر موقع پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ نہ تو اقتصادی راہداری میں پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اندرون ملک اس کی وجہ سے کوئی خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔ وفاق کی روح کے مطابق‘ اسلام آباد کی حکومت ‘سارے ملک کے عوام کی ترقی و خوشحالی کی ذمہ دار ہے۔ مناسب تو یہی ہوتا کہ چین کے اس منصوبے کے بارے میںدونوں صوبوں کو اعتماد میں لے کراسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا‘ لیکن اسلام آباد کے حکمرانوں نے ایسا پراسرار
رویہ اختیار کر لیا ہے‘ جیسے یہ کوئی بہت ہی خفیہ منصوبہ ہو۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے رہنمائوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ انہیں پورے منصوبے کی تفصیلات کا علم ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ رازداری کیوں رکھی جا رہی ہے؟ جہاں پر یہ راہداری بنائی جا رہی ہے‘ وہاں کے فرزندان زمین کو اس کا علم ہونا چاہیے‘ کیونکہ جو بھی اچھائی یا برائی اس منصوبے کے اندر ہو گی‘ اس کے براہ راست متاثرین بلوچ اور پختون ہی ہیں۔ منصوبے کی منظوری اور اس میں تبدیلی کا اختیار‘ انہی دونوں صوبوں کے عوام کے پاس ہے۔ وفاق کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں شامل صوبے‘ اسلام آباد کی حکومت کے غلام ہو گئے ہیں۔ بطور شہری‘ وہ اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئے۔ وفاق کا حصہ بن کر انہوں نے ملک کے دفاع‘ سلامتی اور آزادی میں اپنا حصہ ڈالا ہے‘ لیکن صوبائی خودمختاری سے دستبردار نہیں ہوئے اور صوبائی خودمختاری کے تحت‘ وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر‘ جو بھی منصوبہ وفاق کے زیرانتظام بنایا جاتا ہے‘ اس کی منصوبہ بندی اور تعمیر کا اختیار بھی انہی کے پاس ہو۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو خفیہ رکھنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ یہی سوال کے پی کے اور بلوچستان کی نمائندہ قیادت کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے۔ وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہیں کہ منصوبے کی تعمیرکا نقشہ‘ ان سے خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے؟ جو حصہ ان دونوں صوبوں کے اندر بنایا جانا ہے‘ اس کے بارے میں ابھی تک ان دونوں صوبوں کی نمائندہ قیادتوں کو بے خبر کیوں رکھا جا رہا ہے؟ رازداری کا واضح مطلب کسی طرح کی بدنیتی یا فریب کاری ہے۔ دونوں متاثرہ صوبوں کی حکمران جماعتیں یا اپوزیشن‘ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ انہیں اصل منصوبے کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔ آگاہ کرنا تو کیا؟ ان سے باضابطہ منظوری بھی لینا چاہیے۔ اگر وفاق کی حکومت دونوں صوبائی حکومتوں کو اصل منصوبے کی تفصیل سے بے خبر رکھتی ہے‘ تو انہوں نے بجا طوپر کہا ہے کہ پھر ہم یہ راہداری اپنے علاقوں میں نہیں بننے دیں گے۔ ان کی سرزمین کو اگر ایک دوست ملک اپنے ترقیاتی پروگراموں کے تحت استعمال کرتا ہے‘ تو دونوں فریقوں کی رضامندی سے ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں پاکستان کی وفاقی حکومت کا اختیار‘ دونوں متعلقہ صوبوں کے عوام کے پاس ہے۔ اگر اس منصوبے کی تکمیل میں مقامی عوام کا کوئی فائدہ ہے‘ تو وہ خوشی سے اس کی تعمیروتحفظ میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے اور اگر اسلام آباد بیرونی حکمرانوں کی طرح‘ مقامی عوام کو الگ تھلگ اور بے خبر رکھتے ہوئے یہ منصوبہ تعمیر کرنا چاہے گا‘ تو پرویزخٹک نے بالکل درست کہا ہے کہ پھر اس سڑک کو کسی اور طرف سے لے جائو۔ ہم بے خبر اور لاتعلق رہ کر‘ اسے اپنے صوبے میں کیوں تعمیرہونے دیں؟ کالاباغ ڈیم کے فوائد سے کے پی کے اور سندھ کے عوام کولاتعلق رکھ کر پاکستانی عوام کو سازشی انداز میں محروم رکھا گیا‘ تو سمجھ لیں کہ دوست ملک چین کے عظیم ترقیاتی منصوبے کے پاکستانی حصے کو بھی خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ چین نے اپنے منصوبے کو پاکستان میں بے یقینی کی صورتحال میں دیکھتے ہوئے‘ متبادل راستہ بھی سوچ رکھا ہے‘ جس کے تحت یہ سڑک ایران سے ہوتی ہوئی وہیں پہنچ جائے گی‘ جہاں اسے گوادر کی طرف سے جانا تھا۔