اس جمعرات کو سینیٹ کمیٹی کا اجلاس تھا۔ سینٹرز نے اہم ایشوز پر اجلاس بلایا ہوا تھا۔ صدارت کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود کر رہے تھے۔ کچھ دن پہلے میں نے ایک سکینڈل بریک کیا تھا جو اجلاس کے ایجنڈے پر تھا۔ سی ڈی اے حکام کو بھی بلایا گیا تھا کہ انہوں نے بدعنوانی میں کیسے حصہ لیا۔ کہانی کچھ یوں تھی:
کئی برس پہلے دفتر خارجہ کے افسران کی بیگمات کو ایک این جی او بنانے کا خیال آیا۔ سوچا، اس کو چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ کسی سمجھدار نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد میں سو سے زیادہ غیر ملکی سفارت خانے کام کر رہے ہیں، ان سے چندہ اکٹھا کریں؛ چنانچہ غیرملکی سفارت خانوں کے افسروں اور ان کی بیگمات کو بلایا گیا اور ان سے چندہ لینا شروع کر دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس سے فلاحی کام ہوں گے۔ چھبیس لاکھ روپے اکٹھے ہو گئے تو بیگمات نے ان میں سے لاکھوں روپے وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی این جی او کو دے دیے۔ اسی اثنا میں طارق فاطمی کی بیگم نے‘ جو ایم این اے ہیں اور اپنی این جی او بھی چلاتی ہیں، جاپانی سفارت خانے میں اپلائی کیا کہ انہیں گرانٹ چاہیے۔ جاپانیوں نے بھی انہیں ستر ہزار ڈالر چندہ دے دیے۔ دفتر خارجہ کے اثر و رسوخ سے چلنے والی دو این جی اوز کے منہ کو لہو لگ چکا تھا، لہٰذا سوچا گیا‘ اب نیا کیا کام کیا جائے۔ کسی نے یاد دلایا کہ دفتر خارجہ کی این جی او کے پاس دس کنال کا کمرشل پلاٹ پڑا ہوا ہے‘ جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ یہ پلاٹ بھی غیرقانونی طور پر این جی او کو الاٹ ہوا تھا۔ دفتر خارجہ نے زور لگا کر سی ڈی اے کے رولز میں تبدیلی کرا کے اپنی بیگمات کو دس کنال کا یہ پلاٹ صرف ایک کروڑ روپے میں لے کر دیا تھا۔ اس اثنا میں سی ڈی اے کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وہ تمام ریسٹورنٹس اورکاروباری ادارے‘ جو اسلام آباد کے گھروں میں چل رہے ہیں‘ انہیں بند کرایا جائے۔ ادھر ملینیم سکول کے مالک فیصل مشتاق کو پتا چلا کہ دس کنال کا پلاٹ دفتر خارجہ کی این جی او کے پاس برسوں سے پڑا ہے۔ اس نے این جی او سے ایسی ڈیل کی جس سے اس کی اگلی سات نسلیں سدھر سکتی تھیں۔ پہلے فیصل مشتاق نے دفتر خارجہ کی بیگمات کی این جی او کو تین لاکھ روپے چندہ دیا، اس کے بعد اس نے دس کنال پلاٹ کی ڈیل تیار کی۔ بیگمات کی این جی او اور فیصل مشتاق کے درمیان ایک جوائنٹ ونچر کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت طے ہوا کہ فیصل مشتاق دس کنال کے پلاٹ پر سکول بنائے گا اور یہ ننانوے سال اس کے پاس رہے گا۔ وہ اس سکول میں ایک ہزار طالب علموں کو پڑھائے گا اور جو فیس ملے گی اس کا ڈیڑھ فیصد بیگمات کی این جی او کو ملے گا۔ سکول دفتر خارجہ کے افسروں کے بچوں سے ایڈمشن اور سیکورٹی فیس نہیں لے گا اور فیس پر کچھ رعایت بھی دے گا، اسلام آباد کے باقی آٹھ سو سے زائد بچوں سے کمرشل فیس وصول کرے گا۔ یہ ایک ایسی ڈیل تھی جو فیصل مشتاق خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ این جی او کو تین لاکھ روپے کا چندہ دے کر وہ دس کنال کا پلاٹ لے اڑا۔ اگر سکول میں ایک ہزار بچے پڑھیں اور اوسطاً فیس پندرہ ہزار روپے فی بچہ ہو تو وہ ہر ماہ ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کمائے گا۔ تیس لاکھ روپے اخراجات نکال لیں تو ایک کروڑ روپے ماہانہ کی بچت ہو گی اور اس میں سے وہ ڈیڑھ لاکھ روپے این جی او کو دے گا۔ یوں فیصل مشتاق نے کروڑ روپے ماہانہ کمانے کی ڈیل کر لی۔
جب میں نے یہ سکینڈل بریک کیا تو یہ سوالات اٹھائے۔ سی ڈی اے نے کیسے اجازت دی کہ اس سے کوڑیوں کے مول الاٹ کرایا گیا دس کنال کا پلاٹ فیصل مشتاق کو ننانوے برس کے لیے دے دیا جائے؟ سی ڈی اے نے فیصل مشتاق کے لیے لیز الاٹمنٹ رولز میںکیوں تبدیلی کی؟ جب این جی او نے پلاٹ اپنی فلاحی سرگرمیوں کے لیے لیا تھا تو پھر فیصل مشتاق درمیان میں کہاں سے آن ٹپکا؟ کیا دفتر خارجہ کی این جی او نے کسی اخبار میں اشتہار دیا تھا کہ وہ دس کنال کا کمرشل پلاٹ جوائنٹ ونچر کے لیے دینا چاہتی ہے تاکہ بہتر ڈیل مل سکے؟
اس سارے معاملے کو خفیہ رکھا گیا تا آنکہ اس ڈیل کی دستاویزات میرے ہاتھ لگ گئیں۔
جب یہ سکینڈل بریک ہوا تو طلحہ محمود نے اجلاس بلا لیا۔ اس اجلاس میں راحیلہ مگسی نے بھی شرکت کی، فیصل مشتاق جن کے داماد ہیں۔ راحیلہ مگسی نے اجلاس میں مجھ پر چڑھائی کی اور فرمایا، اس صحافی نے اپنی خبر میں کہا تھا فیصل مشتاق سینیٹر راحیلہ مگسی کا داماد ہے۔ اگر فیصل مشتاق ان کا داماد ہے تو اس ساری ڈیل سے ان کا کیا تعلق؟ انہیں بدنام کیا گیا۔ اس پر دوسرے سینیٹرز بھی بھڑک اٹھے اور کہا کہ میڈیا سیاستدانوںکو بدنام کرتا ہے۔ سب کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے داماد نے یہ ڈیل کر لی تھی تب بھی میڈیا کو یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ آپ کا نام لیتا۔ اس طرح سب سینیٹرز نے مل کر راحیلہ مگسی کی دل جوئی کی۔ کسی سینیٹر نے حوصلہ کر کے یہ نہ پوچھا کہ سینٹر صاحبہ! سچا یا جھوٹا، آپ کے داماد کے خلاف الزام تو ہے کہ اس نے دفتر خارجہ کی بیگمات کی این جی او کے ساتھ مل کر ایک ایسی ڈیل کی جس پر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘ اگرچہ آپ اس کمیٹی کی ممبر ہیں، لیکن جب آپ کے داماد کے خلاف اجلاس ہو رہا ہے تو آپ کو اس میں بیٹھنا نہیں چاہیے۔ کسی نے راحیلہ مگسی سے نہ پوچھا کہ آپ کے داماد نے یہ ڈیل کیسے کی؟ کیسے آپ کے داماد کے لیے سب قوانین راتوں رات بدل دیے گئے؟ سی ڈی اے جو ہر روزکچی بستیاں گراتا ہے، اس نے کیسے دس کنال کا پلاٹ دفتر خارجہ کی این جی او کو دے دیا کہ جائو عیاشی کرو۔ پھر اس این جی او نے یہ پلاٹ فیصل مشتاق کو دے دیا کہ مزے کرو۔
تاہم داد دینی پڑے گی سینیٹرزکامل علی آغا، کلثوم پروین اور یوسف بادینی کو جنہوں نے اس مشکوک ڈیل پر سنجیدہ سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ سی ڈی اے کیسے کسی کو دس کنال پلاٹ الاٹ کر سکتی ہے؟ اور کیسے یہ این جی او کسی دوسری پارٹی کو ننانوے برس کی لیز پر دے سکتی ہے؟ کیا دفتر خارجہ اب یہ کاروبار کرے گا؟ سینیٹر طلحہ محمود حیران ہوئے کہ سی ڈی اے تو کسی کو ایک مرلہ زمین نہیں دیتا، ایک این جی او کو کیسے دس کنال کا پلاٹ مل گیا؟ اس پر کچھ ممبران نے کہا: یہ نیب کیس بنتا ہے۔ راحیلہ مگسی نے شور ڈال دیا کہ اتنی جلدی نہ کی جائے۔ یوں سینیٹرز نے اپنی فیلو سینیٹر کے احترام میں یہ ڈیل نیب کو نہ بھیجی۔
دوسری طرف یہ بھی انکشاف ہوا کہ بیگمات کی این جی او کا تو نام تھا ورنہ دفتر خارجہ ہی سی ڈی اے کے ساتھ معاملات طے کرتا رہا اور اس پلاٹ کے لیے تین بار قواعد میں نرمی کی گئی۔ جب پلاٹ الاٹ ہوا تو رولز ریلیکس کیے گئے۔ پھر بیگمات کی این جی او نے کہا: وہ این آر ایس پی کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، اس پر سی ڈی اے نے پھر رولز ریلیکس کیے۔ کچھ عرصہ بعد یہ معاہدہ ختم ہوا تو 2004ء میں تیسری بار سی ڈی اے نے رولز ریلیکس کیے اور پلاٹ فیصل مشتاق کو مل گیا۔ آپ سوچیں، وہ طاقتور لوگ کون ہو سکتے ہیں جن کے لیے سی ڈی اے نے تین بار اپنے رولز تبدیل کیے۔ روزانہ کچی آبادیاں گرائی جاتی ہیں، کسی کے لیے رولز تبدیلی نہیں ہوتے۔
ادھر فیصل مشتاق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی (سٹے آرڈر) لے رکھا ہے کہ حکومت انہیں بچوں کی فیس بڑھانے سے نہیں روک سکتی۔ فیصل مشتاق نے ایک طرف اربوں روپے کا پلاٹ مفت میں لے لیا اور دوسری طرف فرماتے ہیں تعلیم کاروبار ہے، لہذا اس میں حکومت دخل نہ دے۔ اور وہی حکومت انہیں اربوں روپے کا پلاٹ اپنے قوانین تبدیل کر کے دے دیتی ہے۔۔۔۔کمال ہے! تیسری طرف وزارت خارجہ میرے ساتھ ناراض ہے۔ دفتر خارجہ نے پریس ریلیزجاری کیا‘ جس میں میری شدید مذمت کی گئی ہے۔ یہ پریس ریلیز فارن آفس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ فرمایا، رئوف کلاسرا دفتر خارجہ کو بدنام کر رہا ہے۔
کمال ملک ہے! جن لوگوں کو دن دہاڑے اربوں روپے کا فراڈ کرنے پر جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ الٹا میرے خلاف پریس ریلیز جاری کر کے میری مذمت کر رہے ہیں۔ کیا دفتر خارجہ کا یہ کام ہے کہ وہ ایک این جی او کے خلاف خبر پر پریس ریلیز جاری کرے؟ کتنی این جی او کے لیے فارن آفس نے اب تک پریس ریلیز جاری کیے ہیں؟ تو کیا فارن آفس اپنی ذات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟ فارن آفس کے افسروں نے اپنی ان بیگمات کے خلاف تو پریس ریلیز جاری نہیں کیا‘ جنہوں نے درجنوں غیرملکی سفارت خانوں سے چھبیس لاکھ روپے کا چندہ اکٹھا کیا اور ان میں سے چند لاکھ روپے طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو دیے۔ ان بیگمات کی بھی کوئی مذمت نہیں کرتا‘ جنہوں نے اربوں روپے کا پلاٹ مفت میں ایک کاروباری سکول کے مالک کو دے دیا۔
اب آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ پاکستان کی خارجہ کی پالیسی کا بیڑا کیوں غرق ہو چکا ہے؟ جس وزارت خارجہ کے افسران کی بیگمات غیرملکی سفارت خانوں سے چندہ جمع کرکے طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو دیتی ہوں، جاپانی سفارت خانے سے ستر ہزار ڈالر لے کر طارق فاطمی کی بیگم کو دیتی ہوں اور اربوں روپے کا پلاٹ فیصل مشتاق لے اڑے، اس کا یہی حشر ہونا ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
اگر میری مذمت کر کے اور مجھے دھمکیاں دے کر پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت اختیار کر سکتی ہے اور افسران کی بیگمات کی ذاتی این جی او کی کمائی اور چندہ بڑھ سکتا ہے تو جی بسم اللہ تے ستے خیراں!