تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     11-01-2016

تم نے ہی کاٹے تھے میرے ہاتھ …پچھلی جنگ میں

گزشتہ ہفتے چیئر مین سینیٹ برادرم رضا ربانی تشریف لائے۔ان کے سٹاف نے بتایا وہ کراچی کی فلائٹ سے اسلام آباد ائیر پورٹ اور وہاں سے سیدھے میری طرف آئیں گے۔میںتین ہفتے کی جبری رخصت پہ تھا۔رضا ربانی مسلم دنیا کی حالتِ زار پر رنجیدہ تھے اور جذباتی بھی۔میرا اپنا بھی حال مختلف نہیں۔گفتگو کے دوران وہ کئی بار نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے۔اگلے روز انہوں نے کہہ بھی ڈالا''مسلم ممالک پر مصیبت کے وقت او آئی سی کو خاموش ہی رہنا ہے تو اسے ختم کر دیا جائے‘‘۔
قدیم عربی لٹریچر کی ایک معرکتہ آلاراء داستان یوں ہے۔ایک عرب سردار نے اپنے علاقے میں بہترین حکومت بنائی۔ اس کی سرحدوں کو محفوظ کیا ۔اپنے عوام کو وہ سب بھی دے ڈالا جس کا اظہار سورئہ قریش میں یوں ہوتا ہے۔
ترجمہ''اور انہیں چاہیے اس گھر کے رب کی بندگی کریں۔جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور انہیں خوف سے امن بخشا‘‘۔(سورئہ قریش۔آیات 3تا 4)۔
میں نے پچھلے ماہ ایک لیکچر میں کہا، دنیا کا ہر نالائق آدمی ہر قسم کے ٹیلنٹ کا مخالف ہے۔اور دنیا کا ہر ناکام معاشرہ ہر کامیاب معاشرے کا جانی دشمن۔اس عرب سردار کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔یہ تاریخی داستان آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو آپ بیتی کا ایک چھوٹا سا وقوعہ سنا دیتا ہوں۔جن دنوں میں پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا نقیب تھا۔ان دنوں موجودہ وزیر داخلہ چوہدر ی نثار اپوزیشن لیڈر تھے۔میری تقریر کا جواب وہ دیتے اور حکومت کے خلاف ان کی طویل چارج شیٹ کا دفاع میرے ذمے۔ ہمارا رشتہ ہیرو اور وِلن والا تھا۔ایسی ہی ایک زور دار ''ڈبیٹ‘‘ کے بعد میں لابی کی طرف جانے کے لیئے پارلیمنیٹ سے نکلا تو میری پیٹھ پر کسی نے ہاتھ رکھا۔مڑ کر دیکھا تو یہ چوہدری نثار علی خان تھے۔مجھے کہا ''WATCH YOUR BACK‘‘۔ہم مسکرائے اورمیں نے شکریے کے ساتھ ہاتھ ملایا ۔پھر وقت بدلا اور چوہدری نثار علی خان وزیر داخلہ بن گئے۔پنجاب ہاؤس میں مجھے لنچ پر بلایا ۔ان دنوں وہ آٹھ صفحے کا استعفیٰ لکھ چکے تھے۔ جو میڈیا یا ایوانِ اقتدار میں جانے سے پہلے ان کے جگری یار شہباز شریف کے ہاتھ لگ گیا۔وزیروں کے کئی ناکام جرگے انہیں منانے جا چکے تھے۔میں نے انہیں وہ فقرہ یاد دلایا جوا نہوں نے مجھے کہا تھا۔ساتھ ہی انہیں اپنے مرحوم والد ملک علی حیدر کی بات سنائی۔ایک دفعہ کلیام اعوان میں میرے نانکہ سے تعلق رکھنے والے مَلکوں کے دو طاقت ور گروپ آپس میں لڑ پڑے ۔میری والدہ محترمہ کے خاندان سے ایک جرگہ آیا۔والد صاحب کو ساتھ لیا ۔کلیام اعوان پہنچ کر انہوں نے جرگے میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔میں سکول میں پڑھتا تھا۔ میں والد صاحب کے ساتھ تھا۔قصہ مختصر بعد ازاں جرگہ ہوا اور راضی نامہ بھی۔میں نے والد صاحب سے ٹوٹے بکھرے لفظوں میںپوچھا آپ نے جرگے میں بیٹھنے سے انکار کیوں کیا تھا۔۔۔؟کہنے لگے''اس دنیا میںکوئی آپ کا مخالف اور دشمن نہیں۔لیکن آپ کے وقار اور مرتبہ کے دشمن ہر وقت آپ کی پیٹھ پر ہوتے ہیں‘‘ ۔لہٰذا میں نے چوہدری صاحب سے کہا،لوگ آپ کا تماشہ نہ دیکھیں یہی آپ کی فتح ہو گی۔
بات ہو رہی تھی جزیرہ عرب کی جنگجو تاریخ کی۔بہادر اور عادل عرب سردار کو ناکام حسرتیں پالنے والے حاسدوں نے گھیر لیا،پھر اسے اکیلا جان کر للکارا۔ بہادرسردار کھڑا ہوا۔ بازو سے کپڑا اٹھایا اور ہاتھ بلند کر کے کہا کوئی ہے جو میرے ہاتھ کونیچے گِرا سکے؟۔ پیچھے سے آواز آئی ‘ہاں میں گِرا سکتا ہوں۔جنگجو سردار نے مڑ کر دیکھا تو اس کااپنا بھائی بازو بلند کیے کھڑا تھا۔ یہ تنازعہ جنگوں میں تبدیل ہوا۔بہادر عرب سردار قیدی بنااور سزا کے طور پر اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔کچھ عرصے بعد ہاتھ کاٹنے والے بھائی کو بے آسرا پاکر دشمن چڑھ دوڑا۔اس نے بھائی سے مدد مانگی۔اور بھائی کے درد ناک نوحہ کو عرب شاعری میں یوں ابد الآباد تک محفوظ کر لیا گیا ۔اس المناک کہانی کے جنگجو نے بھائی سے کہا تھا ''ظالم میں نے تیرے بھروسے پر ہاتھ کھڑا کیا تھا تو نے ہی اسے کاٹ ڈالا‘‘۔ جس کا مختصر اردو ترجمہ یوں ہے۔
تم نے ہی کاٹے تھے میرے ہاتھ پچھلی جنگ میں
اب تیرے بازو ،کٹیں تو میں مدد کیسے کروں؟
حال ہی میںعرب سپرنگ جس کو میں نے ہمیشہ ''ا یفرو عرب خزاں‘‘کہا‘ اس کی بھی ایک ان کہی داستان 3دن پہلے سامنے آئی۔ سابق امریکی صدرجارج بش جونیئرکے دستِ راست سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اس سے پردہ اٹھایا۔ٹونی بلیئر اعتراف کرتا ہے کہ مجھے لیبیاکے سابق حکمران کرنل معمرا لقذافی نے جنگ کے دوران یہ پیغام بھیجا تھا ''تم مستحکم لیبیا کو دہشت و وحشت گردی کے حوالے کر دو گے۔‘‘ٹونی بلیئر نے تب جواب دیا ، قذافی صاحب آپ کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔مگر اس جنگجو عرب نے بھی صدام تکریتی کی طرح عالمی اتحاد کے خلاف لڑ کر اپنی سرزمین پر جان دی۔اور اپنے لوگوں کے ہاتھوں اپنی مٹی اوڑھ کر بہادری سے ابدی نیندسو گئے۔قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو ،شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور ترک وزیراعظم عدنان مندریس کی طرح۔رضا شاہ پہلوی،ظاہر شاہ افغانی ،مار کوس اور ہماری جمہوریت لمٹیڈ کمپنی کے تاحیات لیڈروں کی طرح معافی نامے ہاتھ میں لے کر وطن اور اہل ِ وطن کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوئے۔جس دن لیبیا میں کرنل قذافی شہید ہوئے۔ اس دن فرانس کے صدرنکولیس سرکوزی اور امریکی صدر بارک اوباما نے ''بن غازی‘‘کی فتح پر نعرے لگائے۔ساتھ لیبیا کے عوام کو مکمل آزادی ملنے پر مبارکباد دی۔اس نعرے بازی کے صرف پانچ سال بعد اسی امریکی صدر کے اوول آفس میں اس کی سرکاری ترجمان نے کھڑے ہوکر اعتراف کیا کہ پانچ سال میں لیبیا برباد ہو گیا ہے۔آج لیبیا میں دو حکومتیںکئی متوازی ریاستیں اور سینکڑوں وار لارڈ دندناتے ہیں۔عراق اور افغانستان کی بربادی کی داستان ہمارے سامنے ہے۔
جنگ کے تھوڑے سے انگارے بھی ملیں تو انہیں ٹھکرا دو ۔یہ تحفہ ہو چاہے ہدیہ۔ 
خون ا پنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
بم گھروں پر گِریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے
زِیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑ ھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہو تی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ ر و تی ہے 
اس لیے اے شر یف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved