تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-01-2016

کھچڑی کالم

مردان سے ڈاکٹر ہُما خاص مہربانوں میں سے ہیں‘ ہمارے کالموں پر جن کی خصوصی توجہ رہتی ہے۔ تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کرتے ہیں‘ اس لیے اچھے بھی لگتے ہیں۔ پہلے پہل تو نام کی رعایت سے کافی عرصہ ہم انہیں خاتون ہی سمجھتے رہے‘ پھر یہ ''افسوسناک‘‘ انکشاف ہوا کہ وہ طبقۂ اناث میں سے نہیں ہیں۔ ان کا تازہ ترین میسج کچھ اس طرح سے تھا کہ عطاالحق قاسمی میں واقعی اگر کوئی خوبی ہو تو ضرور بتائیں جبکہ شریفوں کی چاپلوسی اور ایک ڈرامے کی بناء پر ہی انہیں پی ٹی وی کا چیئرمین لگا دیا گیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک شریفوں یعنی موجودہ حکومت کے ساتھ ان کی قربت کا تعلق ہے تو ہم لوگوں میں سے کتنے ایسے ہیں جو کسی ایجنسی‘ شخصیت‘ جماعت یا ادارے کا مخفی دُم چھّلا نہیں ہیں‘ اور سب باتوں کو تو چھوڑئیے‘ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے مزاح نگار ہیںاور پطرس‘ شفیق الرحمن اور مشتاق احمد یوسفی سے کسی طور کم نہیں ہیں جبکہ مجلس آرائی کے فن میں بھی اُن کے کریڈٹ پر بہت کچھ ہے۔ جہاں تک ٹیلی کاسٹنگ میں تجربے کا تعلق ہے تو سوال وژن کا زیادہ ہے اور تکنیکی مہارت کا کم‘ کیونکہ کوئی بھی ہُنر عقل کے تابع ہوتا ہے‘ اور عقل موجود ہو تو ہُنر جو عقل کے تابع ہوتا ہے‘ تجربے کے ساتھ ساتھ خود ہی آ جاتا ہے۔ انہوں نے عمر بھر اعلیٰ اداروں میں تدریسی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اس لیے تنقید و تنقیص کی بجائے انہیں آپ کی دُعائوں کی زیادہ ضرورت ہے جیسا کہ میں نے اُن کی سالگرہ کے جشن کے موقعہ پر پچھلے سال مانگی تھی اور جو اس طرح سے ہے :
مزاح و طنز نگاری جو تُجھ پہ ناز کرے
شعورِ شاعری بھی خم سرِ نیاز کرے
یہی ہے آج ترے سارے دوستوں کی دعا
کہ اور بھی تری رسّی خدا دراز کرے
دوسری ناگوار اور مایوس کُن اطلاع یہ ہے کہ سردی کے لیے آپ اس بار ترستے ہی رہ جائیں گے‘ حتیٰ کہ 15 جنوری سے باقاعدہ گرمیوں کا آغاز ہو جائے گا۔ اس لیے جو تھوڑی بہت سردی پڑ رہی ہے‘ اسی پر گزارہ کرنا ہو گا‘ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سردیوں کی ساری کسر بھی آنے والی گرمیاں نکالیں گی۔ یہی نہیں بلکہ موسموں کی یہ تبدیلی اور بھی بہت سی تبدیلیاں ساتھ لائے گی۔ شعر و ادب پر بھی جن کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ اور پہلے جو کہا جاتا تھا کہ ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
تو یہ کام فروری مارچ ہی میں شروع ہو جائے گا اور اس طرح حکمرانوں کی خون پسینے کی کمائی میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا‘ اور پہلے جو کہا جاتا تھا کہ ؎ 
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید
تو اب صورت یہ ہُوا کرے گی کہ ع
صبح نکلے ہے ڈانٹتا خورشید
چیل ہر روز انڈہ چھوڑے گی اور بیکری والوں کی چاندی ہو جائے گی ‘ جنہیں محض کچھوے کے انڈوں پر ہی گزر اوقات کرنا پڑتی ہے اور نئی تہذیب کے گندے انڈوں کو باہر گلی میں پھینکنا مزید آسان ہو جائے گا۔ گرم کپڑوں کی چُھٹی ہو جائے گی اور لنڈا بازار ٹھپ‘ لحاف اور کمبل فارغ‘ ہیٹر کی جگہ ایئرکنڈیشنر لے لے گا اور چائے کافی کی جگہ شربت اور لسیّ کا دور دورہ ہو گا‘ حتیٰ کہ لسیّ میں پانی ملانے کا رجحان بھی زور پکڑے گا‘ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
اتنا پانی ملا کے اُس نے 
لسیّ کا بنا دیا ہے لسّا
اور اس طرح پانی کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو گاجو پہلے صرف دودھ میں ملایا جاتا تھا۔ 
''سرائیکی دانش کے ساتھ مکالمہ‘‘ کے عنوان سے شمائلہ حسین کی کتاب موصول ہوئی ہے جسے ملتان انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ ملتان نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ یہ سرائیکی زبان کے مختلف دانشوروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جن میں محمد اسماعیل احمدانی‘ میر حسان الحیدری‘ حفیظ خان‘ اسلم رسول پوری‘ رفعت عباس‘ احسن واگھا‘ اشولال‘ شمیم عارف قریشی‘ جاوید چانڈیو‘ عاشق بزدار اور ارشاد تونسوی شامل ہیں۔
سرائیکی زبان پنجابی ہی کی ایک اور صورت ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ عمر کے لحاظ سے یہ پنجابی سے بھی زیادہ پرانی زبان ہے حتی ٰکہ اُردو نے بھی انہی زبانوں سے جنم لیا جبکہ اُردو کو ری فائنڈ پنجابی بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ پنجابی بولنے والے علاقوں میں جُوں جُوں فاصلہ بڑھتا گیا‘ تُوں تُوں ان کی زبان میں بھی فرق پڑتا گیا اور جسے علاقائی زبان یا بولی کہا جانے لگا۔ خود ملتان میں بولی جانے والی زبان پنجابی اور سرائیکی کا مکسچر ہے۔ تاہم ڈاکٹر انوار احمد کی زیرادارت شائع ہونے والے سہ لسانی جریدے میں پنجابی اور سرائیکی کے حصے الگ الگ ہیں‘ اور جہاں سندھ اور جنوبی پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں سندھی اور سرائیکی کا خوبصورت امتزاج دستیاب ہوتا ہے۔ اس کتاب کی بنیاد ڈائیلاگ یعنی مکالمے پر استوار ہے۔ پیش لفظ ''احوال برجستہ‘‘ میں مصنفہ شمائلہ حسین لکھتی ہیں :
زبانیں اپنے حجم سے نہیں بلکہ عوامی قبولیت کے بل بوتے پر زندہ رہتی اور پھلتی پُھولتی ہیں‘ اسی طرح زبانوں کی آبیاری بھی لسانی ماہرین سے زیادہ اُس خطے کے شاعروں اور ادیبوں کے سبب ممکن رہی کہ جہاں وہ زبان نہ صرف بولی گئی بلکہ شعروادب کا لسانی وسیلہ بنی۔ زبانیں عوامی قبولیت کے درجے پر بھی تبھی فائز ہوتی ہیں کہ جب وہ مقامی اور عوامی ادبیات کا حصہ بن کر گلیوں اور محلّوں کی زینت بنتی ہیں۔ مُجھے کہنے دیجئے کہ کسی بھی خطے کی زبان کی بقا وہاں کے اہل ادب اور دانشوروں کی عطا ہوتی ہے۔ زبان کیا ہے‘ زبان ایک عام آدمی کے لیے محض کلام کرنے کا ذریعہ مگر دانشور کے لیے اپنی تاریخ‘ تہذیب اور ثقافتی اقدار سے مکالمہ کرنے کا ہُنر ہے۔ ایک دانشور ہی جانتا ہے کہ کس طور اور کس مکالمے کی بُنیاد پر اپنی تہذیب اور ثقافت کو عالمی تناظر سے ہم آہنگ کیا جائے...
مُحبی ہُما کا ابھی ابھی ایک اور میسج موصول ہوا ہے۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ اخباری کالم کو کالم ہی سمجھ کر پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ کوئی تحقیقی مقالہ نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی اسے تحقیقی مقالہ ہونا چاہیے کیونکہ تحقیقی مقالوں کے لیے الگ وسائل و ذرائع موجود اور دستیاب ہیں۔ اکثر اوقات تو کالم کا کوئی موضوع ہوتا ہی نہیں اور وہ محض گپ شپ ہی پر مبنی ہوتا ہے اور آپ کی معلومات میں کوئی خاص اضافہ بھی نہیں کرتا۔ اس لیے کالم لکھنے کی طرح کالم پڑھنا اور اس سے لُطف کشید کرنا بھی ایک فن ہے۔ سو‘ کالم کے بارے میں اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں‘ بیشک یہ سنجیدہ لوگوں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ کالم میں حقائق تلاش کرنے کی کوشش بھی اپنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور نہ ہی اپنی رگ تنقید کو اتنا پھڑکانے کی ضرورت۔
آج کا مقطع
دل کا دُعا سے رابطۂ خاص ہے، ظفرؔ
یوں امتیازِ شاخ و شجر مت کیا کرو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved