علامہ نے کیا زندہ شعر عطا کیا ہے ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!
دنیا کیا سے کیا ہوجانے کی منزل سے گزر چکی ہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ ہضم بھی ہوجاتا ہے اور انسان محوِ حیرت ہونے کی زحمت سے چُھٹ گیا ہے۔
میرزا نوشہ نے کہا تھا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی!
اب معاملہ یہ ہے کہ گھر کی ''رونق‘‘ نوحۂ غم کی بھی محتاج نہیں رہی۔ کوئی بھی معاملہ کسی بھی وقت ہنگامہ برپا کرسکتا ہے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے کہ جب کسی معاشرے کو تلپٹ کرنے کے لیے کوئی بڑی اور خاصی ''غور کردہ‘‘ سازش درکار ہوا کرتی تھی۔ اب تو روزمرہ استعمال کی کسی ایک چیز کے دام بھی بلند ہوں تو معاشرے کی سطح گرنے لگتی ہے! ایسے معاشرے بھی ہیں جو اپنے معیار میں پستی متعارف کرانے کے لیے کسی ایک یا چند بڑے واقعات کے محتاج رہتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں کا معاملہ تو یہ ہے کہ بات بات پر گراوٹ کا سامان ہوجاتا ہے۔ دو دن کی ہڑتال ہوجائے، پٹرولیم مصنوعات نہ ملیں تو معاشرے کا تانا بانا بکھرنے لگتا ہے۔ یہی حال کھانے پینے کی اشیاء کا بھی ہے۔ کسی بھی معاملے پر اچانک پریشان اور بے حواس ہو جانے کے معاملے میں پاکستان اور بھارت ایک پیج پر ہیں۔ ہمارے ہاں ٹماٹر یا پیاز کا مہنگا ہوجانا چینلز کی ہیڈ لائنز میں جگہ پاتا ہے۔ یہی حال بھارت کا ہے۔ گزشتہ برس وہاں پیاز، ٹماٹر، آلو اور دوسری بہت سی سبزیوں کے ساتھ ساتھ دالوں نے بھی قیامت برپا کی۔ بھارت میں پیاز، ٹماٹر اور آلو کا بحران کھڑا ہو تو اُسے بٹھانے کے لیے ہماری تاجر برادری ''خیر سگالی‘‘ کے طور پر یہ چیزیں بھارت بھجوانے لگتی ہے مگر دال؟ کوئی بھی دال بھارت کیسے بھجوائی جائے؟ ہماری تو اپنی دال پتلی ہے! اشیائے خور و نوش کے بڑھتے نرخوں کے ہاتھوں غریب کی زندگی اُس دال کی سی ہوگئی ہے جو کسی طور گَلنے کا نام ہی نہیں لے رہی!
اقوام متحدہ نے 2016ء کو دال کا سال قرار دیا ہے۔ یعنی اب سال بھر دال کا غلغلہ رہے گا۔ دنیا بھر میں حکومتیں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے پریشان رہا کرتی ہیں۔ بہت سے خطوں میں گوشت خوری کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ گوشت مہنگا اور لوگوں کی صحت کا حال بُرا ہوگیا ہے۔ گوشت خوری سے صحت کا بیڑا تو غرق ہوتا ہی ہے، گھر کے بجٹ کا سفینہ بھی بھنور میں آجاتا ہے اور پھر اُس سے بمشکل نکل پاتا ہے! جسم کی گنجائش سے بڑھ کر گوشت کھانے سے بہت سی بیماریاں تیزی سے پنپ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہی سب کچھ دیکھتے ہوئے اقوام عالم کو دال کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا بھر میں دو وقت کی روٹی کا تصور پایا جاتا ہے یعنی لوگ دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں خیر سے تین وقت کھانا کھایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ ناشتہ ذرا دیر سے کرتے ہیں اور دو پہر کا کھانا skip کردیتے ہیں۔ اور پھر شام کو ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ حکیم سعید شہید بھی دن میں کھانا نہ کھانے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی اُن کا کہا نہ مانا اور تین وقت یا اِس سے بھی زیادہ مرتبہ کھاکر بیماریوں اور حکیم صاحب کے ادارے کی تیار کردہ ادویہ کا خیر مقدم کیا! حکیم صاحب کے مشورے کو نہ ماننے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ تین وقت پیٹ کا بھرا رہنا کیا ہوتا ہے اور یوں ہمیں پیٹ بھرے کی مستی کے بھی درشن ہوئے!
سبزیاں کھانے سے طبیعت ہری بھری رہتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں بہت سی سبزیاں کچی ہی کھانے کا رواج ہے۔ یعنی تیل چاہیے نہ نمک مرچ۔ اور ایندھن کی بھی ضرورت نہیں۔ پھلوں اور سبزیوں پر تکیہ کیجیے اور گھر کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت پر سے بھی بوجھ گھٹائیے۔
2015 ء کے دوران بھارت میں دالیں اتنی مہنگی ہوگئی تھیں کہ دال خور قوم کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا تھا۔ یعنی دال خور معاشرے کو دالوں نے کھانا شروع کردیا! دالوں نے جو کچھ کیا وہ دادا گیری سے کسی طور کم نہ تھا۔ کم و بیش 8 ماہ تک دالیں عوام کے سینے پر مونگ دَلتی رہیں!
گھر کا بجٹ تلپٹ کرکے قیامت ڈھانے میں ارہر کی دال سرِ فہرست تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جو پندرہ دن میں ایک بار ارہر کی دال کھائے وہ صاحبِ ثروت کہلائے! کوئی گاہک اگر دکاندار سے ارہر کی دال مانگتا تھا تو وہ سر سے پاؤں تک گاہک کو دیکھ کر جائزہ لیتا تھا کہ اِس کی اِتنی اوقات ہے بھی یا نہیں! دکاندار کی آنکھوں سے شیفتہؔ کا یہ شعر ٹپک رہا ہوتا تھا ؎
اِتنی نہ بڑھا ''پاکیٔ دالاں‘‘ کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
دال کا سال منانا بہت اچھی بات ہے کہ اِس صورت میں لوگوں کو گوشت خوری کی راہ سے ہٹاکر دالوں اور سبزیوں کی پگڈنڈی پر گامزن ڈالا جاسکے گا مگر دالیں بھی اب پہلی سی کہاں ہیں؟ ہر چیز کی طرح دال کی بھی صرف ہیئت اور رنگت رہ گئی ہے، ذائقہ اُڑن چُھو ہوچکا ہے۔ مہنگی ہوجانے پر بھی دال سے ذائقہ میسر ہے نہ غذائیت۔ ایسے میں غریب کھائے تو کیا کھائے؟
پاکستان جیسے ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ دالیں بھی غریب کی دسترس سے باہر ہیں یعنی گھر کے بجٹ کے لیے ''سپورٹ سسٹم‘‘ کا کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ بھارت میں ارہر کی دال اور ہمارے ہاں مسور کی دال ایک پیج پر ہیں یعنی غریب کی پہنچ سے دور رہتی ہیں! ہمارے ہاں ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ والا محاورہ برحق ثابت ہوچکا ہے۔ غریب مسور کی دال کھانے کا خواہش مند ہو تو ایک وقت کی ہانڈی میں دو وقت کا بجٹ تلپٹ ہو جاتا ہے! طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دال کو کافی نہیں سمجھتے، اُس میں گوشت ملاکر کھاتے ہیں۔ اب اگر دال گوشت پکائیے تو تین چار دن تک سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پکائیے! اگر ہماری بات پر یقین نہیں آرہا تو قدرے التزام کے ساتھ دال گوشت پکاکر دیکھیے، دال کے ساتھ ساتھ آٹے کا بھاؤ بھی معلوم ہوجائے گا اور یہ سال دال سے زیادہ آپ کے بُرے حال کا سال قرار پائے گا!
طرح طرح کے اُول جلول سال مناتے ہوئے ہم تو اُن پر رشک کرتے ہیں جن کے لیے ہر سال مال کا، بلکہ مال و منال کا سال ہوا کرتا ہے۔ دیکھیے، حالات کے ہاتھوں ادھ مُوئے سے ہوکر جینے والوں کے نصیب میں، اقوام متحدہ کی مہربانی سے، مال کا سال کب لکھا ہے!