تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-01-2016

جاٹ کے سر پر کھاٹ

بچپن میں (اور وہ بھی غالباً نارووال کے پرائمری سکول میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر بیٹھ کر) یہ لطیفہ سنا تھا جو دماغ میں محفوظ ہو گیا۔ ایک دیہاتی اور شہری آپس میں کسی بات پر لڑ پڑے۔ ابھی پاکستان نہ بنا تھا اور مسلمانوں کو آزادی نہ ملی تھی اس لیے وہ اتنے پسماندہ تھے کہ آتشیں اسلحہ کے استعمال سے ناواقف تھے۔ لڑائی کا مطلب ہوتا تھا زبانی کلامی سخت الفاظ کا تبادلہ۔ بات بڑھ جائے تو لاٹھی کا استعمال۔ اس سے بھی آگے بڑھ جائے (جو شاذ و نادر ہوتا تھا) تو پھر کسی تیز دھار آلے سے دُشمن پر ضرب لگائی جاتی تھی۔ کاری ہونے والی ضربات کا تناسب دس میں سے ایک ہوتا تھا۔ اب واپس چلیں اپنے بوسیدہ لطیفے کی طرف۔ شہری نے (جو عام طور پر زیادہ چالاک ہوتے ہیں) حملے میں پہل کی اور دیہاتی کو بددُعا دیتے ہوئے کہا: ''جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ کھاٹ کے وزن سے تمہارا سر اتنا بوجھل ہو جائے کہ اُس میں شدید درد اُٹھے اور تجھے اپنے کیے کی سزا مل جائے۔ دیہاتی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے تُرت کہا: ''او شہری بائو (بابو) تمہارے سر پر کولہو‘‘۔ شہری نے ہنس کر کہا کہ بائو اور کولہو کا تو آپس میں وزن بھی نہیں ملتا، یہ کس طرح کی بے تکی بددعا ہے؟ دیہاتی اطمینان سے بولا: ''وزن ملے یا نہ ملے، میں کون سی شاعری کر رہا ہوں؟ کولہو کے وزن سے تمہاری گردن ضرور ٹوٹے گی اور یہی میرا مقصد ہے۔ اب بتائو کون جیتا؟‘‘ 
یہ تو تھی پرانے وقتوں کی بات۔ اب جاٹ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور فنون لطیفہ میں بھی کامیابی کے بہت سے جھنڈے گاڑے ہیں۔ شاعری میں فیض احمد فیض، گلوکاروں میں ابرارالحق اور عنایت حسین بھٹی، مصوروں میں معین نجمی (جو 1964ء میں میرے ساتھ ایچیسن کالج لاہور میں پڑھاتے تھے اور عنایت حسین بھٹی کے سگے بھائی تھے) فنون لطیفہ سے ہٹ کر دیکھیں تو قانون دانوں میں سر ظفراللہ خان اور سیاست دانوں میں سر شہاب الدین (جو اپنی سانولی رنگت کی وجہ سے علامہ اقبال کے لطائف کا شکار بن کر سب سے زیادہ خود محظوظ ہوتے تھے)۔ سر شہاب الدین پنجاب اسمبلی میں سپیکر کی جس کرسی پر بیٹھے اُسی کرسی پر تیس سال بعد چوہدری محمد انور بھنڈر کو بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اُس وقت یہ اسمبلی صرف پنجاب کی نہیں بلکہ پورے مغربی پاکستان کی تھی (یعنی آج کا پاکستان) 
آپ کے کالم نگار کو برطانیہ (ولایت) میں رہتے نصف صدی ہو گئی۔ یہاں سماجی علوم پڑھے اور برس ہا برس پڑھائے مگر مڑ کر دیکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ 1967ء میں اپنے سر پر جو کھاٹ اٹھائے یہاں آیا تھا (کھاٹ پر بیوی اور تین چھوٹے بچوں کو بٹھا کر) وہ اب بھی میرے سر پر ہے۔ سر کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے مگر وہ کھاٹ ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ بچت یوں ہوئی کہ میرے سر میں (وطن عزیز کے بارے میں) جو تفکرات ہیں ان کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ میرا دھیان سر پر رکھی کھاٹ کے بوجھ کی طرف نہیں جاتا۔ چھ ہزار میل کے فاصلے سے اپنے پیارے وطن اور وہاں کے برے حالات کی چکی میں پستے کروڑوں بدنصیب ہموطنوں کی طرف دیکھتا ہوں تو آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ محبت کی وجہ سے کم اور وحشت کی وجہ سے زیادہ۔ بقول شاعر ؎
لوٹ کر نظر نہیں آئی
اُن پر قربان ہو گئی ہو گی
یہ کالم پڑھنے والے جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں ان کی زندگی کتنی بھی جہنم زار ہو وہ ذہنی طور پر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بارے میں انہیں الطاف گوہر کی شعبدہ بازی نے اس حسن ظن میں مبتلا کر دیا کہ ہم نے بھارت کو شکست دے دی ہے اور اگر امریکہ ہمیں فوجی مدد دینے سے ہاتھ نہ کھینچ لیتا‘ تو ہم دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم ضرور لہرا دیتے اور کشمیر کی آزادی تو صرف چند دنوں کی بات تھی۔ سچائی صرف اتنی تھی کہ ہماری قابل فخر افواج نے ہر محاذ پر اپنی ناقابل یقین بہادری (اور جرنیلوں کی اتنی ہی ناقابل یقین حماقتوں کے باوجود) بھارتی جارحیت کو ناکام بنا دیا، خصوصاً پسرور میں میرے آبائی گائوں تلونڈی عنایت خان سے چند میل دُور چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی میں۔ 1971ء میں ہماری قوم خوش فہمی اور غلط فہمی کی گہری دلدل میں اس طرح ڈوب گئی کہ ابھی تک نہیں نکلی۔ ہماری فوج ہر روز پسپا ہو رہی تھی اور قوم کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ہم معرکے پر معرکہ سر کرتے جا رہے ہیں۔ آخرکار وہ روزِ بد آ گیا جب ہمارے سب سے بڑے شیر (جنرل نیازی) نے ہتھیار ڈال دیے اور دُشمن نے ہمارے نوے ہزار بہادر فوجی قیدی بنا لیے۔ ہر سال جب دسمبر آتا ہے تو ہمارا یہ زخم پھر ہرا ہو جاتا ہے۔ 
اگر آپ میری قابل رحم حالت پر غور فرمائیں گے تو آپ چاہے کتنے سنگ دل ہوں آپ کی آنکھیں تھوڑی سی پُرنم ہو جائیں گی۔ میں اُن دنوں ایکرنگٹن کالج (شمالی انگلستان میں مانچسٹر سے 30 میل دُور) میں پڑھنے جاتا تھا اور ہفتے میں دو بار بی بی سی ریڈیو پر اُردو خبریں سناتا تھا۔ میرے فرائض منصبی میں شامل تھا کہ انگریزی میں نشر ہونے والی خبروں کا سلیس اُردو (جو ابھی تک لکھنا نہیں آیا) میں ترجمہ کر کے غیر جذباتی سپاٹ آواز میں سنا دُوں۔ ہزاروں پاکستانی میری نشریات بڑے دھیان سے سنتے تھے۔ جب اُنہوں نے مجھے پاکستانی فوج کی پسپائی اور آخر میں مکمل شکست کی بری اور دل کو چھلنی کرنے والی خبریں نشر کرتے سنا‘ تو ان کی آنکھوں میں خون اُترآیا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ میں بھارتی ایجنٹ ہوں یا برطانوی خفیہ اداروں کا تنخواہ دار۔ میری جان اور میرے بال بچوں کو اتنا خطرہ درپیش ہو گیا کہ میں پولیس کی کار میں بی بی سی سٹیشن جاتا تھا اور پولیس میرے گھر کی چوبیس گھنٹے حفاظت کرتی تھی۔ گھر میں شیشوں کی کھڑکیوں کے اوپر لگے ہوئے پردوںکو لوہے کی میخوں سے اس طرح دیواروں میں ٹھونک دیا گیا کہ اگر باہر سے اینٹ یا پتھر پھینکا جائے تو وہ کمرے کے اندر گر کر مکینوں کو زخمی نہ کر سکے۔ مشہور اشتراکی رہنما طارق علی (اپنے وقت کے سب سے بڑے صحافی مظہر علی خان مرحوم اور طاہرہ مظہر علی خان کے قابل فخر بیٹے) کی قیادت میں جن دیوانوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کی سیاسی تحریک کے چھ نکات کی حمایت کی ان کی کل تعداد چار تھی (اور یہ کالم نگار اُن میں سے ایک تھا)۔ پاکستان کے ایک بڑے اُردو اخبار نے ہم چاروں پر اپنے اداریے میں لکھا کہ یہ ''بدبخت‘‘ بھارتی ایجنٹ ہیں اور بھارتی حکومت کے وظیفوں پر پلتے ہیں۔ یہ تو بے ضرر تنقید تھی اگرچہ سو فیصدی جھوٹ پر مبنی تھی۔ اصل مصیبت یوں ہوئی کہ کسی بڑے فوجی افسر نے یہ اداریہ پڑھ لیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ ہم پر فوجی عدالت میں غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔ خوش قسمتی سے ہمیں سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل جنرل یحییٰ خان خود قیدی بن گیا۔ یہ ہے وہ صورت حال جس کے بارے میں شیخ سعدی نے پہلے اور فیض صاحب نے بعد میں لکھا ع 
سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
ان دنوں برطانیہ میں کرسمس کی تعطیلات ہیں۔ روشنیوں سے سارا یورپ جگمگا رہا ہے۔ ناممکن ہے کہ میں اپنی ایک دلی خوشی الفاظ میں بیان کر سکوں۔ اس سال حضور پاک کی ولادت کا دن (بارہ ربیع الاوّل) کرسمس سے صرف ایک دن پہلے تھا۔ اس وجہ سے نہ صرف یہ کہ مجھے بلکہ ظاہر ہے کہ ہر مسلمان (فل ٹائم یا میری طرح پارٹ ٹائم) کو روشنیوں کی یہ ساری جگمگاہٹ عید میلادالنبیﷺ کے اعزاز میں لگتی تھی۔ مجھے ان دنوں مطالعہ اور سوچ و بچار اور استغراق (غور و فکر) کا کافی وقت مل جاتا ہے۔ جی کڑھتا ہے کہ میرے اہلِ وطن (خصوصاً اہل پنجاب جو طاقتور سے ڈرتے اور کمزورکو دباتے ہیں) کو کب عقل اور سمجھ آئے گی؟ وہ کب توازن اور اعتدال کا سبق سیکھیں گے؟ سچ سچ بتائیے کہ آپ میں سے کسی ایک شخص نے اپنی ساری عمر میں ایک لحظے کے لیے بھی یہ سوچا کہ پاکستان کے ہزاروں تھانوں میں ہزاروں بے گناہوں کو ہر روز کتنے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیا اسے کہتے ہیں جرم کی تفتیش؟ آپ ہر روز پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں کے بارے میں پڑھتے ہیں مگر آپ کی پیشانی پر ایک شکن بھی نہیں اُبھرتی؟ کیا یہ ہوتا ہے نظام انصاف؟ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی حکومتوں کی پے در پے شکستوں کی اچھی خبریں میرے بوڑھے دل میں چراغ جلاتی ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ امریکہ نے ویت نام سے کیا سیکھا؟ میرے محبوب شاعر W.H. Avden نے 1939ء نے امریکہ کے بارے میں جو لکھا وہ آپ اگلے ہفتے ان کے اپنے الفاظ میں پڑھ لیںگے۔ امریکہ نے ان 76 سالوں سے کیا سیکھا؟ کچھ بھی نہیں۔ لگتا ہے کہ ضدی جاٹ کی طرح امریکہ کے سر پر بھی ایک کھاٹ ہے جو سر سے اترنے کا نام نہیں لیتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved