آج ممولا پھر اکیلا ہی آیا ہے یا تو اس کی محبوب سے کٹی ہوگئی ہے یا اہلیہ سے صلح۔ ہم نے اس سے لڑانے کے لیے ایک شہباز کا بھی انتظام کر رکھا تھا لیکن یہ کسی طور یکسو ہی نہیں ہو رہا۔ بہرحال‘ میاں بیوی کے معاملات ایسے ہی چلتے ہیں۔ محبی عبدالقادر حسن نے آج اپنا کالم صرف مختلف شعراء کے اشعار سے بھر رکھا ہے جن میں خاکسار کے دو مقطعے بھی شامل کیے ہیں۔ اسی طرح برادرم ہارون الرشید بھی کبھی کبھار شعر و شعر ہو جایا کرتے ہیں‘ لیکن آج کچھ موضوعاتی اشعار بھی ہو جائیں۔ ممتاز شاعر‘ نقاد اور مہربان عزیز ڈاکٹر ضیاء الحسن اس شاعری پر ریسرچ کر رہے ہیں جو ہم نے عائلی یا ازدواجی معاملات پر خامہ فرسائی کر رکھی ہے۔ اس سلسلے کے کچھ شعر جو اس وقت یاد آگئے ہیں:
جب سے دل اندھا ہوا آنکھیں کھلی رکھتا ہوں میں
اس پہ مرتا بھی ہوں‘ غافل بھی نہیں گھر بار سے
ایک بیوی ہے چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے‘ لوگ سچے ہیں
پکڑے گئے تو وہ بھی بھگت لیں گے اے ظفر
فی الحال اس کے آگے مکرنا تو چاہیے
اِدھر اُدھر یونہی منہ مارتے بھی ہیں‘ لیکن
یہ مانتے بھی ہیں دل سے کہ ہم کو تُو ہے بہت
محبت سے مکر جانے کی گنجائش نہیں ہے
سو‘ ظاہر ہے کہ گھر جانے کی گنجائش نہیں ہے
ساتھ ساتھ چلتے ہیں سینڈل اور صلواتیں
فرش پر سَنَتّا ہے‘ کھاٹ پر سَنَتّی ہے
کسی کے دشت میں جتنی بھی خاک اڑا لیں ہم
یہ جانتے ہیں کہ آخر تو گھر ہی جانا ہے
بیوی کو لوں کھا لئی بحث دے اندر مات
کِلّی اُتے ٹنگیا رہ گیا کالا کوٹ
گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی
کتے بِلّے آن کر کھا گئے کیک‘ مٹھائیاں
پھرتا ہوں بازار میں‘ رُک جائوں لیتا چلوں
اُس کی خاطر بریزیئر‘ اپنے لیے دوائیاں
پھر سے لکھوائیں‘ ایک بال صفا
تین بنیان‘ چار ٹائلٹ سوپ
وہ تو غرا کے چل رہی تھی‘ مگر
سہما سہما تھا شیر کا خالو
اتنا نہ سنبھال مال مڈی
اندر ہو‘ چل پڑی ہے گڈی
وہ تو گئی ہے میکے
کیوں بیٹھے ہو دبک کر
آدم نہ سہیڑتا یہ جھنجھٹ
ہوتا اگر آدمی کا بچہ
ناں ظفرے نوں بھلیا اَیر پرانے گھر دا
ناں منڈیاں دی ماں نوں پنڈی دیس پسند
آپ ہلتی نہیں ہو بستر سے
اور‘ کہتی ہو مجھ کو اُلٹا بھینس
اُردو کو کیا ہوا تمہاری
چھبیس کو کہہ رہی ہو چھبی
تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے
آدم کے لیے عذابِ حوا
بیگم دہاڑتی ہیں اُدھر ناشتے پہ آئو
اور میں غریب اِدھر ابھی کرنے لگا ہوں برش
سہ ماہی ''انگارے‘‘ ملتان میں شائع ہونے والے سیدہ سیفو کے ایک مضمون کا عنوان تھا‘ ''ظفراقبال کی شاعری میں پھلوں اور سبزیوں کا تذکرہ‘‘ کچھ اشعار پیش خدمت ہیں جو یاد ہیں:
چھلکے سے پھسلے ظفرؔ
کھا کر کیلا پیار کا
رسیلے غضب تھے ظفر اس کے ہونٹ
وہ شہتوت منہ میں گھلا دیر تک
میرے نسخے میں ہے شامل ترے رُخسار کا سیب
اور یہ ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے
پیڑ گننے سے فائدہ کیا ہے
پیڑ کو چھوڑ اور آم کو دیکھ
جھجکتے اور شرماتے وہ اس کا بوسہ اول
لرزنا اور پھر منہ میں بڑے انگور کا گھلنا
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئے صلاح الدین محمود
خربوزے سے ہٹ کر بھی
پکڑا خربوزے نے رنگ
چَرگئی کَکڑی کَکڑ
مکڑی تھی یا مکڑ
اس ناری کے پاس دو
ناگپوری سنگترے تھے
روٹی تھی اس کے تھیلے میں
روٹی پر بھنڈی توری تھی
کلیاں بہہ کے کھاندا
ظفرا یار کریلے
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
عربی فارسی کا ایم اے ہوں
ساگ کو کہنا چاہتا ہوں سعاغ
جسے کتے نہیں قبولتے ہیں
شعر ہے وہ سڑا ہوا آلو
لالو لال ٹماٹر
اس کے گال ٹماٹر
پاس تھوڑی دیر آ‘ اور
شلجموں سے مٹی جھاڑ
مولیاں تو تھیں سخت
اور مونگرے نرم
آج کا مقطع
تعلق جو توڑا تھا خود ہی ظفرؔ
تو پھر کس لیے بیقراری ہے یہ