تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-01-2016

پٹھانکوٹ کے رنگروٹ

26/11 کے ممبئی حملے کے دس دہشت گردوں میں سے بھارت کے ہاتھ اجمل قصاب تو آ گیا لیکن کیا وجہ ہے کہ پٹھان کوٹ کے چھ حملہ آوروں میں سے کسی ایک کو بھی دنیا کو دکھانے کیلئے زندہ نہ بچایا جا سکا ۔اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی ہلکا سا زخمی کرنے کے بعد گرفتار کر لیا جاتا تو پھر بھارت کیلئے کس قدر آسانی ہو جاتی کہ اس کے تانے بانے پاکستان کے کسی علا قے سے ثابت کر دیئے جاتے اور پھر حکمرانوں میں سے کوئی پہلے کی طرح میڈیا پر آ کر اعلان کر دیتا کہ یہ تو ہمارا آدمی ہے ؟ آج کی دنیا میں جس طرح دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور آلات ہوتے ہیں‘ اسی طرح حکومتوں کے پاس بھی مقابل کو بے ہوش کرنے کے نئے نئے طریقے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی فوج کیلئے کیا مشکل تھی کہ ان دہشت گردوں میں سے کسی ایک کو زندہ اور زخمی حالت میں گرفتار کر لیا جاتا؟ ابھی تک ان چھ حملہ آوروں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا جا رہا کہ یہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے جبکہ ایک اطلاع کے مطا بق ان سب کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہو چکے ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بھارت میں کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ ہو اور الزام پاکستان پر نہ آئے۔ پٹھان کوٹ حملے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سال کے آغاز میں ڈیرہ اسماعیل خان میںجیش محمد کے زیر انتظام غزوئہ احد کے حوالے سے ایک اجتماع منعقد ہوا اور جس وقت جیش محمد کے جہادی کمانڈر مسعود اظہر کی ویڈیو ٹیپ اجتماع میں دکھائی جا رہی تھی تو عین اس وقت پٹھان کوٹ حملہ کیلئے جیش محمد کے جہادی پاک بھارت سرحد سے متصل بامیال نامی گائوں کی حدود میں داخل ہو رہے تھے! لیکن حیران کن طور پر کسی بھی جگہ سے اس حصے کی سرحدوں پر نصب آہنی باڑ میں کوئی بھی شگاف نہیں ملا جو بھارت نے اپنی طویل سرحدوں پر نصب کر رکھی ہے ؟ 
پٹھانکوٹ ائیر فورس کا یہ بیس 1900 ایکڑ پر محیط ہے‘ اب حملہ آوروں کے ٹارگٹ کو دیکھنے کیلئے اس ہوائی اڈے کے نقشے کو سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ اگر آپ کو اس کی تمام تر جزئیات سے آگاہی ہو جائے تو پھر تین جنوری کی رات پاکستان کی سرحد سے قریب ترین بھارت کے اس حساس ہوائی اڈے پر کئے جانے والے مبینہ حملے کے خدو خال واضح طور پر سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی ۔پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے میں داخلے کیلئے بارہ دروازے ہیں لیکن ''وہ جگہ جہاں سے حملہ آور ہوائی اڈے کی گیارہ فٹ اونچی دیوار پر یوکلپٹس کے درخت کے ذریعے پہنچے اور جہاں سے وہ ایک ایک کر کے نائلون کی مضبوط ڈوری کے ذریعے اس گیارہ فٹ دیوار کے اُوپر لپٹی ہوئی خاردار تاروں کو کاٹ کر اندر داخل ہوئے ہیں کو‘ جیسا کہ اس سے پہلے لکھ چکا ہوں‘ اس رات حملہ آوروں کی مطلوبہ جگہ پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے اور بجلی کیوں بند تھی؟ جس جگہ سے حملہ آور ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوتے بتائے جا رہے ہیں‘ اس کے بالکل دائیں ہاتھ کی جانب بھارت کا ''میزائل ڈیفنس سسٹم‘‘ نصب ہے۔ اس کے دائیں جانب کیشو نگر اور بائیں جانب بیلی مہانتا اور میزائل سسٹم کے دائیں جانب مائرہ مہانتا کے دیہات واقع ہیں ۔۔۔یہاں پر کسی بھی بڑی اور منظم خفیہ ایجنسی کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حملہ اس کی جانب سے کرایا گیا ہے تو اس ایجنسی کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ اس کی لاعلمی پر رونا آئے گا اور غصہ بھی کہ جسے علم ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے حملہ آوروں کو بتا ہی نہ سکی کہ فدائیو ! ہمارے دشمن ملک کا سب سے خطرناک دفاعی میزائل کا نظام تمہارے دائیں ہاتھ پر ہے‘ اپنا آپ اس دفاعی سسٹم سمیت تباہ کر دو !!اکیاحملہ آور کوئی رنگروٹ تھے؟
کسی بھی جگہ حملے یا مشقوں کیلئے جب کسی بھی ملک کی کوئی خفیہ ایجنسی یا فوج کوئی پلان ترتیب دیتی ہے تو اس مقام کی ایک ایک تفصیل اس کے سامنے ہوتی ہے‘ مشن کیلئے بھیجے جانے والوں کو اس کی ایک ایک اونچ نیچ سے باقاعدہ آگاہ کیا جاتا ہے بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ رستے میں آنے والے کسی بھی درخت یا رکاوٹ کی ایک ایک تفصیل سے مشن کیلئے بھیجے جانے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ دور نہ جائیں پاکستان میں اب تک تحریک طالبان کی جانب سے مہران بیس، کامرہ جی ایچ کیو، بڈ ھ بیر پشاور، مناواں سمیت سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردی کی جتنی بھی کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دہشت گردوں کے پاس ہر مقام کی ایک ایک تفصیل پہلے سے ہی موجود تھی اور اس کی روشنی میں انہیں اس کیلئے با قاعدہ مشق کرائی گئی تھی تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فدائین حملہ کیلئے بھارت کے اہم ترین ہوائی اڈے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں جہاں کی بجلی بھی بند ہو اور کیمرے بھی خراب حالت میں ملیں اور وہ جانتے ہوں کہ ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ ان کے بالکل دائیں طرف واقع ہے اور وہ اس طرف جانے کی بجائے اس طرف دیکھنے کی بھی زحمت نہ کریں؟ 
اب اگرپٹھان کوٹ جیسے حساس ترین ہوائی اڈے پر کئے گئے حملے کیلئے بقول بھارتی میڈیا اور ان کی مرکزی حکومت کے‘ اس الزام کو سامنے رکھیں کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے تو اسے ایک بھونڈا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے سکھائے اور بھیجے ہوئے حملہ آور پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے میں داخل ہونے کے بعد اپنے دائیں جانب موجود بھارت کے دفاعی میزائل سسٹم کو تباہ کرنے کی بجائے سیدھا اس جگہ پہنچیں گے جہاں اس ہوائی اڈے کی حفاظت کیلئے مامور ڈیفنس سکیورٹی کور کے دفاتر تھے ‘جہاں تین دن ڈرامہ چلتا رہا اور '' دونوں اطراف‘‘ کی سب ہلاکتیں اسی جگہ پر ہی ہوتی رہیں جبکہ بھارت کے وزیر دفاع پاریکر نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان حملہ آوروں کے پاس اے کے47 مع انڈر بیرل گرینیڈز،
اضافی میگزینز ، سوئس کمانڈو چاقو، تیس چالیس کلو بلٹس، 50 کلوگرام بارود،30 کلوگرام وزنی گرینیڈتھے۔۔۔اور اس قدر جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس فدائین چاند ماری کا نشانہ بن کر وہیں پر ڈھیر ہو گئے؟ اس قدر بھاری ہتھیار اور انڈر بیرل گرینیڈز کی سہولت کے با وجود وہDSCکے دفاتر کے احاطے میں ہی کام آ گئے؟
سردار گربچن سنگھ سابق ڈائریکٹرجنرل بارڈر سکیورٹی فورس جودوران سروس پاکستان اور بھارت کی سرحد وںپر اونچی اور مضبوط آہنی باڑ لگانے کے پروجیکٹ سے بھی منسلک رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ملحق553 کلومیٹر سرحد میں سے پنجاب کی462 کلومیٹر سرحد پر آہنی باڑ نصب ہے جس میں شام پانچ بجے بجلی چھوڑ دی جاتی ہے۔Sensors/Flood Light کی سہولت اس کے علا وہ ہے۔ اب اگر یہ باڑ سلامت بتائی جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ حملہ آور اس ایک کلو میٹر کے رستے سے اندر داخل ہوئے ہوں جو جگہ جگہ بنے ہوئے دریائے راوی کے ٹکڑوں کی وجہ سے بھارت کے اندر تک پھیلے ہوئے ہیں‘ جن کا سلسلہ رن کچھ سے کشمیر تک جاتا ہے۔ بھارت کیلئے اس جگہ پر باڑ لگانا ناممکن ہے۔ لیکن یہاں سے آمد روکنا کوئی مشکل کام نہیں ا س کیلئے '' ٹیکنیکل نگرانی‘‘ کے علا وہ سب سے موثرMoving Troops ہو سکتے ہیں لیکن بھارت کی مرکزی سرکار اس پر نہ جانے کیوں ہمیشہ چپ رہتی ہے ؟۔ ایسا لگتا ہے کہ دلی میں بیٹھے ہوئے کوئی بہت ہی طاقتور لوگ اس Gap کو جان بوجھ کر کھلا چھوڑنے کے خواہش مند ہیں۔نہ جانے اس Gap میں ان کے کیا مقاصد ہیں؟!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved