ویسے تو خیر ایسا کون سا دور گزرا ہے جب سعادت حسن منٹو کی جے جے کار نہ ہوئی ہو مگر اب کے تو گلابی شہر میں منٹو نے سارے رنگ ایک طرف ہٹاتے ہوئے اپنا ہی رنگ جما ڈالا۔ بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں آٹھواں سالانہ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول حال ہی میں ختم ہوا ہے۔ اس پانچ روزہ ایونٹ میں وہ ہوا جس کے بارے میں سوچا بھی نہ گیا ہوگا۔ سلطان کھوسٹ کے پوتے اور عرفان کھوسٹ کے فرزندِ ارجمند سرمد نے میدان مار لیا۔ اور مارا بھی کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی!
جے پور کے انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں سرمد کی فلم ''منٹو‘‘ کی سکریننگ بھی طے تھی۔ ''منٹو‘‘ (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) افسانوی شہرت کے حامل افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائی گئی ہے اور اسے فیچر فلم کی درجہ بندی میں رکھا گیا تھا۔ اس درجہ بندی میں بِگ بی یعنی امیتابھ بچن کی فلم ''پیکو‘‘ بھی شامل تھی۔ یہ فلم ''قبض‘‘ کے موضوع پر بنائی گئی ہے۔ امیتابھ کے مقابل عرفان خان اور دیپیکا پڈوکون نے جم کر، ڈٹ کر اداکاری کی ہے۔ جب معیار جانچا گیا تو ''پیکو‘‘ بے چاری قبض کا شکار ہوگئی! یعنی غیر معمولی معیار کی ہوتے ہوئے بھی پیچھے رہ گئی اور سب کی نظریں ''منٹو‘‘ کے خالق سرمد پر اٹک گئیں! اس فلم نے دو ایوارڈ اپنے نام کیے۔ سرمد کو بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا اور فلم کو ساؤنڈ اور ایڈیٹنگ کا۔ سیدھی سی بات ہے کہ سرمد نے امیتابھ بچن کے مقابل اپنی اداکاری کو منوالیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے اُس کی روشنی میں دیکھیے تو سرمد کی کامیابی واقعی اتنی بڑی ہے کہ قوم کو ایک خاص حد تک تو خوشی منانی ہی چاہیے۔ بھارت فلم سازی اور فلم کی مارکیٹنگ کے میدان میں ''نو گزا پیر‘‘ ہے۔ اِس شعبے میں اُس سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہاں ایک بڑا اداکار جتنا معاوضہ لیتا ہے اُس سے ہمارے ہاں چار پانچ فلمیں (یا اِن سے بھی زیادہ) آسانی سے بنائی جاسکتی ہیں۔ فلم سازی کے میدان میں وسائل کی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ تقریباً حالتِ عدم میں ہے۔ ایسے میں سرمد نے اپنی فلم کے ذریعے پاکستان کی فلم انڈسٹری کا وجود منوایا ہے تو بڑی بات ہے جس کی دل کھول کر تعریف نہ کرنا محتاط ترین الفاظ میں بھی تنگ نظری ہی کہلائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان فلم انڈسٹری کی سطح پر مقابلہ ہمیشہ ہی ایک اور دس کے تناسب کا رہا ہے۔ جس دور میں لاہور اور کراچی فلم سازی کے مراکز تھے اور ہر سال انتہائی معیاری فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں تب بھی وسائل میں پاکستان کا بھارت سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ بھارت کی ہندی فلمیں قابل رشک حد تک وسیع مارکیٹ رکھتی تھیں اور بیرون ملک بھی ان کی مانگ تھی اس لیے ان پر سرمایہ کاری بھی آسان تھی۔ ناکام ہو جانے پر بھی فلم لاگت تو وصول کر ہی لیتی تھی۔ دوسری طرف پاکستانی فلم میکرز ہی کا حوصلہ تھا کہ انتہائی محدود مارکیٹ کے باوجود فلم میکنگ کا جوکھم اٹھاتے تھے اور اپنا آپ منوانے میں کامیاب بھی رہتے تھے۔
جب تک مشرقی پاکستان تھا، ایک اچھا سرکٹ میسر تھا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد ملک کی طرح فلم انڈسٹری کے لیے مارکیٹ بھی آدھی رہ گئی۔ پاکستان کے فلم میکرز داد دیتے ہی بنے گی کہ پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ادھورے اور جیسے تیسے سرکٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کرتے رہنے پر یقین رکھا۔ اور کون نہیں جانتا کہ سخت نامساعد حالات میں بھی ہمارے فلم میکرز نے 1970ء سے 1982ء (یعنی وی سی آر کی آمد) تک کے زمانے میں فلم انڈسٹری کو ناکامی کی زمین سے اٹھاکر کامیابی کے آسمان تک پہنچادیا۔ دس بارہ برس کی اُس مدت کے دوران ایک سے بڑھ کر ایک معیاری فلم بنائی گئی اور فلم بینوں نے بھی قدر دانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جس کسی نے محنت کی اُسے نام اور دام دونوں سے نوازا گیا۔
پھر یہ ہوا کہ فلم انڈسٹری کا ہنی مُون پیریڈ ''دی اینڈ‘‘ سے دوچار ہوا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران ملک بھر میں سنیما ہال ٹوٹتے گئے اور فلم انڈسٹری دن بہ دن زوال پذیر ہوتی گئی۔ کراچی میں فلم سازی کب کی ترک کی جاچکی تھی۔ لاہور میں بھی ''گجر کلچر‘‘ پر انحصار نے فلم انڈسٹری کا بھٹہ بٹھادیا۔ بیچ میں ایک آدھ اچھی فلم بھی آ جاتی تھی مگر اس کے بعد پھر وہی پُھس پٹاخوں جیسی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں اور معاملات جُوں کے تُوں ہی رہتے تھے۔ 1990 ء کے عشرے کے وسط سے بیٹھی ہوئی انڈسٹری اب ڈیڑھ دو برس سے انگڑائیاں لیتی ہوئی کھڑی ہوئی ہے۔ اب کے معاملہ خاصا امید افزا ہے کیونکہ فلم انڈسٹری کی رگوں میں نیا خون دوڑ رہا ہے۔ نئی نسل پڑھ لکھ کر فلم میکنگ کی طرف آئی ہے۔ لکھنے والے سوچ سمجھ کر لکھ رہے ہیں۔ اور لکھے ہوئے کو پیش کرنے والے بھی اپنے فن پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ نئی نسل میں صرف کام کرنے کا جوش و جذبہ ہی نہیں، کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہنے کی لگن بھی ہے۔ خدا کے لیے، بول، وار، رانگ نمبر، جوانی پھر نہیں آنی، بن روئے، مور، منٹو اور دوسری بہت سی جدید انداز کی فلموں نے اہلِ جہاں کو بتادیا ہے کہ پاکستانی نوجوان بھی ہر جدید تکنیک سے کماحقہ مستفید ہوتے ہوئے غیر معمولی معیار کی فلمیں بناسکتے ہیں۔ کئی عالمی فلمی میلوں میں پاکستان کی فلموں نے ستائش کی دولت بٹوری ہے۔ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لوگ پاکستانیوں کی صلاحیت کا لوہا مان رہے ہیں۔ سینئرز میں جاوید شیخ اور نوجوانوں میں علی ظفر، فواد خان و دیگر نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارتی فلم انڈسٹری میں بھی جم کر، ڈٹ کر کام کرسکتے ہیں۔
جے پور فلم فیسٹیول میں ''منٹو‘‘ کے اعلیٰ معیار کا کھلے دِل تسلیم کیا جانا اس بات کی تابندہ علامت ہے کہ ہم میں بہت کچھ ہے جو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ یاسر نواز، ہمایوں سعید، سرمد کھوسٹ، سعود اور نئی نسل سے تعلق رکھنے والے دوسرے بہت سے فنکاروں میں نئے اور پُرجوش انداز سے کام کرنے کا بھرپور جذبہ موجود ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کے یہ تمام باصلاحیت افراد معمولی وسائل کی مدد سے بھی بہترین فلمیں بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری کم و بیش دو عشروں تک ویسے ہی انجام سے دوچار رہی ہے جیسا ہماری فلموں کے آخر میں ولن کا ہوتا ہے! اور ولن کے بُرے انجام سے قبل تک ہیرو جو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہتا ہے کچھ کچھ ویسی ہی حرکتیں دو عشروں کے دوران ہماری انڈسٹری کے کرتا دھرتا کرتے رہے ہیں! اب وقت آگیا ہے کہ مکمل سنجیدگی اختیار کی جائے، شعبے کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور لگے بندھے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے یعنی مکھی پر مکھی بٹھانے کے رجحان کو ترک کرکے نئے موضوعات کو گلے لگایا جائے تاکہ نئی نسل کا بھرپور ولولہ فلم کی مجموعی کیفیت میں بھی دکھائی دے۔
سعادت حسن منٹو کا قلم معاشرے کے گوشے کو نقاب کرکے دم لیتا تھا۔ وہ اپنے قلم سے خنجر کا کام لیتے تھے۔ شجرِ ممنوعہ قرار پانے والے ہر موضوع کو برتنے کا ہُنر اُن پر ختم تھا۔ وہ اپنے انتہائی بے باک افسانوں کی بدولت اب تک مشہور و مقبول ہیں۔ ہماری فلم انڈسٹری بھی دو سوا دو عشروں سے شجرِ ممنوعہ کی سی تھی۔ باصلاحیت افراد اِس کا رخ کرتے ہوئے ڈرتے یا کتراتے تھے۔ خیر سے بھارت میں ہماری فلم انڈسٹری کو بھی منٹو کے حالاتِ زندگی پر بنائی جانے والی فلم ہی نے ذرا ڈھنگ سے بے نقاب کیا ہے یعنی متعارف کرایا ہے۔
جے پور میں جو کچھ ہوا ہے وہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی رگوں میں نئے خون کے مانند ہے۔ سرمد کی کامیابی نے جانے کتنوں کے حوصلے بلند کردیئے ہوں گے۔ ہم اِسی دنیا میں دوسرے جنم پر یقین نہیں رکھتے مگر ہماری فلم انڈسٹری نے دوسرا جنم لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ۔ ایسے میں کراچی اور لاہور میں کام کرنے والے فلم میکرز کو جدید دور کے تقاضوں کا بھرپور خیال رکھنا پڑے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں گھسے پٹے موضوعات، لگی بندھی سوچ اور تھکی ہوئی اداکاری کو یُوں پھینکنا ہوگا جیسے گردن سے لپٹ جانے والے سانپ کو تیزی سے اتار کر پھینکا جاتا ہے!