آج میں پاکستان کی گندی سیاست کی گرما گرم کچوریوں‘ کردار کشی کے چلغوزوں‘ کرپشن اور لوٹ مار کے تازہ تازہ حلوے کے بجائے‘ مقبوضہ کشمیر کے ایک مظلوم اور بے بس خاندان کا درد بیان کر رہا ہوں۔ و ہ درد‘ جو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں نے ایک ساتھ محسوس کیا تھا اور وہ غیرمسلم ہندوستانی‘ جن کے سینوں میں انسانی دل دھڑکتا تھا‘ وہ سب اذیت کے ان گنت لمحوں سے گزرے تھے۔ یہ لمحے ایک دن میں ختم نہیں ہو گئے تھے۔ ہفتوں میں بھی ختم نہیں ہوئے۔ مہینوں میں بھی نہیں۔ یہ لمحے برسوں تک دردبھرے دلوں کے اندر ابلتے رہے۔ تہاڑ جیل کے اندر‘غم و اندوہ کی ایک کہانی ‘سسک سسک کر‘ ایک پل سے دوسرے پل تک‘ آگے بڑھتی رہی۔ اس کہانی کا عنوان افضل گورو تھا۔یہ مقبوضہ کشمیر کے ایک قصبے سوپور کے قریب ایک پہاڑی گائوں میں پیدا ہوا ۔ ضلع بارہ مولا تھا۔ افضل نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف ایس سی کیا اور ایم بی بی ایس کا پہلا سال مکمل کر کے‘ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرنے لگا۔ اسی دوران اس نے ایک میڈیکل ایجنٹ بن کر ‘کمیشن پر دوائوں کی مارکیٹنگ شروع کر دی۔ یہاں سے بھارتی پولیس کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ افضل گورو آزادیٔ کشمیر کا حامی تھا۔ لیکن پرامن شہری۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں‘ آزادی کا نام لینا بھی گناہ تھا۔
13 دسمبر 2001ء کوبھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا ناکام حملہ ہوا۔ بھارت نے حسب روایت اس کا الزام پاکستان پر لگایا‘ لیکن جس طریقے سے دہشت گردوں کو واردات کرتے ہوئے دکھایا گیا‘ اس کے بارے میں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے‘لیکن پاکستان کی تمام جنگی مہارتوں پر عبور رکھنے والی ایجنسی ‘آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ کمانڈوز ایسے اناڑی نہیں ہو سکتے کہ وہ کچھ کئے بغیر‘ بھارتی پولیس کے سپاہیوں کا نشانہ بن جاتے۔ وہ یقینا یا تو پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹر ہوں گے یا مقبوضہ کشمیرمیں غلامی کے دشمن یا خود بھارت کی ان 13 ریاستوں میں سے کسی ریاست کے باغی‘ جہاں مسلسل گوریلا جنگ ہو رہی ہے۔ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اصل ذمہ داروں تک پہنچنے میں ناکام ہو کر‘ بھارتی پولیس نے ‘ مقبوضہ کشمیر میں اپنی سراغ رسانی کی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر‘ ناکام بھارتی سکیورٹی فورسز کی شکارگاہ ہے۔ جب اصل دہشت گردوں کا پتہ نہ چلایا جا سکا‘ تو کشمیر کے دورافتادہ گائوں سوپور تک جا پہنچے۔ وہاں پوچھ گچھ کی۔ افضل گورو کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ آزادیٔ کشمیر کا حامی ہے اور بھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف جذبات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس کا یہی جرم کافی سمجھا گیا۔ اسے گرفتار کر کے دلّی لایا گیا۔ اس کے بعد ظلم و جبر کی ایک ایسی کہانی شروع ہوتی ہے‘ جس کی تفصیل کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر کی ان دوردراز پہاڑیوں میں ‘ جہاں عام ٹریفک بھی نہیں جاتی‘ محنت کی روٹی کما کر کھانے والے ایک نوجوان افضل گورو کے باغیانہ خیالات کے بارے میں سن کر‘ پولیس نے اسے سینکڑوں میل دور دلّی میں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا اوربھارت کے مسلم دشمن عدالتی نظام کو استعمال کرتے ہوئے‘ تہاڑ جیل میں بند کر دیا۔ بھارت کی تمام ایجنسیاں اصل دہشت گردوں کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے ناکام ہوتی گئیں اور پولیس کی گرفت میں آئے ہوئے افضل گورو کے خلاف دہشت گردی کی کہانی‘ نئے نئے الزامات کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ بھارتی میڈیا‘ وہاں کے مسلمان اور دوسرے مذاہب کے باضمیر انسان‘ بیک وقت ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ افضل گورو کو بے گناہ پکڑا گیا ہے۔ بھارت میں اس کے جاننے والوں کی تعداد بھی چند افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ اس نے دہشت گردوں کا ایک گروہ بنا کر کس طرح بھارتی پارلیمنٹ پر کارروائی کی؟ اس کا کوئی ثبوت بھارتی ایجنسیاں فراہم نہیں کر سکیں۔ وہ ایک قابل قبول کہانی بھی تخلیق نہ کر سکیں۔ اگر یہ مقدمہ کسی باقاعدہ عدالت میں چلتا‘ تو افضل گورو کو سزا دینا ممکن نہیں تھا۔ لیکن بھارت کے حکمران طبقے یہ طے کر چکے تھے کہ افضل گورو کو ‘ ہرحال میں پھانسی لگانا ہے۔ میڈیا میں اس کے خلاف منظم مہم چلائی گئی۔ مسلم دشمن انتہاپسند ہندوئوں نے اس اکیلے اور مظلوم انسان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے‘ مظاہرے کئے اور یہ ملک گیر سیاسی مسئلہ بنتا چلا گیا۔ اشتعال انگیزی کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ افضل گورو کے حق میں آواز اٹھانا بھی جرم بن گیا۔ غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ ساری حکومت‘ پارلیمنٹ کے 90فیصد اراکین اسمبلی‘ سارا میڈیا‘ 90فیصدسیاسی جماعتیں‘ سب اکٹھے ہو کر افضل گورو کی جان کے دشمن بن گئے۔ ایسی بہت کم مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ سوا ارب کی آبادی‘ ایک نہتے‘ اکیلے اور مظلوم انسان کی جان کی دشمن بن گئی ہو‘ جس کا جاننے والا بھی پورے بھارت میں کوئی نہیں تھا۔ اسے پاکستانی ایجنٹ بنانے کی جو کہانی تخلیق کی گئی‘ اسے آج بھی تفتیش کے کسی معیار کی روشنی میں پرکھا جائے‘ تو افضل گورو پر دہشت گردی کی سازش کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ پولیس کی کہانی میں‘ اسے اقراری مجرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کا پس منظر سامنے نہیں لایا جاتا۔ اس اکیلے شخص کو تہاڑ جیل کے اندر قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ذہنی اذیتیں دی گئیں۔ جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ تنہائی کے عذاب میں مبتلا رکھا گیا۔ اس کی بیوی‘ اس کا بچہ نہ جانے کس طرح‘ اجنبی شہر دلی کے لوگوں میں کوئی ہمدرد ڈھونڈتے رہے‘ جو خاندان کے سربراہ افضل گورو سے ان کی ملاقات کرا سکے۔ لیکن اس کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ سزا افضل گورو اکیلا ہی نہیں کاٹ رہا تھا۔ اس سے دو گنا سزا ‘اس کی بیوی اور بیٹا کاٹ رہے تھے۔ افضل گورو دیواروں کے اندر قید تنہائی میں تھا اور بیٹا اور بیوی‘ آبادی سے بھرے ہوئے شہر‘ دلّی میں اکیلے دھکے کھا رہے تھے۔ وہ جس سے مدد مانگتے‘ وہ انہیں ایک دہشت گرد کے حوالے سے دیکھتا۔ نفرت اتنی زیادہ ہوتی ‘ جیسے اس معصوم بچے اور اس کی ماں نے کوئی گناہ کر دیا ہو۔ تمام عدالتی کارروائیوں کی ''کارروائی‘‘ ڈال کر‘ پھانسی دینے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ اس کی بیوی اور بچے کو بتائے بغیر جیل میں افضل گورو سے ملاقات کرائی گئی۔ خود افضل گورو کو بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو پیار کیا ۔ اسے قرآن مجید اور سائنس کی ایک کتاب کا تحفہ دیا۔ یہ دو کتابیں ظاہر کرتی ہیں کہ جسے دہشت گرد قرار دے کر پھانسی دی جا رہی تھی‘ اس کے ذہن میں اپنے بچے کا مستقبل کیا تھا؟وہ دنیا کو کیسی نظر اور کیسی سوچ کے ساتھ دیکھ رہا تھا؟ افضل گورو کو پھانسی لگا دی گئی۔
آج ''ہندوستان ٹائمز‘‘ میں ایک خبر شائع ہوئی کہ بھارتی پارلیمنٹ پر سازش اورحملے کے ''مجرم‘‘ افضل گورو کے بیٹے‘ غالب گورو نے دسویں جماعت یعنی میٹرک کے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس نے جموں وکشمیر بورڈ کے امتحان میں 500 میں سے 474نمبر حاصل کئے جو کہ 94.8فیصد بنتے ہیں۔ غالب گورو کو سارے مضامین میں ‘اے ون گریڈ ملے ہیں۔ 9فروری 2013ء کو افضل گورو پھانسی پر لٹکا دیئے گئے۔ 11جنوری2016ء کو‘ افضل گورو کے بیٹے نے ‘ اس جہالت کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا‘ جس نے اس کے قرآنی تعلیمات اور سائنس پر یقین رکھنے والے باپ کو پھانسی لگائی۔ جہالت کے اس سمندر میں ‘ جسے بھارت کہا جاتا ہے‘ غالب گورو کے بے گناہ باپ کو ڈبو دیا گیا تھا اور جس کے باپ اور ماں کے ساتھ ظلم کی انتہا کی گئی اور یتیمی کی زنجیروں میں جکڑ کے‘ اس کے باپ پر دہشت گردی کی تہمت لگائی گئی‘ آج اس نے علم کے میدان میں فتح کا جھنڈا گاڑ کرثابت کر دیا کہ جن لوگوںنے اس کے بے گناہ باپ کو شہید کیا‘ اس نے وہیں پر علم کی شمع جلائی۔ اس نے وہی کیا‘ جو باپ کی طرف سے تحفے میں دیئے گئے قرآن مجید میں لکھا تھا اور سائنس کی کتاب میں وہ سبق تھا‘ جو دین اسلام دیتا ہے۔ بھارت کی تمام متعصب آبادی نے اس کے باپ کو پھانسی دی اور بیٹے نے تھوڑے ہی عرصے کے بعد‘ جہالت کو پھانسی دے دی۔ میں شہید افضل گورو کو سلام کرتا ہوں۔ اس کی بہادر بیوی کو سلام کرتا ہوں اور اس کے بیٹے کو سلام کرتا ہوں۔ ظالم حکمرانوں نے اس کے باپ کے گلے میں‘ جہالت اور نفرت کا پھندا ڈالااور بیٹے نے انہی تاریکیوں میں علم کی شمع روشن کی۔ فیصلہ وقت کرے گا کہ بھارتی حکمرانوں نے افضل گورو کو پھانسی دی‘ یا اس کے بیٹے غالب نے ان کی تنگ نظری اور جہالت کو پھانسی دی؟