تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     12-01-2016

موت کی وادی

پاکستان کے دوست اورمہربان سعودی عرب کی طرف سے جلیل القدر مہمانوں کی آمدورفت ہمارے لئے باعث عزت وموجب افتخار ہے۔ پچھلے برس امام کعبہ تشریف لائے اور وزیراوقاف بھی۔ اب وزراء کرام کی باری ہے۔ پہلے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے قدم رنجہ فرمایا پھروزیردفاع اورنائب ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلام آباد کی عزت افزائی کی۔سول و فوجی قیادت کے علاوہ پاکستانی عوام نے بھی انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا... اے آمدنت باعث آبادیٔ!
34رکنی فوجی اتحاد میں پاکستان شامل ہے۔ مگر یوں کہ ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ دل ہمارے سعودیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر دماغ تلخ زمینی حقائق کے باعث کسی دوسری ادھیڑ بن میں ہے۔سعودی عرب کی زیرقیادت 34 ملکی اتحاد ہویا روس، ایران اور شام میں داعش کے خلاف مفاہمت‘ بھینسوں کی لڑائی میں شرق ِاوسط کے عوام گھاس کی طرح کچلے جا رہے ہیں اور وسائل تباہ و برباد۔ عالم اسلام کو تو پروا نہیں اور مسلمان باہمی لڑائیوں میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں اردگرد کی خبر ہے نہ مستقبل کی فکر، مگر اللہ بھلا کرے یورپ کے بعض دردمند شہریوں کا جنہوں نے لبنانی سرحد کے قریب واقع مدایا نامی قصبے میں محصور بیالیس ہزار انسانوں کی حالت زار پر آواز بلند کی ہے‘جہاں تاریخ کا بدترین المیہ جنم لے چکا ہے مگر کسی عرب ملک اور اس کی رعایا کو فکر ہے نہ عجمی ریاست اور اس کے عوام کو۔
مدایا دمشق سے دور مگر لبنانی سرحد کے قریب ہے، صرف چھ میل کے فاصلے پر۔ برطانوی اخبار گارجین نے شاہی فضائیہ کو غیرت دلائی ہے کہ وہ مدایا میں بھوک سے بدحال بیالیس ہزار مردوزن، بچوں اور بوڑھوں کی زندگی بچانے کے لئے فضا سے غذائی اشیاء گرائے جیسا کہ اس نے دو سال قبل عراقی پہاڑی علاقے سنجار میں کیا تھا۔ برطانوی حکومت اس طرح کی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا یہ جواز پیش کرتی ہے کہ یہاں شامی فوج اور حزب اللہ نے محاصرہ کررکھا ہے اور برطانوی طیاروں کے مار گرائے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے شاہی فضائیہ ایسی کسی کارروائی سے گریزاں ہے مگر گارجین کا کہنا ہے کہ جس ملک میں اسرائیلی طیارے دندناتے پھرتے ہیں‘ امریکی، روسی اور اتحادی طیارے داعش کے کیمپوں پر کھلے عام بمباری کرتے ہیں اور کسی کو اپنی سرحدوں کی بے حرمتی کا خیال نہیں آتا‘ وہاں شاہی فضائیہ اگر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرے گی تو کون روکے گا اور کس کی مجال کہ وہ جوابی کارروائی کرسکے۔ یہ صرف بزدلی اور نااہلی ہے۔ یہ مشن صرف ڈیڑھ ، دو منٹ کا ہوگا ۔ایک ہرکولیس طیارہ موقع پر پہنچ کرچالیس سیکنڈ میں خوراک گرا سکتا ہے۔
مدایا گزشتہ سال جولائی سے محاصرہ میں ہے۔ شامی حکومت اور حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ یہ باغیوں اور مزاحمت کاروں کا گڑھ ہے اور محاصرے کے بعد باغیانہ کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔ مدایا میں شامی حکومت کے خلاف برسرپیکار حمودی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ ملک میں اپنے شہری اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لئے سرگرم عمل رہا ہے‘مگر اب میرے لئے جمہوری حقوق ، شہری آزادیوں اور بشارالاسد سے نجات کی جدوجہد بے معنی ہے‘ مجھے خوراک چاہئے، حکومت نے'' سرنگوں ہو جائو یا ہلاک ‘‘کا جو آپشن محاصرے کی صورت میں دیا ہے‘ اس نے مدایا کے عوام کو سرنگوں ہونے پر مجبور کردیا ہے، مگر باغی اس کے لئے تیار نہیں۔
ایک خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اپنے سامنے بچوں کو سسکتا ، تڑپتا، ایڑیاں رگڑتا اور مرتا دیکھ کر ہر محصور شہری کی خواہش بلکہ اپیل ہے کہ انہیں یوں قسطوں میں مارنے کے بجائے بمباری کرکے ایک ہی بار مار دیا جائے۔ موت کی اس وادی میں چند ہفتے پہلے تک اشیائے خورونوش مہنگے داموں دستیاب تھیں۔ مثلاً گندم کا دلیہ اڑھائی سو ڈالر فی کلو، دودھ تین سو ڈالر فی کلو، علیٰ ہذا القیاس مگر اب کچھ بھی میسر نہیں۔ تین ماہ قبل ایک تنظیم جیش الفتح نے دو افراد کو اس جرم میں سزائے موت دی کہ اس نے چوری چھپے غذائی اشیاء قصبے میں لانے کی کوشش کی۔ چنانچہ بھوک سے نڈھال لوگ گھاس، درختوں کے پتے اور ادھر ادھرخوراک کی تلاش میں پھرنے والے مردار جانور کھانے پر مجبور ہیں۔ درختوں کی چھال ابال کر بچوں کو سوپ کے طور پر پلائی جاتی ہے۔ مگر سرد موسم اور برفباری کی وجہ سے درخت پتوں سے اور زمین گھاس سے محروم ہے۔ ایک رہائشی کے مطابق ہم مٹی چبا اور کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ یہاں آپ کو انسانوں کی بجائے چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے نظر آتے ہیں‘مگر ان پر رحم کسی کو نہیں آتا ۔شامی حکومت کے نزدیک یہ باغیوں کا قصبہ ہے، ہر باسی گردن زدنی۔جبکہ مخالف عرب ممالک کے خیال میں القاعدہ و داعش کا گڑھ،لہٰذا موت کاحقدار۔
اقوام متحدہ، میڈیسنز، فرنٹیئر اور ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز نے تصدیق کی ہے کہ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے اب تک درجنوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں اور باقی زیرعلاج بچوں اور بڑوں کی حالت تشویشناک ہے۔ امریکی اتحاد نے شہری آبادیوں کا محاصرہ روکنے اور فریقین میںسیاسی تصفیے کو یقینی بنانے کے لئے گزشتہ سال نومبر میں جو کوششیں شروع کی تھیں وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں جبکہ روسی پشت پناہی کے بعد بشارالاسد بمباری روکنے میں اب سنجیدہ نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امن اور سیاسی تصفیے کے لئے کامیابی کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔
مدایا میں انسانی المیہ اب جنم لے رہا ہے مگر غزہ گزشتہ دس سال سے محاصرہ میں ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے غزہ کے فلسطینی مکینوں پر مزید یہ ظلم ڈھایا کہ گھریلو استعمال کے لئے گیس کی پائپ لائن کاٹ دی تاکہ فلسطینی بچے اوربوڑھے ٹھٹھر کر مرجائیں ۔اس سے پہلے اسرائیلی طیارے فلسطینیوں کی فصلوں کو بمباری سے تباہ کرنے کے علاوہ فصلوں پر زہریلے مادوں کا چھڑکائو کرچکے ہیں۔ ترکی عالم اسلام کا واحد ملک ہے جس نے فلوٹیلا بھیج کراس محاصرہ کو توڑنے کی کوشش کی جبکہ ہمسایہ مصر نے محاصرے میں اسرائیل کی بھرپور مدد کی اور رفاہ گیٹ بند کرکے فلسطینیوں کو موت کی وادی کی طرف دھکیلا۔ اس صورتحال میں مسلم حکمرانوں کے منہ سے اسلام، انسانیت، امن، انصاف اور انسانی دوستی کے الفاظ جھڑتے ہیں تو عام شہری ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے ہیں کہ یہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کیا مدایا میں انسان نہیں بستے یا غزہ میں بھوک، پیاس، بیماریوں اور موسمی سختیوں سے مرنے والے کسی دوسرے سیارے میں بسنے والی بے مایہ مخلوق ہے جس کی زندگی کسی کو عزیز نہ موت پر کوئی افسردہ۔
کسی زمانے میں اسلامی ممالک کی ایک لولی لنگڑی تنظیم ہوتی تھی‘او آئی سی ‘جس کا سیاسی کردار تو ملوک و سلاطین کی ناز برداری اور امریکہ و یورپ کی تابع داری تک محدود تھا مگر جہاں جہاں مسلم عوام قدرتی آفات، غربت و افلاس اور وبائی امراض کا شکار ہوتے وہاں ضرور توجہ دیتی۔ خوراک و ادویات بہم پہنچاتی اور انسانی المیہ رونما ہونے سے قبل روک تھام کی سعی کرتی۔ مگر اب یہ تنظیم عرصہ دراز سے گوشہ ٔگمنامی میں جا چکی ہے۔ 34 رکنی اتحاد بھی فوجی نوعیت کا ہے مگر اس کے اغراض و مقاصد میں بھی فلسطینیوں کے قاتل، شرق اوسط میں جارحیت کے مرتکب اور ناجائز وجود کے حامل اسرائیل سے نمٹنا، عرب علاقے خالی اور غزہ کا محاصرہ ختم کرانا نہیں‘ صرف اور صرف عوام کی گردنوں پر سوار حکمرانوں کا تحفظ ہے جو عرب بہار کے بعد خزاں کے پتوں کی طرح لرز رہے ہیں۔
یہاں تک لکھ چکا تو خیال آ یا کہ پاکستان ایک نیوکلیئراسلامی ریاست ہے اوراس نے ہمیشہ مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کو حرزجاں بنائے رکھا ؎
اخوت اس کوکہتے ہیں چبھے کانٹا جوکابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے
کیوں نہ اپنی ہیئت مقتدرہ کو توجہ دلائی جائے کہ وہ غزہ نہ سہی ‘مدایا میں خوراک و ادویات پہنچانے کی کوئی تدبیرکرے ‘مگر پھرسوچا خواہ مخواہ شرمندگی ہوگی ‘کسی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ پہلے سائیں سرکار کے تھر میں بچوں کی اموات روکو، وہاں انسانوں اور مویشیوں کے لئے پینے کا پانی، کھانے کے لئے مناسب خوراک اور دق زدہ بچوں، بوڑھوں کے لئے ادویات کا بندوبست کرو پھر غزہ اور مدایا کی فکر مناسب ہے۔ لہٰذا قارئین سے معذرت۔ اسے محض ایک دکھی دل کی فریاد سمجھ کر درگزر فرمائیں ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved