تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     13-01-2016

کیا نون لیگ کے چکاچوند منصوبے ترقی کی علامت ہیں؟

یقینا ، بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان میں اچھی بھی ہیں اور بری بھی،لیکن کہنا پڑے گا کہ بری زیادہ ہیں۔ حکمران ملکی اور غیر ملکی اداروں سے بھاری قرضہ جات لیتے اور صحت ِعامہ اور تعلیمی منصوبوں کی بجائے چکاچوند منصوبے ،جیسا کہ میٹرو، بناتے ہوئے اپنے سیاسی وسائل کو تقویت دینے کی فکر میں ہیں۔ چونکہ یہ منصوبے واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں اور عوام کو تاثر ملتا ہے کہ ملک میں بہت کام ہورہا ہے، لہٰذا ایسے منصوبے انتخابی کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بیانیہ آگے بڑھانا بھی آسان ہوتا ہے کہ عوام کو سفری سہولیات چاہییں۔ اس میں دو آراء نہیں ہوسکتیں کہ شہری علاقوں میں عوام کو سستی سفری سہولت درکار ہوتی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں کس قسم کی سفری سہولیات کی ضرورت ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود کہ کیا اتنے مہنگے منصوبے بنا نا اور میٹرو اور اورنج ٹرین اور اس طرح کے دیگر منصوبوں کو سبسڈی دے کر مستقبل بنیادوں پر چلانا اور ان کے معیار کو برقرار رکھنا ممکن ہے یا نہیں؟
دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان جیسے کم درجے کی ترقی اور پیدا واری صلاحیت رکھنے والے ممالک ، جن کی برآمدات کم اور درآمدی بل زیادہ ہو، آپ اتنے مہنگے منصوبے بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خاص طور پر اُس صورت میں تو ہرگز نہیں جب آپ بھاری غیر ملکی قرضوں تلے پہلے ہی دبے ہوئے ہوں۔ ان مہنگے سفری منصوبوں میں استعمال ہونے والے سٹیل اور پتھر کے علاوہ کچھ بھی ملکی سطح پر تیار نہیںہوتا ۔ اس منصوبے میں ترک کمپنی کے ساتھ''ٹیکسی کرائے‘‘ کی طرز پر رقم کی ادائیگی کی شرط ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اس کی ہر نشست کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا چاہے اس پر کوئی مسافر سفر کرے یا نہ کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا بوجھ پر ٹیکس دہندگان پر پڑے گا یا کرائے میں اضافے کی صورت میں دیگر مسافروں پر۔ 
میرا موقف یہ ہے کہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ یہ حکومت، جو کاروباری طبقے کی ناراضی سے ڈر کر اُس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ٹیکس میں چھوٹ دینے کی طویل تاریخ رکھتی ہے ، غریب مسافروں کو سہولت دینے کے لیے مزید سبسڈی دے۔ پہلے ہی ٹیکس کی کم شرح کی وجہ سے محصولات اوراخراجات میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ کیا یہ مذاق نہیں کہ یہ ملک غیر ملکی ذرائع سے رقم مانگ کرگزارہ کرتا ہے جبکہ اس کے معاشرے کے بہت سے دھڑے بے حد دولت مندہیں لیکن وہ ان سے ٹیکس وصول نہیں کرپاتا۔ٹیکس چوروں کو پکڑنے کی بجائے حکومت طاقتور حلقوں کے کالے دھن کو سفید بنانے کا موقع دینے کے لیے قوانین بنارہی ہے۔ اس نے پہلے بھی بارہار ٹیکس ایمنسٹی کی سکیمیں متعارف کرائی ہیں لیکن ان سے ٹیکس کے دائرے میں کبھی اضافہ دکھائی نہیں دیا۔ دراصل یہ کمزور حکمرانوں کی ناکام حکمت عملی ہوتی ہے جب وہ طاقتور حلقوں کو خوش کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ وہ کبھی رضا کارانہ طور پر ریاست کی طرف اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔اگر انسان واقعی اتنے ''مہذب ‘‘ ہوں پھر ریاست قائم کرنے اور قوانین اور سکیورٹی ادارے بنانے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ 
نواز شریف حکومت کا ایک اور پسندیدہ منصوبہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ دینے کی سکیم تھی۔ ہمیں بتایا کہ اس کا مقصد ''جدید ٹیکنالوجی کا فروغ‘‘ ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک نے بھی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے ایسا قدم اٹھایا ؟ میں نے پنجاب کے سکولوں میں کیے گئے دوروں کے دوران بہت سے سکولوں میں قطار درقطار ، بے شمار کمپیوٹر دیکھے ہیں لیکن طلبہ نہ اُن کی مہارت رکھتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں جدید علوم سے آگاہی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میز پر کمپیوٹر کی موجودگی ''صارف‘‘ کو جدید علوم، جیسا کہ ریاضی، فزکس، کیمیا، انگریزی وغیرہ کا عالم بنا دیتی ہے؟ہمارے ملک کا اصل مسئلہ اشیا کی فراہمی نہیں ، فکری آبیاری ہے۔ دنیا کی بہت سی اقوام ہم سے بھی کم وسائل رکھتے ہوئے ترقی کے زینے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن ہم نے انگریزی محاورے کے مطابق گھوڑے کے آگے تانگہ باندھ رکھا ہے۔دراصل موجودہ حکمرانوں کی ہر سکیم کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ ایک لڑکے کو جدید علوم حاصل کرنے اور اپنے ذہن کو جلا بخشنے میں وقت لگے گا لیکن اُس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ فوراً تھمادیا جاتا ہے۔ جب ایسی سکیمیں انتخابی نتائج میں ڈھلتی ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف حکومت بھٹو خاندان سے سیاسی مقبولیت میں کہیں بڑھ کر ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ عوام نے ووٹ کی طاقت سے ناقص کاکردگی دکھانے والی حکومت کو گھر کی راہ دکھا دی۔ اس کے علاوہ میڈیا میں موجود حکومت کے جوشیلے ترجمان موروثی سیاست کی حمایت میں مختلف تاویلیں پیش کرتے نہیں تھکتے۔ خوشامدی ٹولوں کے سہانے گیت ہی ان حکمرانوں کی کارکردگی کا بہترین اظہار ہیں۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخبارات اور ٹی وی پر لاکھوں روپوں کے پرکشش اشتہارات کا فائدہ تو ہوتا ہے۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تشہیر کردہ منصوبوں میں سے کتنے شفاف طریقے سے مکمل ہوکر عوام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں یا پہنچائیں گے؟ فی الحال ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جس دوران دنیا گرین ٹیکنالوجی کے نئے افق تلاش کررہی ہے تاکہ اس سیارے اور اس میں رہنے والوں کے لیے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جاسکے، ہمارے موروثی سیاست دان اپنے وقتی فائدے لیے ریاست کے وسائل اجاڑ رہے ہیں۔ ہماری ہر حکومت آنے والی حکومت کے لیے ملک کو مزید مقروض چھوڑ کرجاتی ہے لیکن یہ موجودہ حکومت سابق تمام ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس وقت مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بنائے جانے والے منصوبے ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ہمارے حکمران تعلیم ، صحت، انصاف، توانائی اور بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھتے کیونکہ ان میں مطلوبہ 'کشش‘ کی کمی ہے۔ افسوس، کتابیں چاندی کی نہیں ، چمک سے محروم صفحات کی بنتی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved