تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-01-2016

مختصر انسانی عمر

اس کرۂِ خاک پہ انسان کامستقبل کیا ہے؟ عالمی ماہرین، سائنسدان اور سوچنے سمجھنے والا ہر انسان پریشان ہے، ماسوا ئے ان کے جو چیزوں کو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں۔ انسان کی کل عمر، اس کا اختیار اور بساط اتنی مختصر اور حقیر ہے کہ نظامِ شمسی، کرۂ ارض اور اس پہ زندگی کے باب میں فیصلہ کن تو کیا، قابلِ ذکر حیثیت بھی وہ نہیں رکھتا۔ عالمی ماہرین اور سائنسدانوں کی فوری تشویش کا باعث درجۂ حرارت میں وہ اضافہ ہے جو ان کے نزدیک فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ مغربی انٹارکٹکا پگھل رہا ہے۔ کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو بہر صورت اسے پانی میں جا ملنا ہے۔ زمین کی ماہیت بدلنے والی ہے۔ پانی اور خشکی کا تناسب ایک ذرا سا بدلنے کو ہے لیکن اب ساحلی علاقوں، کراچی جیسے ایک ایک شہر میں کروڑوں افراد مقیم ہیں۔ انسان چیونٹیوں کی طرح اس نیلے سیارے کی ہر قابلِ رہائش جگہ پہ قیام پذیر ہے۔ طب میں ترقی کے ساتھ انسانی آبادیوں کے بڑھنے کی شرح خوفناک حد تک تیز ہوئی ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں پریشانی ایک قدرتی امر ہے، بالخصوص جاپان اور انڈونیشیا جیسے جزائر کے لیے ۔ کائنات اور کہکشاں رہی ایک طرف، نظامِ شمسی، اس پیلے سورج اور اس کی آٹھ زمینوں کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو انسانی پریشانی مضحکہ خیز حد تک بے سروپا نظر آتی ہے۔
زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں اور ان کے چاند خطرناک حد تک بڑی موسمیاتی تبدیلیوں سے گزرتے رہتے ہیں۔ پانی اور بھاری آب وہوا، گیسوں کے غلاف کی موجودگی میں ہماری زمین کا درجۂ حرارت آہستگی سے بدلتا ہے۔ ان لوازمات سے محروم دوسری زمینوں میں دن اور رات کے درجۂ حرارت میں سینکڑوں ڈگری تک کا فرق دیکھا گیا ہے۔ مریخ چونکہ سورج سے زیادہ فاصلے پر ہے، لہٰذا وہ سرد ہے۔ یہاں موسمِ گرما کے دنوں میں جس مقام کا درجۂ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے، عین اسی مقام پر رات منفی 75 ڈگری تک گر سکتا ہے ۔ زندگی نرم و نازک ہوتی ہے، بالخصوص دوسرے جانوروں کے برعکس آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والا انسان تو قطعاً ایسی بڑی اور اچانک تبدیلیاں برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ کم و بیش پانچ ارب سال پہلے اپنی پیدائش کے دوران کرّۂ ارض آج کے مقابلے میں انتہائی حد تک گرم تھا۔ اس عرصے میں یہ بڑی تبدیلیوں سے گزرتی رہی ہے۔ ایسے ادوار اس پر گزرے ہیں جن میں یہ مکمل طور پر برف سے ڈھک جایا کرتی ۔ اس دوران عالمی سطح پر بڑی آتش فشانی اور درجۂ حرارت میں انتہائی اضافے کے دور بھی اس پر گزرے ہیں۔ پرمین دور (Permian Age) میں جاندار نسلوں کے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے کی وجہ بھی ممکنہ طور پر درجۂ حرار ت میں دس ڈگری تک کا اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ 
انسان پریشان اس لیے ہے کہ خود کو وہ اس کرّ ۂ ارض کے لیے ناگریز سمجھتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ اس قد رذہین جانور کا پہلے کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جانوروں ہی کی طرح کھاتے پیتے، سانس لیتے،زندگی کے لیے درکار بنیادی لوازمات سے لطف اندو ز ہوتے اور جانوروں ہی کی طرح بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ انسان ایک ایسے برتر شعور کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے، پہلے کبھی کسی مخلوق میں جسے دیکھا نہیں گیا لیکن اس 
سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم ہمیشہ باقی رہنے کے لیے بنے ہیں۔ آخری تجزیے میں جسمانی طور پر انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہے۔ وہ زندگی گزارتا اور مر جاتاہے۔ اس تناظر میں جب یہ دیکھا جاتاہے کہ بے شمار حیوانی نسلیں مختلف حادثات میں ہمیشہ کے لیے اس کرّۂ ارض سے معدوم ہوتی رہی ہیں تو انسان کے ہمیشہ باقی رہنے کی کوئی دلیل نہیں رہتی۔ 
یہ پریشان کن سوچ اپنی جگہ ٹھوس وجوہ رکھتی ہے کہ اٹھارویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد کوئلے، تیل اور گیس کے تیز تر استعمال سے درجۂ حرارت کئی ڈگری تک بڑھا ہے۔ یہ بھی کہ اس اضافے کے خطرناک اثرات ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زمین اپنے محور پر 23.6 ڈگری کے جس زاویے پر جھکی ہوئی ہے، اس میں ایک ذرا سی تبدیلی انسان کے ہاتھوں پیدا ہونے والی خرابیوں سے کہیں بڑھ کر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ جہاں تک سائنسی برادری کا تعلق ہے، اسے یقین ہے کہ آد می کو بالآخر اس کرّ ۂ ارض سے ہمیشہ کے لیے مٹ جانا ہے۔ ماضی میں ایسے بہتیرے حادثات دیکھے جا چکے ہیں جنہوں نے زندگی کو تقریباً مکمل طور پر ختم کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ حادثات اس قدر خوفناک تھے کہ دوبارہ زندگی کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں کروڑوں برس لگے، جبکہ انسان کی پوری عمر ہی محض چالیس ہزار سال ہے۔ ہر چند کروڑ سال کے وقفے پر فضا سے ایسے دم دار ستاروں کے زمین پر آگرنے کے شواہد موجود ہیں جو اسے تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے۔ سائنسی برادری کو یقین ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا لیکن کب، یہ معلوم نہیں۔ 
آرزوئوں کے تعاقب میں، بہتر مادی وسائل کی تگ و دو میں بظاہر ہمیں اپنی زندگیاں طویل محسوس ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چالیس پچاس ہزار سال کی انسانی زندگی، اس کا سارا فہم، کائنا ت اور خود اپنی ذات میں ڈوب جانے کا یہ سفر محض پلک چھپکنے جیسی ایک ساعت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ انسان کے بنائے ہوئے جوہری ہتھیار، بڑی جنگوں یا درجۂ حرارت میں اضافے ہی سے زندگی ختم ہو۔ مختلف جاندار جنم لیتے اور مٹتے رہے ہیں۔ نظامِ شمسی یا کرّ ۂ ارض کی سطح پر پیدا ہونے والی قدرتی تبدیلیوں کو ہم روک نہیں سکتے۔ اس نیلے سیارے کے وسائل محدود ہیں۔ اس زمین پہ انسان کی زندگی بہت مختصر ہے۔ ہاں اگر انسان کو ایک بڑے سیارے پر کروڑوں برس کی مہلت ملتی، اگر اس کی سرشت میں امن ہوتا اوراگر یہ سارا عرصہ وہ باہمی تعاون سے تحقیق میں بسر کرتا تو صورتِ حال بدل سکتی تھی۔ موجودہ صورتِ حال میں سارے عوامل اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ہمارے پاس چند ہزار سال کی مہلت باقی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved