پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملوں کو کئی روز ہوچکے ہیں بھارت ‘پاکستان سے مطالبہ کررہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو سہولتیں پہنچانے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی کرنی چاہئے‘وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ اگر انہیں اس ضمن میں ٹھوس ثبوت فراہم کردیئے گئے تو پاکستان کارروائی کرے گا‘ اسی قسم کے خیالات کا اظہار آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کیا ہے اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا اورشدت پسندوںکے خلاف ہر سطح پر کارروائی کرنے کا عزم رکھتا ہے، ضرب عضب اس کی عملی مثال ہے؛چنانچہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے بھارت کو ان یقین دہانیوں پر اعتبار کرنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہئے کہ سیکرٹری خارجہ سطح پر مجوزہ مذاکرات معطل نہ ہونے پائیں ۔ بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے پٹھان کوٹ پر دہشت گردوں کے حملے سے متعلق میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے واقعہ سے متعلق یقین دہانیوں پر اعتبار نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ ٹھوس کارروائی کے لیے پاکستان کو مزید وقت دینا چاہئے، بداعتمادی کی کوئی وجہ نہیں ‘بھارتی وزیر داخلہ کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ ان کی حکومت کو اس حقیقت کا آہستہ آہستہ ادراک ہورہاہے، کہ پاکستان کا پٹھان کوٹ پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ‘ بلکہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ ضرب عضب کا آغاز اور اس کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اندرونی و بیرونی دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔پٹھان کوٹ پر حملے کے ضمن میں بھارت جیش محمد پر الزام عائد کررہا ہے، اس تنظیم پر پاکستان میں پابندی ہے، اسے پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے، اگر اس تنظیم نے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا ہے تو اس کا پاکستان کے عوام اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ پاکستان میں کئی ایسی تنظیمیںہیں جو اپنے ہی وطن کے خلا ف دہشت گردی کی مذموم کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ حکومت نے ان کے کارکنوں کو گرفتار کر کے اُنہیں سخت سزائیں بھی دی ہیں جن میں پھانسی کی سزا بھی شامل ہے‘ تاہم یہ بات بھارت کی حکومت کو سمجھنی چاہئے کہ پاکستان بھارت کے خلاف ایسی کارروائیاں کیوں کرے گا‘ جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاںبڑھنے اور کشیدگی پیدا ہونے کا احتمال ہو؟ حال ہی میں بھار ت کے وزیراعظم نریندرمودی نے لاہور کا غیر سرکاری دورہ کیا تھا، جاتی امرا میں وزیراعظم کے گھر بھی گئے‘ جہاں انہوںنے ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کی اور میاں صاحب کی والدہ کے چرن بھی چھوئے ۔ بھارتی وزیراعظم کے اس رویئے سے جہاں اس خطے کے عوام میں خوشگوار حیرت کے تاثرات ابھرے ‘ وہیں یہ خیال بھی جاگزیں ہوا کہ اب یہ دونوں ملک جامع مذاکرات کے لئے اپنا قدم آگے بڑھائیںگے، بلکہ دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ کے مابین رواں ماہ میں ملاقات کا بندوبست بھی اسی تناظر میں کیا گیا تھا، لیکن اچانک پٹھان کوٹ پر دہشت گردوں کے حملہ کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ابھرنے والی مفاہمت کی فضا مکدر ہوگئی ہے،
پٹھان کوٹ پر حملے سے قبل بھارت اور پاکستان کے بعض ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بعض نان سٹیٹ ایکٹر دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کریں گے، اور یہ سچ ثابت ہوا، تاہم ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے اندر انتہا پسند عناصر موجود ہیں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی نہیں چاہتے ‘ بلکہ وہ ان دونوں ملکوں کے مابین مستقل کشیدگی بنائے رکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے عوام کی اچھی خاصی تعداد باہمی تعلقات کو خوشگوار دیکھنا چاہتی ہے، تاکہ تجارت اور لین دین کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس خطے میں امن اور دوستی کی اچھی فضا پیدا ہوسکے، غلط فہمیاں دور ہوسکیں، اور غربت کے خاتمے کے لئے مل کرکام کیا جا سکے۔ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے، کہ پٹھان کوٹ حملے کی وجہ سے تعلقات میںکشیدگی پیدا نہ ہوبلکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان کیری نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے مذاکرات رکنے نہیں، ہونے چاہئیں۔ امریکی سیکرٹری خارجہ کے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات معطل نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا ہونا یقینی ہے، اور دونوں ملکوں کے عین مفاد میں ہے، چین نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی شامل ہونا چاہئے، اس دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس عفریت کی لپیٹ میں آچکی ہے‘ امن کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں، اور خوف انسانی رشتوں کے مابین دوری کا سبب بن رہاہے۔پاکستان گزشتہ بیس سال سے دہشت گردی کے
خلاف جنگ لڑرہا ہے، جس میں اس کے عوام اورفوج دونوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور کر رہے ہیں، یہ ایک طویل جنگ ہے، اس جنگ پر فتح حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام ممالک اس ضمن میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون کریں، اور اس فنڈنگ کو روکیں جس کے بل بوتے پر دہشت گرد اپنی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اگر ان کی مالی امداد روک دی جائے تو ان کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔بھارت کو بھی چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے انسدادکے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے علاوہ خود اپنے رویے پر غور کرنے کی کوشش کرے ، کیا بھارت اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ وہ جنوبی بلوچستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی نہ صرف حمایت کررہا ہے بلکہ ان کی مالی مدد بھی کررہاہے؟ اسی طرح افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب رکھنے اور کرنے میں بھی بھارت کا اہم رول رہاہے، اور اب بھی ہے، اگر بھارت نے روش نہ بدلی تو خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان پر دہشت گردی پھیلانے یا کرانے کا بھارتی الزام بے بنیاد اور لغوہے، پاکستان کی موجودہ قیادت بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے، جبکہ بھارت پاکستان پر دبائو ڈال کر حالات کو خراب کررہا ہے، اور اس خطے میںاپنی بالادستی چاہتاہے!