ڈفی کی تنہائی دور کرنے کے لیے نزدیکی فارم ہائوس سے ایک کالی بھجنگ کُتیا لائی گئی جو اس کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہے۔ بظاہر تو اصیل لگتی ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بچے کیسے پیدا ہوں گے۔ اس زمانے کی ایک خوبصورت ایکٹریس نے برنارڈشا سے کہا کہ اگر ہم شادی کر لیں تو بچے میرا حسن اور آپ کی ذہانت لے کر پیدا ہو ںگے۔''اور اگر وہ میرا حسن اور تمہاری ذہانت لے کر پیدا ہو گئے تو؟‘‘ شانے جواب دیا۔
تا ہم، رسک لیا جا سکتا ہے کیونکہ ڈفی خالصتاً لیبروڈور ہے، اس لیے اگر سارے نہیں تو کچھ تو اس پر جائیں گے ہی۔ ڈفی ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ تو ہوتا ہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ابھی اُسے شادکام ہونے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ ویسے بھی کُتیا جب تک خود بہار پر آئی ہوئی نہ ہو، وصل کی نوبت نہیں آنے دیتی؛ البتہ اس کی مصاحبت سے خوش اور مطمئن بھی ہے اور واپس جانے کا نام بھی نہیں لیتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف بڑے ہی بدھو ہوں اور وہ اپنی مخصوص حرکات و سکنات سے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کرتی ہے یعنی بقول شبلیؔ نعمانی ؎
من فدائے بتِ شوخے کہ بہ ہنگامِ وصال
بمن آموخت خود آئین ہم آغوشی را
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کرتوت کیے پھرتے ہوں اور محض ہمیں بیوقوف بنا رہے ہوں، واللہ اعلم بالصواب۔
میں نے بیچ میں سٹک چھوڑ کر بھی واک کرنا شروع کر دی تھی اور بیٹھکوں کی تعداد بھی 35 تک بڑھا دی تھی لیکن آفتاب نے منع کر دیا کہ سٹک کے ساتھ واک کو ہی معمول بنائے رکھیں، زیادہ رسک لینے کی ضرورت نہیں۔ اس عمر میں بیٹھکوں کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ گھٹنے بطورِ خاص ''ویئر اینڈ ٹیئر‘‘ اعضا کی ذیل میں آتے ہیں، اس لیے اگر ان پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو یہ جواب بھی دے جاتے ہیں۔ میں نے اُسے کہا کہ میں نے تو یہ باتیں تمہیں نہیں بتائی تھیں، یہ تم نے کہاں سے سیکھی ہیں؟ شاید اپنی والدہ مرحومہ سے، جن کے فوک وِزڈم کا اعتراف میں پہلے کہیں کر چکا ہوں۔ علامہ نے بھی ٹھیک ہی کہہ رکھا ہے کہ ع
جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر
سُرخاب کے بارے میں تازہ انکشاف یہ ہے کہ موصوف کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ چاروں طرف لگی بانس کے پودوں کی باڑ ہی میں کہیں رہائش پذیر ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آوازیں دو طرح کی نکالتے ہیں۔ ایک تو سیدھی سادی اور دوسری نہایت کھردری اور
ناگوار، اتنے خوبصورت پرندے کی اس قدر بھدی آواز سے یاد آیا کہ مور جس کے حسن کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ اس کے پائوں اس قدر بدصورت ہوتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں پرندوں کو متوازن بنانے کی خاطر ایسا کیا گیا تاکہ نظرِبد سے محفوظ رہ سکیں۔ باقی یہاں درجہ بدرجہ خیریت ہے، ماسوائے اس کے کہ کینوں کا پھل بارش کی امید میں میٹھا ہونے کا منتظر ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے اپنے آپ ہی ہمت کرنا پڑے گی، یعنی بارش کے بغیر۔ ملتان میں رفعت ناہید کی طبیعت علیل تھی۔ صبح دیکھا تو اس کا رات 12.39 کا ایک میسیج موجود تھا، فکر لاحق ہوئی کہ کہیں بے چاری کا انتقال پُرملال ہی نہ ہو گیا ہو۔ کھول کر دیکھا تو میرا یہ شعر بھیج رکھا تھا ؎
میں اگر اس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو، ظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں
موصوفہ میری فرمائش پر اکثر مجھے میرے مطلعے اور مقطعے بھیجتی ہیں تا کہ میں اپنے کالم کے آخر پر چھاپتا رہوں کیونکہ میری کتابیں تو اکثر اوقات میرے پاس ہوتی ہی نہیں۔ البتہ کچھ لوگ ملتان سے جھنگ جا بسے ہیں جو مجیدا مجد اور ناصر عباس نیر کا شہر ہے۔ ؔ
کوئی تو آ کے بتائے گا ایک دن مجھ کو
کہ ایسا لگتا ہے اب جھنگ تیرے ہونے سے
لیکن جو شعر کئی دنوں سے مجھے ہانٹ کر رہا ہے وہ رفیع رضا کا یہ شعر ہے ؎
اب جو لوٹا ہوں سفر سے تو وہی دیکھوں گا
جو کچھ اس شہر کے اندر مرا دیکھا ہوا ہے
ان کا یہ شعر کسی زمانے میں ''شب خون‘‘ الٰہ آباد میں چھپا تھا جس کی تحسین میں نے اس وقت بھی کی تھی اور جو اس یکسانیت کا اظہار ہے جو انسان کی زندگی کو یکسر بے رنگ کر کے رکھ دیتی ہے۔ اور اب آخر میں خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل:
نہ مجھ سے پوچھیے کیا ہوں، کہاں سے آیا ہوں
جہاں پہ تھا ہی نہیں میں وہاں سے آیا ہوں
ملی نہیں تھی مجھے اور کوئی راہ کہیں
اِسی لیے روشِ رائگاں سے آیا ہوں
مجھے نکال دیا تھا جہاں سے خود میں نے
لُٹے پٹے اُسی خالی مکاں سے آیا ہوں
بھُلا دیئے ہیں جہاں کے ستم بھی میں نے تمام
اک ایسے خطۂ نا مہرباں سے آیا ہوں
ادھار چھوڑ جہاں نقد پر بھی ہے انکار
میں خالی ہاتھ اِک ایسی دکاں سے آیا ہوں
ملے تو شاید اُدھر سے ہی راستے کا سراغ
جو ایک بھٹکے ہوئے کارواں سے آیا ہوں
میں واردات کوئی کر کے آ رہا ہوں نئی
وہیں پہ بھیج نہ دینا جہاں سے آیا ہوں
ملا اگر تو زمیں پر ہی مل سکے گا مجھے
میں اُس کو ڈھونڈ کے سات آسماں سے آیا ہوں
گرا ہوں آپ ہی بجلی کی طرح جس پہ، ظفرؔ
میں اُڑ کے آج اُسی آشیاں سے آیا ہوں
آج کا مطلع
میں اپنی چال ہی چلتا ہوا گزرتا ہوں
یہ راستے جو بدلتا ہوا گزرتا ہوں