تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     15-01-2016

گیریژن سٹیٹ کی طاقت کے مضمرات

پاکستان کا قیام اور ارتقا مورخین اور سیاسی دانشوروں کے لیے معمہ بنا رہا ہے۔ 1947ء میں تقسیم ِ ہند سے لے کر اب تک اس موضوع پر بے شمارکتابیں لکھی گئیں، اسے مختلف زاویوںسے جانچا پرکھا گیا۔ قیام سے لے کر اب تک ، اس کی مختصر لیکن ہنگامہ خیز تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت آشکارہوتی ہے کہ 1977-88ء کا دور ریاست کے مذہبی بیانیے اور جہادی نظریات کی ترویج کا نقطہ ٔ عروج تھا۔ معروف سکالراور سیاسی تجزیہ کار، ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب''The Garrison State: Origins, Evolution, Consequences 1947-2011‘‘ میں اقتدار پر قبضہ اور گیریژن سٹیٹ قائم کرنے کے لیے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت کاجائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ذاتی مفاد کی خاطر مسخ کردہ نظریات پر پڑ ا ہوا پراسرار پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتی ہے کہ انتہائی اہم جیوسٹریٹیجک پوزیشن اور جوہری طاقت رکھنے والے اس ملک ، جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑ ا ملک ہے ، کا اصل مسئلہ کیا ہے۔
کچھ مطبوعہ جائزوںسے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ بھی ایک ویسی ہی کتاب ہے جیسی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ صاحبہ نے ''Military Inc‘‘2007ء میں لکھی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، کتاب پڑھے بغیر محض ٹائٹیل کو دیکھ کرہی غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔ ابھی پاکستان کے نام نہاددانشور وں نے اس موضوع پر بحث کا آغاز نہیں کیا کہ اشتیاق احمد صاحب کی یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسے پاکستان، جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، کے تاریخی ارتقا کا محققانہ تجزیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب ایسے قابل ِعمل حل پیش کرتے ہے جن پر چل کر پاکستان کو ایک جمہوری ریاست بنایا جاسکتا ہے۔ فاضل مصنف نے بہت احتیاط اور توجہ سے پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے جن کی بدولت ایک کمزور سی ریاست ایٹمی صلاحیت حاصل کرتے ہوئے ''اسلام کاقلعہ‘‘ بن گئی۔ ڈاکٹر اشتیاق کی کتاب میں نوآبادیاتی دور کے بعد پروان چڑھنے والے تصورات اور Harold Lasswell کے گیریژن سٹیٹ کا تصور ادغام کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ اپنے پہلے باب، ''اسلام کا قلعہ‘‘، جو گیریژن سٹیٹ کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے، میں مصنف بیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک کمزور سی ریاست چند عشروں میں ایک جوہری قوت بن گئی حالانکہ اس دوران اسے سیاسی، معاشی سماجی اور مذہبی مسائل کا سامنا رہا تھا۔ 
یہ کتاب وضاحت کرتی ہے کہ پاکستان دراصل سرد جنگ کے دوران ایک گیریژن سٹیٹ بن کر ابھرا ۔ یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معیشت سے کہیں بڑھ کر ہے جسے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق اس کی مفصل وضاحت کرتے ہیںکہ صدر ایوب خان کے دور کیے بعد سے دفاعی اشرافیہ امریکہ اور یورپی ممالک کی پسندیدہ اتحادی رہی ہے۔ داخلی اور خارجی طور پر عسکری طاقت میں اضافے کی کچھ تاریخی وجوہ تھیں، جیسا کہ برطانوی سلطنت کا زوال اور امریکہ کا عروج۔ پاکستان کے بانی قائدین اور بعد میں فوجی آمروں نے پوری کوشش سے پاکستان کو ایک''صف ِ اول ‘‘ کی ریاست کے طور پر مارکیٹ کیا۔ 
ڈاکٹر اشتیاق گیریژن سٹیٹ کی جھلک دکھاتے اور حقائق اور سچی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ہوئے بہت سے مفروضوں کا پردہ چاک کرتے ہیں کہ اسلام کا یہ قلعہ سرد جنگ کے دوران سی آئی اے کا ہیڈکوارٹر اور بعد میں دہشت گردوں کی آماجگاہ کس طرح بنا اور جو گروہ کبھی امریکہ کے پروردہ تھے، اس کے دشمن کس طرح بن گئے؟ درحقیقت آج وہ تمام معاشرے انتہا پسندوں کے خطرے کی زد میں ہیںجنھوں ماضی میں انہیں پالا تھا۔ بلکہ یہ گروہ آج اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک میں تخریبی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ کتاب کے مصنف نے بہت مہارت سے گیریژن سٹیٹ میں پیش آنے والے ہنگامہ خیز اور یک لخت پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم کس طرح امریکی کیمپ میں داخل ہوکر ملنے والے ہتھیاروں سے شہ پا کر انڈیا سے جا بھڑے۔ اس کے بعد مارشل لا کا طویل دور اور بنگلہ دیش کی تخلیق۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ضیا میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی ناکام کوشش نے ملک کو انتہا پسندوں کی آماجگاہ بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب اس عمل کو اپنے پائوں پر کلہاڑ ا مارنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر افسوس کرتے ہیںکہ آج میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دیگر ریاستوں پر سازش کا الزام لگا کر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب ملک کو درپیش چیلنجز کو بہت صراحت سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد بہت سے چیلنج ابھر کرسامنے آئیںگے۔ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے عوامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک گیریژن سٹیٹ جمہوری اور سیکولر تصورات کی آبیاری نہیں کرتی ، اُس وقت تک سماجی کا فکری دھارا تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ پاکستان میں ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ پاکستان میں براہ ِراست یا بالواسطہ سیاسی اور سماجی بیانیہ عسکری اداروں کی مرضی سے ہی آگے بڑھتا ہے۔ معاشی پہلو سے لے کر خارجہ پالیسی تک تمام امور خاکی وردی پوش ہی طے کرتے ہیں۔ ملک پر بھلے سیاسی حکومت ہو لیکن قوت ِفیصلہ راولپنڈی کے پاس ہی رہتی ہے۔ہمارے زیادہ امراض کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے فیصلہ اسلام آباد میں نہیں ہوتے۔ 
ڈاکٹر اشتیاق صاحب نے بہت جانفشانی سے کام کرتے ہوئے اس بیماری کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر لکھاریوں کے برعکس اُنھوں نے محض الزام تراشی نہیں کی ۔تاہم اپنے حتمی تجزیے میں وہ کہتے کہ ناکامی کی ذمہ داری مجموعی طور پر تمام دھڑوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس میں گیریژن سٹیٹ بھی شامل ہے اور سویلین بھی، لیکن چونکہ عسکری اداروں کے پاس ہی اصل اختیار ہوتا ہے ، اس لیے ناکامی کا داغ بھی انہی کے دامن پر لگتا ہے۔ چونکہ گیریژن سٹیٹ کے پاس حتمی طاقت ہوتی ہے، اس لیے سیاسی رہنما بھی انہی کی دھن پر ناچنے کو دانائی گردانتے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک سمجھوتہ ہے ، جس کا اظہار ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں، لیکن سیاست دان یقینا بے وقوف نہیں ہوتے، وہ جانتے ہیں کہ ملک میں طاقت کا منبع کہا ں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved