تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-01-2016

اُلٹی سیدھی

بارش اور جاڑا اکٹھے آئے اور خوب آئے، بارش ا گرچہ اتنی بھرپور نہیں تھی، لیکن جتنی بھی تھی اسے غنیمت ہی سمجھنا چاہیے کہ یہ پہلی باقاعدہ بارش تھی۔ پیڑوں کے پتے دھل دھلا کر چمک اٹھے ہیں، ہوا میں تازگی ہے اور ٹھنڈک۔ ناصر کاظمی کی طویل نظم کا عنوان بھی ''پہلی بارش‘‘ تھا۔ یہ ایک موضوعاتی نظم تھی جس کے بارے میں جناب اسلم انصاری نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی موضوعاتی نظم ناصر کاظمی کی نظم سے بہتر ہے۔ یہ ان کا خیال ہی ہو سکتا ہے؛ اگرچہ ناصر کی نظم بھی ایک ناکام کاوش تھی، لیکن اسلم صاحب ناصر کاظمی کے آگے ٹھہرنے والے کہاں ہیں۔ میرا ذاتی تاثر یہ ہے اور جو غلط بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اندر عمدہ شاعری کا جب سانچہ ہی نہیں ہے تو ایسی شاعری نکلے گی کہاں سے۔
یہ سانچہ نہ تو کوئی خود بنا سکتا ہے نہ ہی اسے یہ کہیں سے بنا بنایا دستیاب ہوتا ہے بلکہ صرف قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے اور خود شاعر کی کارگزاری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسلم انصاری ایک بہت اچھے انسان ضرور ہوں گے جیسا کہ بظاہر نظر بھی آتے ہیں لیکن ایک عمدہ شاعر ہونے کی تہمت ان پر نہیں لگائی جا سکتی۔ ہمارے ایک دوست نے حال ہی میں ان پر ایک طویل بسیط مضمون باندھا ہے جس میں ان کی شاعری کو نجانے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے حالانکہ گنہگار آنکھوں کو ان کی شاعری کہیں نظر نہیں آئی۔ اس میں میرا اپنا یا میری بینائی کا قصور بھی ہو سکتا ہے جس کا علاج کروانے کی شاید مجھے بھی ضرورت ہو۔
شاعری تو آپ کو پکڑ لیتی ہے اور کہیں جانے نہیں دیتی، چاہے اس کا خالق کتنا ہی غیر معروف کیوں نہ ہو، میں جو اپنی شاعری کے حوالے سے زیادہ تر کسرِ نفسی سے کام لیتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک طرح کا ناشکراپن ہی ہے، لیکن اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے کیونکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا ایک ایسا عیب ہے جو کسی بھی ممکنہ ہنر کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔ میں نے اچھی شاعری کی ہمیشہ تعریف کی ہے، اور جو اچھی نہیں ہوتی، اول تو اُسے نظر انداز کرتا ہوں اور اگر اس کے بارے اظہار رائے کر بھی دوں تو اسے عیب جوئی سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ خاصی حد تک صاف گوئی ہوتی ہے جس کا رواج ہمارے ہاں سے تقریباً اٹھتا جا رہا ہے اور خواہ مخواہ ہر طرح کی شاعری پر تعریفوں کے پل باندھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ شاعری ویسے ہی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
میں شاعری پر اپنے الٹے سیدھے خیالات کا اظہار اکثر کرتا رہتا ہوں، اس لیے کہ یہ میرا مسئلہ، میرا سروکار ہے؛ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کے حوالے سے شعراء کو خود بھی لکھنا چاہیے کہ اس سے ایک مکالمے کی بھی گنجائش نکلتی ہے اور یہ کام نقادوں پر ہرگز نہیں چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ان کے اپنے مسائل اور ترجیحات ہوتی ہیں اور شاعری کے اسرار و رموز کو ایک شاعر ہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے اور اس پر بات کرنے کا اہل ہو سکتا ہے۔ کئی حضرات جو مصرع وزن میں نہیں پڑھ سکتے، شاعری پر تنقید کا بوجھ انہوں نے بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھا رکھا ہوتا ہے اور یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ شعراء تو تنقید نگاری کو اپنے لیے شجرممنوعہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے سارا میدان نقاد حضرات کے لیے خالی چھوڑ رکھا ہے۔ یہ معزز نقاد طبقہ کے خلاف کسی بغض کا اظہار نہیں ہے اور ان کی تحریروں سے روشنی بھی میسر آتی ہے اور اس کے باوجود خود شعراء کو بھی اس کام کے بارے لکھتے رہنا چاہیے جسے وہ کرتے ہیں۔
میں اکثر نئے شعراء کو یہ تلقین کرتا پایا گیا ہوں کہ جدید ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور ابھی انہیں جدید شاعری کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا مزاج کیا ہے اور وہ کہاں تک پہنچ چکی ہے اور جب تک اس سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے، آپ خود اس تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے اور اب توجدید شاعری یا جدید غزل کا سکہ اس قدر چل نکلا ہے کہ اس کا اندازہ ایک سرسری نظر سے بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ خود بخود جدید تر ہوتی رہتی ہے کہ یہی قانونِ قدرت بھی ہے جبکہ نئے شاعر کو سب سے پہلے تو اپنے خول سے اپنے آپ کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے اور جو کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں ہے۔
دوسروں سے مختلف ہونا اس سلسلے کی ایک بنیادی شرط ہے کیونکہ دوسرے تو اپنی طرح کی شاعری کو ہی رہے ہیں خواہ جتنی بھی کامیابی سے کر رہے ہوں، لیکن شاعر کو ان سے آگے نکل کر ان کی جگہ لینی ہے اور اس پر کسی کی اجارہ داری بھی نہیں ہے کہ وہ ایک مقام حاصل کر لے اور اس کے بعد اس کے ساتھ چمٹا ہی رہے۔ آپ کو آگے بڑھ کر اس سے وہ مقام چھیننا ہے کیونکہ وہ بھی کسی یا کئیوں کا مقام چھین کر ہی یہاں تک پہنچا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں دلیری کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ کام سرانجام دیا ہی نہیں جا سکتا، اس لیے کسی سے خواہ مخواہ مرعوب ہونے کی بجائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور اس سے دو دو ہاتھ کرنے کی امنگ اور حوصلہ جب تک موجود نہیں ہو گا یہ گاڑی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سینئرز کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بتوں کو گرانا بھی ضروری ہے ورنہ یہ سومنات فتح نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے طریقِ کار بلکہ طریقۂ واردات کا بغور معائنہ کرنے 
سے ہی اس میں بنیادی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لیے کسی سے متاثر ہونے یا کسی کے رنگ میں رنگے جانا خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔ دنیا میں کوئی کام مشکل یا نا ممکن نہیں ہے، صرف عزمِ صمیم کی ضرورت ہے جس کے بعد سارے راستے آپ ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ کم از کم میں نے تو یہی نسخہ استعمال کیا ہے۔ اس میں کامیاب ہوا ہوں یا ناکام، یہ ایک الگ بات ہے، تا ہم اس میں ایک امکان ضرور موجود ہے اور امکانات کو بروئے کار لانا ہی اصل بات ہے ورنہ کسی کی ٹوپی میں کوئی سرخاب کا پر نہیں لگا ہوا ہوتا اور اگر کسی نے ایسا کیا بھی ہے تو یہ پر خود لگایا ہے، کسی اور نے اسے ایسا کر کے نہیں دیا ہے۔
اس لیے اگر آپ کے اندر تہلکہ مچا دینے کا ارادہ نہیں ہے تو آپ کچھ بھی نہیں ہیں، خاطر جمع رکھیے۔ اور اگر آپ کو دوسروں سے منفرد نہیں ہونا اور یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہیں ہے تو آپ کو کوئی دوسرا کام کرنا چاہیے تا کہ نہ دوسروں کا وقت ضائع ہو اور نہ ہی آپ کا۔ کوئی بھی اہم یا کامیاب شاعر آسمان سے اترا ہوا نہیں ہوتا، سب اپنی اپنی کوشش سے آگے بڑھتے اور اوپر جاتے ہیں، آپ کیوں نہیں جا سکتے، کہ ان ستاروں سے آگے کئی جہاں اور بھی ہیں!
آج کا مطلع
ہوں میں پہلا سا پرانا کہ نرالا ہوا میں
رفتہ رفتہ جو ترا چاہنے والا ہوا میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved