تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     15-01-2016

پاک چین راہداری اور سیاست

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کا مسئلہ پاک چین راہداری(سی پیک) نہیں بلکہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات ہیں۔ اپنے قائدعمران خان کے فرمودات کی روشنی میں معلومات تک رسائی، صوبائی احتساب کمیشن وغیرہ کی بے معنی سرگرمیوں کے ذریعے صوبے کی حکومت چلانے کے ڈھائی سال بعد ان پر یہ منکشف ہوا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام کے سامنے وہ اپنی کارکردگی کی نظر آنے والی کوئی مثال پیش نہیں کرسکیں گے۔ حکومت کی باقی ماندہ نصف مدت میں وہ کوئی بڑا منصوبہ شروع کربھی لیں تو اسے مکمل نہیں کرپائیں گے اور نامکمل منصوبہ سیاسی طور پران کے گلے پڑ جائے گا۔ عمران خان کے پاس بھی ماشااللہ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے کافی سیاسی تجربہ موجود ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی لائی تبدیلی کا کوئی ترقیاتی ثبوت موجود نہیں؛ لہٰذا ڈھائی سال بعد الیکشن میں اٹھنے والے اس معقول سوال کا جواب ابھی تلاش کرنا ہوگا۔ اس لیے تحریک انصاف کے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کے شروع کردہ پاک چین راہداری منصوبے کومتنازع بنانے کی کوشش کرے؛ چنانچہ اسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت پرویز خٹک نے سی پیک پر شور مچانا شروع کردیا۔اس راستے پر پرویزخٹک اتنے تیز چلے کہ ایک قومی جماعت کے رہنما ہونے کے باوجود پختون قوم پرستی کی بند گلی میں گھس گئے۔''ہمیں غدار نہ کہا جائے، لے جاؤ یہ سڑک اٹھا کر، ہزارہ والے بھی خوش نہ ہوں‘‘ جیسے بیانات دے کر انہوں نے پختون قوم پرست ووٹ کو اپنے لیے مخصوص کرنا چاہا لیکن 
یہ بھول گئے کہ اے این پی اور ان کی اپنی سابق جماعت قومی وطن پارٹی ان سے کہیں زیادہ تن دہی سے قوم پرستی کا نعرہ لگا نے کے باوجود دوہزار آٹھ کا الیکشن بری طرح ہار چکی ہیں۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں رہا کہ صوبے کے غیر پختون علاقے یعنی ہزارہ کے ہندکو بولنے والے اور ڈیرہ اسماعیل کے سرائیکی بولنے والے بالکل مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ جس راہداری کو 'صر ف ایک سڑک‘ کہہ کر پرویزخٹک جھٹک دیتے ہیں ، ہزارہ اور ڈیرہ والے اسے اپنے لیے ترقی کا لامتناہی خزانہ سمجھتے ہیں، اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ کے برعکس انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ صرف ایک سڑک نہیں بلکہ دوسرے مرحلے میں اس کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن بھی بچھے گی اور کارخانے بھی وجود میں آئیں گے۔ اے این پی کی پختون قوم پرستی کے ڈسے ہوئے ان لوگوں نے 2013ء میں تحریک انصاف کو قومی جماعت سمجھ کر ووٹ دیے تھے ، اب اس قومی جماعت کا وزیراعلیٰ قوم پرستی کے نعرے لگانا شروع کردے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف اور پرویزخٹک ذہنی طور پر صوبے کے غیر پختون علاقوں سے دستبردار ہوکر اپنی امیدیں قوم پرستی سے وابستہ کرچکے ہیں۔ 
پرویز خٹک کی تمام کوششوں کے باوجود محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سی پیک پر کوئی بڑااعتراض کرنے سے گریزاں اس لیے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے آگے چل کر سی پیک بلوچستان کے پختون علاقے میں داخل ہوجاتی ہے جو ان دونوں کا حلقہء انتخاب ہے۔ خیبرپختونخوا کی حد تک یہ ٹھیک ہے کہ سی پیک صرف غیر پختون علاقے سے گزرتی ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال برعکس ہے کیونکہ وہاں سی پیک کا نصف حصہ پختون علاقوں سے گزر کر جاتا ہے اور اس کے نقشے میں کسی قسم کی تبدیلی سیاسی طور پر پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جمیعت علماء اسلام دونوںکے لیے یکساں طور پر نقصان دہ ہوگی۔ خیبرپختونخوا میں اپنے سیاسی مفادات کے لیے یہ دونوںحضرات تھوڑی دور تک قدم گھسیٹتے ہوئے پرویزخٹک کے ساتھ چلیں گے اور حکومت کی طرف سے پہلے رابطے پر ہی انہیں تنہا چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ اگر پرویزخٹک پھر بھی نہ سمجھے تو ان کے قائد کوسمجھا دیا جائے گا کہ پاک چین راہداری اور اس کے نقشوں پرحکومت ِ پاکستان کے ساتھ ساتھ افواجِ پاکستان کی بھی ضمانت ہے۔
سی پیک پربلوچستان کے قوم پرستوں کے تحفظات خیبرپختونخوا کے قوم پرستوں سے الگ نوعیت کے ہیں۔ انہیں راہداری کے روٹ پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ خدشہ ضرور لاحق ہے کہ اس راہداری اور گوادر بندرگاہ بننے کے بعد صوبے میں نئے لوگوں کی آمد سے بلوچ آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس اعتراض کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ نسلی بنیاد پر تو کسی گروہ کو بھی پاکستان میں تو کیا کسی ایک صوبے میں بھی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں، اگر شناخت کی بنیاد پاکستانی ہونا ہے تو پھر گوادر سے گلگت تک 'ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘۔ دلائل اپنی جگہ لیکن اس موقف کی پذیرائی بہرحال بلوچ علاقوں میںکسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ان اعتراضات کا اظہار ابھی اختر جان مینگل ہی اپنی مختصر سی انتخابی قوت کے ذریعے کررہے ہیں اگر آئندہ الیکشن میں سی پیک کے نتیجے میں اقلیت ہوجانے کا بیانیہ بلوچ علاقوں میں کوئی سیاسی اہمیت اختیار کرلیتا ہے تو یہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے وگرنہ اسے فی الحال ایک آدھ نشست پر انتخاب جیتنے کی کوشش ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
پاک چین راہداری پر یکایک اتنے شور شرابے کی وجوہ میں سرفہرست تو سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی انتخابی ضروریات ہیں جوآئندہ ڈھائی سالوں میں شدید ہوتی جائیں گی لیکن ایک وجہ بذات خود سی پیک کے انچارج اور ہمارے وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال بھی ہیں۔ وزیر باتدبیر کی ذہانت و اخلاص اپنی جگہ مسلّم لیکن وہ اپنی ذات میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ سی پیک جیسے بڑے منصوبے میں سب کچھ وہ اکیلے نہیں کرسکتے، انہیں لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا تبھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں گے۔ ان کا طرزِ عمل اور طرزِ تخاطب یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں اپنے کام کے سیاسی پہلو کی گہرائی کا اندازہ ہی نہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ سی پیک ان کے لیپ ٹاپ پر موجود نقشے کا نام نہیں بلکہ اسے دو صوبوں کی زمین پر بننا ہے۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر بنے منصوبے کو زمین پر لانے کے لیے انہیں ہر صوبے میں ایک ایسی ٹیم درکار ہے جو سی پیک کا سب کے لیے قابلِ قبول سیاسی بیانیہ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی طور پر پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ یقینا احسن اقبا ل بہت کچھ تنہا کرسکتے ہوں گے لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ سی پیک ان کی بساط سے بڑا منصوبہ ہے۔ انہیں ایسے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے جو پاکستانی سیاست اور اس کے علاقائی رنگوں کو سمجھتے ہوں، اگر انہیں یہ مدد نہ ملی تویہ صاحب معاملات کو الجھا دیں گے۔ چینی سفارتخانے نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے سی پیک پر اختلاف نمٹانے کی جو اپیل کی ہے درحقیقت احسن اقبال کی سی پیک کے معاملے پر ناکامی پر احتجاج کی ہی ایک صورت ہے۔ چینیوں نے اپنے انداز میں یہ پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ وزیراعظم کی قیادت میںراہداری کے معاملے پر جو اتفاقِ رائے پیدا ہوا تھا، اس کی اس تیزی سے تحلیل کی ذمہ داری کس پر ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved