تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-01-2016

یہ محبت کا تحفہ نہیں

عمران خان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ حکمرانی کے موجودہ نظام سے کسی قسم کی قانونی‘ اصولی یا ضابطوں کے مطابق پالیسی یا منصوبہ بندی کی امیدیں چھوڑ دیں۔ موجودہ حکومتی ڈھانچہ‘ عوام کو مکمل بے بس کرنے کے بعد‘ ضرورت سے زیادہ اعتماد کا مالک بن چکا ہے۔ اگر آپ اس حکومت کے وزیروں‘ مشیروں حتیٰ کہ ترجمانوں تک کے بیانات سنیں‘ تو جو نخوت اور تکبر سامنے آتا ہے‘ اس کی روشنی میں جمہوری روایات کے تحت‘ عوام کو کسی قسم کی رعایت یا سہولت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے آج ہی وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور چاروں وزرا ئے اعلیٰ کے مابین‘ پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق ایک مشاورتی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی ایک مختصر سی خبرپڑھی۔ اس کے مطابق‘ وزیراعظم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ اس کمیٹی میں شامل ہوں گے۔سیاسی رہنمائوں نے اپنے وہی مطالبات دہرائے‘ جن کا ذکر وہ بارہا کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی روٹ پر صرف سڑک نہیں‘ انفراسٹرکچر بھی چاہئے۔ جس میں گیس‘ بجلی سپلائی‘ آپٹک فائبر اور ریلوے ٹریک سمیت وہ تمام لوازمات ہوں‘ جو سرمایہ کاروں کے لئے کشش رکھتے ہوں۔وزیراعلیٰ کے پی کے‘ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے صوبے میں بنیادی چیزیں نہیں ہوں گی‘ تو انڈسٹری نہیں لگے گی‘وزیراعظم کی طرف سے ‘ ہمارے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو بجلی کے منصوبوں کا علم نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مشاروتی عمل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔یہ تمام لیڈر اور وزرائے اعلیٰ‘ کئی ہفتوں سے اقتصادی راہداری کے بارے میں معلومات حاصل کرتے پھر رہے ہیں لیکن یہ منصوبہ‘ ان کے لئے اسی طرح ہے‘ جیسے اندھوں نے ہاتھی کو دیکھا تھا۔کسی کا ہاتھ سونڈ پر گیا۔ کسی نے ہاتھی کا کان چھو لیا۔ کسی نے ٹانگ پکڑ کر دیکھ لی اور کسی نے دم مروڑ کے دیکھ لی۔ ہر ایک کی تحقیق کے مطابق‘ ہاتھی ان کے محدود تجربے کے مطابق تھا۔ کسی کو پورے ہاتھی کا پتہ نہ چلا۔ 
حکومت کے ساتھ متعددمیٹنگوں اور مشاورتی اجلاسوں کے بعد‘ جو کچھ یہ لیڈر بیان کرتے ہیں ‘ وہ صرف اتنا ہوتا ہے جتنا اندھے کے تصور میں آیا ہوا ہاتھی۔ میں بار ہالکھ چکا ہوں کہ میری ٹائم سلک روڈ‘ جسے بیلٹ روڈ بھی کہا جاتا ہے‘ صرف پاکستان نہیں‘ آدھی سے زیادہ دنیا کے گرد بننے والا ایک ہمہ جہتی منصوبہ ہے۔سڑک اور آبی راستے محض مصنوعات اور معدنیات کی آمدورفت کی خاطر بنائے جائیں گے۔ جہاں جہاں جو معدنیات ہوں گی‘ ان کے لئے ایسی جگہوں پر فیکٹریاں اور کارخانے لگیں گے‘ جہاں خام مال پہنچانا اور تیار شدہ مال‘ مارکیٹ تک لے جانا ضروری ہو گا۔ اس سلسلے میں خود چینیوں نے اپنے سرویز کر رکھے ہیں۔ میں بار ہار عرض کر چکا ہوں کہ ان کے منصوبے میں یورپ‘ وسطی ایشیا‘ مغربی ایشیا‘ مشرقی ایشیا‘ افریقہ‘ شرق اوسط غرض امریکہ کے سوا‘ پوری دنیا کے ترقی اور نیم ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی اقتصادی راہداری ہے‘ جہاں پر چین نے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ لگانے کا بلیو پرنٹ تیار کیا ہے اور اس پر24 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ وہ کہاں سے خام مال لائیں گے؟ اور کہاں استعمال کریں گے؟ یہ ایسا خواب ہے جسے مکمل طور پر صرف چینیوں نے دیکھا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی دیانت داری کے دنیا بھر میں چرچے ہیں۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کے با اختیار لوگوں کو ڈالروں کے سوٹ کیس بھر کے دے دیے جائیں گے کہ وہ جیسے چاہیں چینیوں کے دیے ہوئے‘ منصوبوں کے مطابق ‘ خرچ کر لیں‘ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ گوادر کا تجربہ ہم کر چکے ہیں۔ وہاں پر خرچ کرنے کے جو اختیارات ہمارے پاس ہیں‘ ان کی تفصیل معلوم کرلیں۔ ہمارے سیاست دان اور وزرائے اعلیٰ بھی حکومت پاکستان سے بلاوجہ الجھتے پھر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کا وہ حصہ جو پاکستان میں تعمیر ہو گا‘ اس کی پوری تفصیل ابھی تک‘ ہمارے ارباب اقتدار کے علم میں نہیں لائی گئی۔ جس طرح صدر اوباما کا اپنے سالانہ خطاب میںیہ کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان آنے والے کئی عشروں تک‘ عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔ اسی طرح چین نے بھی اپنی گردونواح کی دنیا میں‘ استحکام کے منصوبے بنائے ہیں۔ ضروری نہیں کہ چین نے بنائے ہوئے منصوبوں میں جو راستے‘ معدنیات اور قدرتی وسائل شامل کر رکھے ہیں‘ وہ چین کے کنٹرول میں بھی ہوں۔ یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے۔ جیسا کہ میں گزشتہ کئی کالموں میں عرض کر چکا ہوں کہ اس میں برما بھی شامل ہے۔ سری لنکا بھی‘ بھارت بھی‘ انڈونیشیا بھی‘ یورپ کے متعدد ممالک بھی‘ افریقہ کے کئی ممالک بھی اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ممالک بھی۔ غرض یہ ایک طویل مدتی اور ہمہ جہتی منصوبہ ہے ۔ ہمارے ہاں یوں بحث ہو رہی ہے‘ جیسے سب کچھ موجود ہے۔ چین تھیلا کھولے گا اور ہماری ضروریات کے مطابق‘ جس کو جو چیز درکار ہو گی‘ اس کے حوالے کر دے گا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں بارہا پاکستان کے ارباب اقتدار اور ارباب اختیار کو متوجہ کر چکا ہوں کہ جن نقشوں پر وہ کام کر رہے ہیں۔ ایک تو وہ پوری بیلٹ کا احاطہ ہی نہیں کرتے۔ پاکستان میں اقتصادی راہداری کا صرف اتنا حصہ ہے‘ جو یہاں سے گزرے گا اوراس حصے کے لئے بھی جو اشیا‘ راستے اور مہارتیں درکار ہیں‘ انہیں بھی ضرورتیں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ‘ حاصل اور فراہم کیا جائے گا۔ مثلاً چین کے راہداری منصوبے میں آدھی سے زیادہ رقم‘ بجلی کے پیداواری منصوبوں پر صرف کی جائے گی۔ کیا حکومت کا کوئی با اختیار شخص یہ بتا سکتا ہے کہ بجلی بنانے کے کارخانے کہاں قائم ہوں گے؟ ان کا ایندھن کیا ہو گا؟ کہاں سے لیا جائے گا؟ چین کی اپنی حالت بھی مطالعہ فرما لیجئے کہ وہ اپنے عوام کے لئے زیادہ بجلی کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ اس میں کیا ایندھن استعمال کیا جاتا ہے؟ اور وہاں پر اردگرد کی آبادیوں کی صورت حال کیا ہے؟ جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے‘ چین میں کوئلے سے بجلی بنانے کے تمام کارخانوںکے گردونواح کی آبادیاں‘ صحت کے جن مسائل کا شکار ہیں‘ چین کی حکومت اس پر ازحد پریشان ہے۔اس علاقے میں چین کی جو تاریخی تعمیرات موجود ہیں‘ ان کی اصلی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے صرف سرسری تذکرہ کیا ہے‘ مکمل معلومات کا مجھے بھی علم نہیں لیکن جن دوستوں سے ان مسائل کے بارے میں سنا ہے‘ ان کا بیان یہی ہے کہ چین نے‘ بے شمار مصنوعات تیار کرنے کے لئے ‘گزشتہ عشروں کے دوران‘ جو مشینری اور آلات لگائے تھے۔ اب اس کی رفتار ترقی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کارآمد نہیں ۔ چین اپنے ان آلات اور مشینری کو‘ سکریپ میں بیچنے کے بجائے‘ پسماندہ ملکوں میں نصب کرنا چاہتا ہے۔ 
کیا ہمارے حکمرانوں نے ان مشینوں اور کارخانوں کا معائنہ کر لیا ہے جو ہمارے ملک میں لگائے جائیں گے؟یہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا ایک حصہ ہو گا۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مزید وہاں کیسی تعمیرات ہوں گی؟ کیا سامان استعمال کیا جائے گا؟ کون سے کارخانوں میں کیسا خام مال استعمال ہو گا؟ اس سے پیدا ہونے والی آلودگی‘ گردونواح کے ماحول پر کیا اثرات ڈالے گی؟ موسموں کی صورت حال کا کیا بنے گا؟ کارخانوں میں کام کرنے والے‘ مزدوروں اور کاریگروں کی صحت پر کیا گزرے گی؟ ان کی رہائشی کالونیاں کیسی ہوں گی؟ اس کا ہمارے عوام کی صحت پر کیا اثر ہو گا؟ ہمارے رہنمائوں کے ذہنوں میں صرف ایک ہی چیز آتی ہے کہ ڈالر آئیں گے‘ ٹھیکے ملیں گے‘ کمیشن ہوں گے۔یاد رہے کہ چین کے تاجر اور سرمایہ کار‘ اب کمیشن کے نام سے ناواقف نہیں رہے۔ انہیں بھی پتہ چل چکا ہے کہ دنیا میں کاروبار کیسے چلتے ہیں؟ اور چلائے جاتے ہیں؟ وہ دنیا کی ہر تیز طرار اور چست و چالاک کاروباری برادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے‘ ڈالروں کے ڈھیر جمع کرتے آرہے ہیں ۔ آج مجھے یہ لکھتے ہوئے کسی تردید کا خوف نہیں کہ سرمایہ دار قوموںکی ڈالر جمع کرنے کی دوڑ میں‘ چین سب کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے۔ اس کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ‘جمع شدہ ڈالروں کا مصرف ہے۔ چین ہمارے اور دنیا کے پسماندہ ملکوں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ترقیاتی منصوبے نہیں بنا رہا۔ وہ ڈالر جمع کرنے کی دوڑ میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ مقابلے کی خاصیت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک‘ کسی دوسرے کی مدد نہیں کرتا۔ ہر ملک کی تجارت اور سرمایہ کاری اپنی مدد کے لئے ہوتی ہے۔ چین کے ساتھ مل کر پیار محبت کے نغمے گانا‘ الگ بات ہے۔ کاروبار علیحدہ چیز ہے۔ اقتصادی راہداری کو صرف محبت کا تحفہ مت سمجھیں۔ سرمایہ داری کی دوڑ‘ سرمایہ دارانہ مقابلہ آرائی کا کھیل بھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved