پاکستان بھر کے ڈرائنگ رومز میں گفتار کے غازی، اکثر سیاست دانوں کی حماقتوں پر نوحہ کناں رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ملک کی ناقص جمہوریت سے پیدا ہونے والے مسائل کا واحد علاج ''مہربان اور باصلاحیت آمریت‘‘ ہے؛ حالانکہ اس سے پہلے متعدد بار طویل عرصے تک آمریت ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہے، لیکن اس کی ہر بار ناکامی کے باوجود نام نہاد بقراط کسی مضبوط رہنما کی تلاش سے عاجز آتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ مبینہ مضبوط رہنما وردی میں ہی ہو سکتا ہے۔ ہر مرتبہ آمریت کی اننگز کا آغازان وعدوںسے ہوتا ہے کہ ملک میں بے لاگ احتساب ہوگا، سیاسی طبقے کا پھیلایا ہوا گند صاف اور گڈ گورننس کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن جب کئی سال بعد آمریت کی اننگز عوامی احتجاج کی وجہ سے اختتام پذیر ہوتی ہے تو ان مسائل میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔
ملک کے بہت سے مسائل حل کرنے میں آمروں کی کوتاہی کے باجود ٹی وی سٹوڈیوز میں موجود اُن کے چاہنے والے ان مسیحائوں کے انتظار میں آنکھیں بچھانے سے باز نہیں آتے۔ آج کل اس گینگ کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو ایسا ہی مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جنرل صاحب کو احساس ہوگا کہ اُنہیں اپنے اختیار کے لیے حکومت کا تختہ الٹنے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں زیادہ تر وقت سری لنکا میں گزارنے اور اس ملک کو ایک جاندار جمہوری ریاست سے فرد ِواحد کی حکمرانی کے گڑھے میں گرتے دیکھنے کے بعد میں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ جو لوگ پاکستان میں منتخب حکومتوںسے تنگ آکر آمروں کو پکارنے لگتے ہیں، وہ کچھ عرصہ سری
لنکا میں ضرور گزاریں۔ سابق صدر مہندا راجا پاکسے کو جنہو ں نے ملک پر پورا عشرہ حکومت کی ،گزشتہ انتخابات میں متھرائی پالا سری سینا کے ہاتھوں تاریخی شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ راجا پاکسے کے دور میں اپوزیشن کے موقف کے حامی صحافیوں کو اکثر اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ کچھ کو قتل بھی کردیا گیا۔ ان جرائم کی پاداش میں نہ کبھی کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ کسی کو سزاہوئی۔اپوزیشن ارکان کو اکثر رشوت دے کر وفاداری تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ سری لنکا میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے۔ راجا پاکسے نے عدلیہ کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔ اس طرح جمہوریت پر نگاہ رکھنے والے تمام اداروں کو بے اثرکردیا گیا۔
ایک عشرہ طاقت رکھتے ہوئے راجا پاکسے نے ریاستی اداروں کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ اُس دور میںاقربا پروری اور بدعنوانی کی نت نئی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔ اُن کے تین بھائیوں کے حکومت میں اعلیٰ عہدے تھے۔ اُن میں سے ایک گوتابھائیا سیکرٹری دفاع تھے جنہیں سری لنکا کاسب سے طاقتور شخص سمجھا جاتا تھا۔ صدر کا بیٹا نامل (Namal) بھی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوا۔ اُس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اُس کی تربیت اپنے باپ کے جانشین کے طور پر کی جا رہی ہے۔ راجہ پاکسے کا 190 رکنی خاندان مختلف سرکاری عہدوں پر فائز دکھائی دیتا تھا۔ اقتدار پر مضبوط گرفت جماتے ہوئے اس خاندان کی جڑیں حکومت میں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے کم از کم اپنی زندگی میں راجا پاکسے کے دور کے ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ لیکن پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ سری لنکن صدر نے جو ایک توہم پرست انسان تھے، نجومیوںسے کہا کہ وہ اگلے انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی سازگار تاریخ بتائیں۔ اس پر ''فاضل‘‘ نجومیوں نے 8 جنوری 2015ء کی تاریخ تجویز کی جو صدارتی انتخابات کی آئینی مدت سے ایک سال قبل کی تھی۔
یہ دن اگرچہ 15مارچ سے چند ہفتے قبل تھا، لیکن یہ راجا پاکسے کے لیے اتنا تباہ کن ثابت ہوا جتنا Ides of March دوہزار سال پہلے رومن شہنشاہ جولیس سیزرکے لیے۔ نجومیوں کی پیش گوئیوں کے برعکس ستارے راجا پاکسے سے آنکھیں پھیر کر اپوزیشن کو نوازتے دکھائی دیے۔ متھرائی سری سینانے راجا پاکسے کی حکمران جماعت SLFP کو چھوڑ کر اپوزیشن میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے نمائندے بن کر انتخابی میدان میں آگئے۔ اس سے پہلے اُنہیں سیاسی طور پر کوئی اہمیت نہیں دی جا تی تھی۔ کئی رپورٹس کے مطابق کولمبومیں موجود بھارت خفیہ ادارے ''را‘‘ کے باس نے اپوزیشن کو ملا کرکولیشن بنانے میں کردار ادا کیا ۔ یہ بات قرین قیاس دکھائی دیتی ہے اس لیے کہ انڈین انٹیلی جنس طاقتور راجا پاکسے کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی تھی کیونکہ صدر صاحب چین کے ساتھ فوجی، سیاسی اور معاشی روابط مضبوط بنانے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ یہ پیش رفت یقیناً بھارتی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اگر یہ بات درست ہے تو انڈین خفیہ ادارے کے افسر نے بہترین چال چلتے ہوئے سابق صدر کو اقتدارسے چلتا کیا۔ اُس نے غالباً اپوزیشن کے رہنما رانیل وکرم سنگھے کی بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے میں مدد کی، ورنہ اس سے پہلے مسٹر سنگھے ہمیشہ ہارتے دکھائی دیے۔
چونکہ سری لنکا میں پول سروے کرنے والی کوئی قابل ِاعتماد تنظیم موجود نہیں، اس لیے زیادہ تر لوگ قیاس اور اندازوں سے کام لیتے ہیں۔ جب انتخابی مہم آگے بڑھی تو صاف دکھائی دیا کہ تشدد کے باوجود کھیل حکمران جماعت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ جب اپوزیشن جیت گئی، اگرچہ بہت کم مارجن کے ساتھ، تو پورے جزیرے میں جشن کا سماں بند ھ گیا۔ یہ بات واضح دکھائی دیتی تھی کہ مسلمان اور تامل ووٹروں نے راجا پاکسے کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دیتے ہوئے اُنہیں اپنے خلاف بنائی جانے والی پالیسوں کی سزا دی ہے۔ جب سابق صدر کے نجومی سے اُس کی پیش گوئی کے غلط ہونے اور صدر کی شکست کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے کہا کہ گزشتہ دو انتخابات کے موقع پر اُس کی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی تھی۔
راجا پاکسے کے زوال پر بعد میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات نے بھی مہر ِتصدیق ثبت کردی۔کامیاب ہونے والے صدر اور وزیر اعظم کے پاس پارلیمنٹ میں اطمینان بخش اکثریت موجود ہے۔ اُنہوں نے نئے آئین کی قراردادکے لیے رائے شماری کرائی ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ تامل باشندوں کو بھی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے گا تاکہ ملک میں مفاہمت کا عمل تقویت پا سکے۔ اس سے پہلے سری لنکا خانہ جنگی کے طویل عذاب سے گزرا ہے۔ یقیناً اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں اور نہ ہی مسائل کا مکمل خاتمہ ہوا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک میں مسائل کبھی ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے؛ تاہم کہنا پڑے گا کہ اگرگلاس کنارے تک نہیں بھرا تو بھی خالی نہیں ہے۔ پاکستان کے گفتار کے غازیوںکے پاس سری لنکا سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس کی جمہوریت طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ملک وہ ہے جس کی فوج نے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ جیتی تھی۔