''جگہ اور وقت کا فیصلہ ہم کریں گے کہ جس نے ہمیں پٹھان کوٹ کا درد دیا ہے، اسے کتنا اور کس قسم کا درد دینا ہے‘‘ بھارت کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے کھلے عام دنیا بھر کو اپنی اس تقریر سے با ضابطہ طور پر آگاہ کر دیا کہ وہ پاکستان میں ماردھاڑ کاایک اور سلسلہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اس لئے اپنی اپنی زبانیں بند رکھنا اور۔۔۔ پھر کوئٹہ میں پولیو ورکرز کے سینٹرپر بم دھماکہ میں پولیس کے پندرہ جوانوںکو شکار کر لیا گیا،ابھی کوئٹہ میں سڑک پر پڑی ہوئی پولیس اہلکاروں کی لاشیں اکٹھی کی جا رہی تھیں کہ جلال آباد میں پاکستان کے قونصل خانے پر حملہ کیا گیا اور شام کو اسلام آباد میں ایک میڈیا ہائوس پر دستی بم سے حملہ کرا یا گیا جس سے ایک کا رکن زخمی ہو گیا۔ اس سے ایک دن قبل پشاور ٹال پلازہ پر فوج کے ایک ٹرک کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن خوش قسمتی سے اس میں بیٹھے ہوئے گیارہ جوان محفوظ رہے۔پاکستان کی سرکار کے علا وہ دنیا بھر کی حکومتوں کے ریکارڈ میں نریندر مودی کا 2008 ء کا وہ انٹرویو ابھی تک محفوظ ہے جس میں وہ بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات کہتے ہیں کہ ممبئی میں جو کچھ ہوا ہے اگر آج میں بھارت کا وزیر اعظم ہوتا تو جواب میں وہی کچھ کرتا جو گجرات میںکر چکا ہوں۔ (گجرات میں گودھرا ٹرین واقعے کی آڑ میں دو ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور تین سو سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا )
بھارتی وزیر اعظم مودی کو اب کون بتائے کہ ہم تو آپ کے لگائے جانے والے زخموں کے درد سے اس قدرآشنا ہو چکے ہیں کہ لوگ ہمیں بزدلی کا طعنہ دینے لگے ہیں جس پر ہم انہیں بتاتے ہیں کہ بھائی
''بزدلی ہزار نعمت ہے ‘‘ جس دن پاکستان کے کسی بھی حصے میں آپ کی طرف سے دہشت گردی نہ ہو، ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کہیں آپ کی طبیعت ناساز نہ ہو گئی ہو ۔ آپ کی شجاعت، بہادری اور طرز عمل کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے ۔دیکھیں ناں پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملہ ہوتا ہے جس میں چھ حملہ آور اور سات بھارتی ہلاک ہوتے ہیں لیکن بھارت کا غصہ ان چھ حملہ آوروں کو مارنے سے ذرا بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کے نیتا اعلان کر دیتے ہیں کہ جس نے ہمیں درد دیا ہے اسے اس سے کئی گنا زیا دہ درد دیں گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آئو دیکھا نہ تائو بھارت سرکار کی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کو نشانوں پر لیتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔۔۔اور پاکستان کی سرکار ہاتھ جوڑے معافیاں مانگتی پھر رہی ہے کہ جناب ہمارا کیا قصور ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، یہ تو سمجھوتہ، مالیگائوں ، اجمیر شریف، پونا بیکری، مکہ مسجد حیدر آباد کی طرح آپ کے اپنے آدمی تھے آپ خواہ مخواہ ہمیں مار رہے ہیں ۔پٹھان کوٹ میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں ہمارا کسی قسم کا ہاتھ نہیں ہے۔پتہ نہیں ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی باتوں کا بھارت سرکار پر کچھ اثر ہو تا ہے یا نہیں کیونکہ ہم نے تو جس جس کا انہوں نے نام لیا ہے صرف انہیں ہی گرفتار نہیں کیا بلکہ ان کے دور دور کے رشتہ داروں کو پکڑ پکڑ کر باندھ دیا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ اور دفاع نے بھارت کو یاد دلاتے ہوئے کہا ہے
کہ جناب والا آپ تو خواہ مخواہ ہم سے بد گمان ہو کر ہمارے لوگوں کو مارے جا رہے ہیں۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم نے تو آپ کو ان سکھوں کی فہرستیں تک دے دی تھیں جن کے بارے میں آپ جانتے تک نہیں تھے کہ یہ خالصتان کی تحریک کے اہم ترین لوگ ہیں ہماری تابعداری اور آپ سے عاجزی اور پیار کی انتہا ملاحظہ کریں کہ یہ فہرستیں دینے کے بعد ہم ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے لیکن اس کے بدلے میں آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا۔آپ ہماری طرف دیکھیں کہ آپ نے ہمارے ہوائی اڈے کامرہ پر دو دفعہ حملے کرتے ہوئے ہمارے جہازوں کو کس قدر نقصان پہنچایا تھا۔ کیا ہماری جانب سے آپ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟۔ آپ نے مہران بیس کراچی پر حملہ کرایا، ہمارے وطن کی آنکھ اورین جہازوں کو نقصان پہنچا ‘ہمارے لوگ الگ سے مارے گئے ہم نے آپ کی جانب انگلی بھی اٹھائی اور پھر آپ نے کراچی شپ یارڈ پر حملہ کرایا ہم نے آپ کو کچھ کہا؟۔
آپ نے سولہ دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان میں ہمیں جو زخم لگایا اسے مزید گہرا کر نے کیلئے آپ نے اسی دن اسی تاریخ کو آرمی پبلک سکول پشاور میں ہمارے123 بچے بچیوں اور سٹاف کے چودہ افراد کو بے دردی سے قتل کرایا ۔ہم نے جواب میں کوئی حملہ کرایا؟ اس کے باوجود ہم آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہے۔ ہم اس آس اور امید میں نہ جانے کب سے بے چین ہیں کہ آپ آگے بڑھ کر ہمیں گلے سے لگا لیں حالانکہ ہمیں ڈر بھی لگتا ہے کہ ہمیں گلے سے لگاتے ہوئے آپ بغل میں چھپائی ہوئی چھری پار بھی کر سکتے ہیں لیکن آپ کی شفقت اور عنایت کی خاطر ہمیں یہ بھی قبول ہے بس آپ ہم سے نا راض نہ ہوا کریں اگر ہم سے کبھی بھولے بسرے کوئی چھوٹی موٹی خطا ہو جائے تو آپ کو حق ہے کہ ہمیں زور سے تھپڑ مار دیا کریں ہمارا سر پھاڑ دیں کوئی ٹانگ یا بازو توڑ دیں اگر زیا دہ غصہ آ جائے تو ہمارے پندرہ بیس لوگوں کو ٹھکانے لگا دیا کریں۔ہمارا ہاتھ ہمیشہ کی طرح کبھی بھی آپ کی طرف نہیں اٹھے گا۔آپ کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ جس جنرل نے آپ کے ساتھ کارگل میں شرارت کی تھی اسے ہم نے نشان عبرت بنا کر رکھ دیا ہے ۔اس سے زیا دہ ہماری آپ سے وفاداری کی کوئی حد ہو سکتی ہے؟۔آپ چپکے چپکے جو کہہ رہے ہیں کہ چین کی راہداری سے ہٹ جائیں تو انعام کرام سے اسی طرح نوازیں گے جیسے افغانستان کو نوازا ہے۔۔۔آپ کی اور جندال بھائی کی یہ بات ہمارے دل میں اتر گئی ہے ۔
ہم تو آپ کے اس قدر تابعدار ہیں کہ صرف دو دنوں میں کوئٹہ، جلال آباد، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں آپ کی جانب سے لگائے جانے والے زخموں کے با وجود سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کیلئے منتیں کئے جا رہے ہیں ۔آپ کو کیا پتہ کہ جب آپ کے سیکرٹری خارجہ اسلام آباد پہنچیں گے تو یہاں کی رونقیں دوبالا ہو جائیں گی؟۔اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ کے سیکرٹری خارجہ اگر اسلام آباد آئے تو ہم ان سے کوئٹہ، بڈ ابیر یا پشاور اور اسلام آباد میں کرائے گئے حملوں کے متعلق بات کریں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ دیکھئے گا کہ اس بارے ایک لفظ بھی زبان پر نہیں آئے گا بلکہ ہم تو آپ سے پٹھان کوٹ میں ہونے والی زیا دتی پر معافی مانگنے کیلئے بے چین ہیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ سے آئندہ درد دینے کی باتیں نہ کرنے یا درد نہ دینے کی درخواست کریں گے تو ایسا سوچئے بھی مت۔ آپ ہمارے دوست ہیں‘ ہمارے بڑے ہیں۔آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آپ کے وزیر اعظم نریندر مودی جی کی آپس میں کتنی بے تکلفی اور ووستی ہے ۔دونوں جب سجن جندال کی وساطت سے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیںتو پنجاب اور کشمیر کی سرحدوں پر کھینچی گئی'' لکیروں‘‘ پر آہنی باڑوں کی صورت میں لگایا گیا'' لوہا‘‘ تیزی سے پگھلنا شروع ہو جاتا ہے!