تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-01-2016

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

عجیب لوگ ہیں ہم‘ کانٹے بوتے ہیں اور پھولوں کی امید پالتے ہیں۔ ؎
قرض کی پیتے تھے مے‘ لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 
صدر اوباما کہتے ہیں کہ پاکستان‘ مشرق وسطیٰ اور افغانستان کئی عشروں تک عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔ سرتاج عزیز کا جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اپنی پالیسیوں اور اپنے عمل سے ہم یہ بات ثابت کر دیں گے۔ 
تصادم آدمی کا مقدر ہے۔ فرمایا: تم میں سے بعض‘ بعض کے دشمن ہوں گے۔ آدمی کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا۔ ''لنبلونکم‘‘ تاکہ ہم تمہیں آزمائیں ''تاکہ ہم تمہیں آزمائیں کہ حسنِ عمل کا مظاہرہ کون کرتا ہے‘‘ ''ہم تمہیں آزمائیں گے، خوف سے، بھوک سے، مال کی تباہی سے اور جانوں اور باغوں کی بربادی سے‘‘۔
تاریخِ انسانی میں سیدنا امام حسینؓ کو جو مرتبہ حاصل ہے، اس کا ایک سبب کیا ہے؟ درویش نے کہا: ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ ایک آدمی پر یہ سب امتحان ایک ہی وقت میں اتر آئیں۔ بھوک، پیاس، خوف، خطرے میں وہ خاندان‘ جیسا آسمان اور زمین نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ سفاک دشمن، بے آسرا بچّے، خواتین اور تاریخ کے افضل ترین آدمیوں میں سے ایک آدمی۔ امام ؓ کے خطبات پڑھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ یارب! ایسا جی دار بھی اس دھرتی نے دیکھا تھا۔ ایسے مستحکم اور ایسے مضبوط۔ بچّوں اور عورتوں کی فکر ہے مگر اس سے کہیں زیادہ اس نور کی جو بجھتا جا رہا ہے۔ ''روشنی ختم ہوئی، اب صرف تلچھٹ باقی ہے‘‘۔ یاد رہے تو سرکارؐ یاد رہے۔ یاد رہا تو اللہ یاد رہا۔ بے شک ابتلا میں شخصیت منکشف ہوتی ہے۔ ہم انہیں کیوں نہ روئیں کہ اللہ کے آخری رسولؐ کی اولاد تھے۔ ان کے پیام پر مگر کم ہی غور کرتے اور خو ترحمی پالتے ہیں۔ 
اقبالؔ نے کہا تھا: اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ اس علمی مجدد کے مرتبے میں کسے کلام ہے مگر چراغ اس کے بعد ٹمٹمانے لگا۔ جن قدسی نفوس کی سرکارؐ نے تربیت فرمائی تھی، ان کے طفیل، عالی مرتبت ؐ کے طفیل اور اللہ کی آخری کتاب کے طفیل ایک ہزار برس تک امّتِ مسلمہ کا غلبہ برقرار رہا۔ بالآخر چراغ بجھ گیا۔ اب فقط تلچھٹ ہے اور وہ بھی برائے نام۔ اوّلین پچاس برس کے بعد درحقیقت سیدنا امام حسنؓ کے بعد‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ تاریکی بڑھتی گئی۔ خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی اور اب تک برقرار ہے۔ جمہوریت کے نام پر بھی وہی بادشاہی ہے اور افتادگانِ خاک اسی طرح خاک بسر ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنے اوّلین خطبے میں اجاگر کیا تھا کہ: ریاست کا پہلا فرض مفلس و محتاج کی دستگیری ہے۔ مظلوم کی مدد، ظالم کا احتساب۔ 
ملکہ زبیدہ حج کرنے گئیں تو عازمین کو پیاسا پایا۔ دجلہ سے مدینہ منورہ تک نہر کھودنے کا حکم دیا۔ تکمیل ہو چکی تو معمار اخراجات کا گوشوارہ لے کر آئے۔ کہا: دجلہ کی لہروں کے حوالے کر دو۔ امیرالمومنین ہارون الرشید نے ایک دن ملکہ سے کہا: دل پر بوجھ بہت ہے۔ کہا: ایسا ہی ہوتا ہے، جب خزانہ لبریز اور خلقِ خدا بھوکی پیاسی ہو۔ 
سات برس ہوتے ہیں، حجاز میں ایک ممتاز عرب سے ملاقات ہوئی۔ کہا: شہروں کے رنگ و روپ پر نہ جائو۔ دیہات کا حال برا ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے بیس ہزار شہزادوں اور شہزادیوں کا بوجھ ریاست اٹھاتی ہے۔ دوسرے عرب ملکوں کا حال اس قدر ابتر 
نہیں مگر ابتر ہی۔ سرکارؐ نے سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ کے لیے خادم مہیا کرنے سے معذرت کر لی تھی ''میرے پاس تو اصحابِ صفہ کے لیے بھی کچھ نہیں‘‘ عمر ابنِ خطاب ؓ نے اپنا کرتا اتار کے بدّو کو دے دیا تھا۔ قحط کے ایام تھے اور خزانہ خالی تھا۔ صرف دہلی میں ہر روز بھوک سے مرنے والوں کی 25 لاشیں اٹھائی جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اہلِ خیر کے طفیل پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہسپتالوں میں ہر بیمار کو کھانا مفت ملتا ہے اور گاہے تیماردار کو بھی۔ ملک میں سینکڑوں رفاہی سکول اور ہسپتال ہیں لیکن سرکار؟ افسوس کہ اس کی کھال بہت موٹی ہو گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بارے میں میری رائے دوسروں سے مختلف ہے۔ مارشل لا کے اصل ذمہ دار بھٹو صاحب تھے، جنہوں نے حالات اس نہج پر پہنچائے۔ افغان جہاد کا اصل ذمہ دار سوویت یونین تھا‘ اور عالمی حالات۔ ذاتی زندگی میں جنرل ضیاء الحق ایک دیانت دار آدمی تھے۔ مفلس اور محتاج کی مدد کرتے۔ ان کی عزتِ نفس کا خیال بھی رکھتے مگر جو وارث وہ چھوڑ گئے؟ اندھوں کی سب 
ریوڑیاں اپنوںکے لیے ہیں۔ غربت بڑھتی جا رہی ہے اور شرحِ ناخواندگی بھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک طوفان ہے۔ ہمارے معاشرتی اشاریے ایتھوپیا کے برابر ہیں۔ نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی کم۔ قرآنِ کریم کی اوّلین آیت یہ کہتی ہے: یہ وہ کتاب ہے، جس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے ان پاک بازوں کے لیے جو غیب پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ خطابت کے جوہر دکھانے والے ہمیشہ یہ بات بھول جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کے تعارف میں یہ ہے: وہ ایثار کرتے ہیں، خواہ تنگ دست ہوں۔ حکو مت تو کچھ کر کے نہیں دے گی، اس وقت تک یہ بوجھ معاشرے کو اٹھانا چاہیے‘ جب تک وہ لوگ اقتدار میں نہیں آجاتے، جو ذاتی سیاسی ترجیحات کی بجائے ستائے ہوئوں کے لیے قومی خزانہ صرف کر سکیں۔ پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کے دور میں دس لاکھ ملازمتیں سالانہ پیدا ہوا کرتیں۔ اب اسحٰق ڈار ہیں اور ان کے گل رنگ وعدے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ یہ ہے کہ 90 لاکھ خاندانوں کے پاس اپنے گھر ہی نہیں۔ وہ کرائے کے تنگ و تاریک مکانوں یا جھونپڑوں میں بسر کرتے ہیں۔ مصنوعی گرانی سے پلاٹوں کی قیمتیں کم از کم تین گنا ہیں۔ 9000 جعل ساز ہائوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کبھی کسی کارروائی کا ارادہ تک نہیں کیا گیا۔ 2010ء میں میاں محمد شہباز شریف نے پچاس ہزار مکان تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ صرف ساڑھے تین سو بن سکے۔ وہ بھی پانچ لاکھ کی بجائے گیارہ لاکھ روپے میں۔ اب ایک ترک کمپنی سے دوبارہ معاہدہ کیا ہے۔ ؎
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین تین مریض پڑے ہیں۔ ہر ماہ فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کا ایک واقعہ اخبارات کی زینت بنتا ہے۔ سکول اجڑ گئے۔ تعلیمی ادارہ کیا ہوتا ہے؟ تربیت یافتہ استاد۔ شہباز شریف سمیت سب کی ترجیح دکھاوے کے منصوبے ہیں۔ بے روزگاروں کی فصلیں اگ رہی ہیں اور اس پر فرقہ پرست مولوی۔ وزرا یقین دلاتے ہیں اور علمائِ کرام بھی کہ مدارس میں امن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جی نہیں، فرقہ بازی اور انتہا پسندی کی۔ مجرم خواہ یونیورسٹیو ںسے پکڑے جائیں، ان کا کھرا مدارس تک پہنچتا ہے۔ کوڑھ پر خارش یہ کہ باہمی آویزش کے لیے ہمارے برادر مسلم ممالک نے پاکستان کی سرزمین کو چن لیا ہے۔ ضربِ عضب کامیاب ہے، کراچی اور بلوچستان کا آپریشن بھی۔ سوال یہ ہے کہ فقط آپریشن سے کیا ہو گا؟ اگر مدارس اور مساجد سے انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی رہے؟ پولیس اور عدالت کا حال سامنے ہے۔ بے روزگاروں کے لشکر اور انہیں گمراہ کرنے پر تلے ہوئے نیم خواندہ مولوی۔ ایسے میں ہم صدر اوباما پر یقین کریں یا جناب سرتاج عزیز پر؟ پولیس اور عدالت کو سنوارے بغیر، نظام انصاف کے بغیر، نفرت پھیلانے والوں کے مقابل پورے عزم سے جوابی نظریاتی یلغار کے بغیر دیرپا امن کا حصول کس طرح ممکن ہے؟ کس طرح حضور؟
عجیب لوگ ہیں ہم‘ کانٹے بوتے ہیں اور پھولوں کی امید پالتے ہیں۔ ؎
قرض کی پیتے تھے مے‘ لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved