تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-01-2016

بغیر عنوان کے

کاشف عرف کاشی میرے ملازم لڑکے کا نام ہے جو اویس نے گائوں سے بھیج رکھا ہے۔ میں نے باتوں باتوں میں اس سے پوچھا کہ تم کتنے بہن بھائی ہو تو وہ بولا‘بارہ ۔کیا کہا؟ میں نے تصدیق چاہی تو اس نے وضاحت بھی کر دی کہ ہم دس بھائی ہیں اور دو بہنیں۔ گویا پوری ٹیم ہو گئی‘ بارہویں کھلاڑی سمیت۔ گلی میں بچے کھیل رہے تھے‘ ایک نے دوسرے سے پوچھا‘ کتنے بہن بھائی ہو‘ تو وہ بولا‘ گیارہ ‘ پھر پوچھا کہ تمہارا باپ کیا کام کرتا ہے تو اس نے کہا کہ تمہیں بتایا تو ہے! سو‘ میں نے بھی کاشی سے پوچھا کہ تمہارا باپ اس کے علاوہ کیا کرتا ہے تو وہ بولا کہ ٹریکٹر ڈرائیور تھا لیکن ایک ایکسیڈنٹ میں اس کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی جس میں سریا ڈلوایا گیا اور اب کچھ ٹھیک ہے۔ میں نے سوچا‘ سریا تو ہمارے ہاں گردن میں ہوتا ہے‘ گھٹنے میں اس کا کیا کام۔ پھر پوچھا کہ موصوف اب بھی بچے پیدا کر رہے ہیں یا یہ کاروبار بند کر دیا ہے تو اس نے بتایا کہ بند ہے‘ حالانکہ یہ اس کا خیال ہی ہو سکتا ہے!
یہ بالعموم میرے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر باتھ روم میں اکیلا نہیں جاتا کہ زیادہ تر لوگ ہڈی وغیرہ تڑوانے کا کارنامہ اسی جگہ سرانجام دیتے ہیں کہ اس کا فرش بالعموم چکنا اور پھسلواں ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ شادمان والے گھر میں تو آفتاب نے باتھ روم کے فرش سے پلیٹیں اکھڑوا کر اسے کھردرا کروا دیا تھا‘ بلکہ اس کی سیٹ کوئی چار انچ اونچی کروا دی تھی تاکہ اٹھنے میں آسانی رہے۔ میرے پھوپھی زاد اور بہنوئی میاں احسن باتھ روم ہی میں گر کر کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھے تھے۔ سریا انہوں نے بھی ڈلوایا اور وہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہو گئے اور تھوڑا چل پھر بھی لیتے تھے لیکن زیادہ دیر زندہ نہ رہے۔ پختہ عمر میں جا کر ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑتی بھی کم کم ہی ہے اور بقول مصحفّی ؎
بھلا درستیٔ اعضائے پیر کیا ہووے
کہ جیسے رسّی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا
میں خود بچپن میں فٹ بال کھیلتے ہوئے بازو تڑوا چکا ہوں جبکہ اویس بھی اپنی ران کی ہڈی کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ہڈیاں کم بخت ٹوٹنے اور جڑنے ہی کے لیے ہوتی ہیں۔ تاہم ‘ یہ کام اوائل عمر ہی میں ہو جائے تو بہتر ہے کیونکہ بڑھاپے میں ہڈی ہمیشہ کے لیے ٹوٹتی ہے اور ہمیشہ سے مراد وہ مختصر وقفہ ہے جو اس کے بعد آپ زندہ رہ کر گزارتے ہیں بلکہ وہ آپ کو گزارتا ہے۔ پھر‘ ایسا لگتا ہے کہ ہڈی اکیلی نہیں ٹوٹتی بلکہ ساتھ پسلی کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ مثلاً ہڈی پسلی کا ایک ہو جانا حالانکہ پسلی خود بھی ہڈی ہی ہوتی ہے‘ کوئی الگ چیز نہیں ہوتی اور یہ سارا فساد ہمارے محاورہ سازوں کا پیدا کردہ ہے۔
اوپر کثرتِ اطفال کا ذکر ہوا ہے تاہم بچوں کے ہجوم کر جانے کے اسباب کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا جو چار پانچ بچے چھوڑ کر مری تھی۔ شخص مذکور ابھی جوان تھا ‘ سو اور شادی کر لی لیکن جس خاتون کے ساتھ شادی کی‘ اتفاق سے وہ بیوہ تھی اور اس کے اپنے بھی تین چار بچے تھے جو ماں کے ساتھ ہی آ گئے تھے حتیٰ کہ بعد میں اس عورت سے بھی تین چار بچے ہو گئے۔ ایک دن دونوں بیٹھے تھے کہ ساتھ والے کمرے سے چیخ پُکار کی آوازیں آنے لگیں۔ خاتون اُٹھ کر گئی اور واپس آ ئی تو میاں نے وجہ پوچھی تو بولی ''میرے اور آپ کے بچے مل کر ہمارے بچوں کو مار رہے تھے‘‘
چنانچہ دو تین بچوں کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے اور عورت کی صحت پر بھی کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا‘ اور اگر وہ خوبصورت ہو تو اس کی دلکشی بھی برقرار رہتی ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
آیا تھا گھر سے ایک جھلک دیکھنے تری
میں کھو کے رہ گیا ترے بچوں کے شور میں
یہاں تک پہنچا تھا کہ راولپنڈی سے احمد رضا راجہ نے اپنا ایک شعر بھیجا ہے‘ آپ بھی سنیے ؎
جُدا ہو کر بھی دونوں جی رہے ہیں
کوئی تو ایک مرنا چاہیے تھا
دن کے نو بجے ہیں اور باہر دُھند ہے‘ اپنے جھونپڑے میں بیٹھا جس کا نظارہ کر رہا ہوں۔ جھونپڑا اس لیے لکھا ہے کہ بعض حضرات کو (شاید بجا طور پر) اعتراض ہے کہ فارم ہائوس کا چرچا کیوں کیا کرتا ہوں حالانکہ اکیلا میں ہی نہیں‘ دُنیا میں لاتعداد لوگ فارم ہائوسز میں رہتے ہیں اور اگر وہ اس کا ذکر بھی کرتے ہیں تو شاید کسی کو برا بھی نہیں لگتا‘ میں بار بار اس لیے کرتا ہوں کہ بوجوہ میرا واسطہ ہی اس سے پڑتا ہے۔ یہاں کے پیٹر اور پرندے میرے ساتھی ہیں‘ ان میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو اس سے میں بھی متاثر ہوتا ہوں۔ شاعری ہو یا نثر‘ مجھے لکھنے میں مزہ آتا ہے ‘ زندگی میں مزے اب رہ بھی کتنے گئے ہیں‘ کیا آپ مجھے اس سے بھی محروم رکھنا چاہتے ہیں؟ اور ‘ جو تحریر آپ کو مزہ نہ دے اور پڑھنے پر مجبور نہ کرے‘ اس پر لعنت بھیج کر آگے بڑھ جائیے کہ اخبار میں اور بھی اتنے گل و گلزار کھلے ہوتے ہیں‘ آپ کے ذوق مطالعہ کی تشفی کہیں اور بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی بھی تحریر آپ بیگار کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جب تک کہ آپ کو کوئی خاص مجبوری لاحق نہ ہو۔ دعائیں مانگ مانگ کر بارش اور سردی تو آئی ہے لیکن واک معطل ہے کیونکہ ساتھ تیز یخ ہوا بھی ہوتی ہے‘ اور میں اپنی جان کا دُشمن ہرگز نہیں ہوں‘ یعنی یہ جتنی بھی باقی ہے۔ ایک شعر سنیے ؎
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سربسر باقی ہوں میں
پیش خدمت ہوں تُمہارے ‘ جس قدر باقی ہوں میں
پچھلے دنوں پھلوں اور سبزیوں سے متعلقہ کچھ اشعار پیش کیے تھے‘ کچھ مزید یاد آئے ہیں جو حاضر ہیں:
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے
بنھّاں اینوں کسی طراں ‘ بھنّاں اینوں کس طراں
ایڈا اوکھا قافیہ‘ ایڈا سخت اخروٹ
ستویں وار وتائوں پہلی وار کریلے
آئے پروہنے پنج چاہڑے چار کریلے
منگ کے آندا آٹا لیے ادھار کریلے
آل دوالے بھنڈیاں ادھ وچکار کریلے
چڑھی کُڑتّن ‘ سر نوں کھاندیاں سار کریلے
آج کا مقطع
مجھے خود کو غور سے دیکھنا ہے کبھی، ظفرؔ
جو میں اپنا آپ دھواں دھواں نہیں کر رہا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved