تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-01-2016

ڈرنا ہے تو چُوہے ڈریں!

تماشے تو اور بھی بہت ہیں جو ختم ہونے ہی پر نہیں آتے مگر ایک تماشا ایسا ہے کہ تحقیق پر بضد مہربانوں کی مہربانی سے نہ صرف یہ کہ ختم ہونے پر نہیں آتا بلکہ دن بہ دن زیادہ سے زیادہ پُررونق ہوتا جاتا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف لوگ اچھا بُرا سب کھاتے پیتے رہنے پر تُلے رہتے ہیں اور دوسری طرف تحقیق کی مدد سے ماہرین دماغ کھانے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ 
معاملہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو تحقیق کے نام پر اپنا پیٹ بھرنے والوں کے ہاتھوں پامال نہ ہوئی ہو۔ جب بھی کھانے پینے کی کسی چیز کے بارے میں تحقیق مکمل کرلی جاتی ہے تو نتائج یوں شائع کیے جاتے ہیں جیسے ہائی سکیورٹی الرٹ جاری کیا جارہا ہو! بیان یا خبر کا لہجہ وہی ہوتا ہے‘ جو امریکی محکمہ خارجہ کا اپنے شہریوں کو دیئے جانے والے مشورے اور ہدایت میں ہوتا ہے کہ فلاں ملک کے سفر سے گریز کیا جائے اور اگر وہاں جانا ہی پڑے تو غیر ضروری نقل و حرکت سے یکسر اجتناب برتا جائے! 
ماہرین کھانے پینے کی ہر چیز کے ممکنہ نقصانات سے اتنا ڈراتے ہیں کہ لوگ کچھ دیر تک تو طے ہی نہیں کر پاتے کہ کچھ کھائیں پئیں بھی یا محض ہوا خوری پر گزارا کریں! ماہرین ہر چیز سے ڈراتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو ہوا خوری کے نقصانات گِنوا کر لوگوں کو چہل قدمی یا جاگنگ سے بھی روک دیں یا متنفّر کر دیں! 
ویسے تو خیر کون سا موضوع ہے جو ماہرین کی دست بُرد سے بچ سکا ہے مگر فاسٹ فوڈ پر اِن کی خاص مہربانی ہے۔ یہ لوگ جس جارحانہ انداز سے فاسٹ فوڈ کے ہر آئٹم کے خلاف دادِ تحقیق دینے پر بضد رہتے ہیں اُس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اِنہیں شاید فاسٹ فوڈ والوں کی طرف سے مطلوبہ بھتہ نہیں دیا جاتا! فاسٹ فوڈ کے نقصانات گِنوانے کے معاملے میں ماہرین سپر فاسٹ واقع ہوئے ہیں! ہمیں یہ بات بہت حیرت انگیز محسوس ہوتی ہے۔ فاسٹ فوڈ کے نقصانات مجموعی طور پر اتنے زیادہ اور نمایاں ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی بھی انکشاف فرمانے کی کچھ خاص ضرورت کسی بھی ذی شعور کو کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ویسے بھی فاسٹ فوڈ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کے بارے میں تحقیق کا بازار گرم کرکے دماغ کی لَسّی بنائی جائے۔ فاسٹ فوڈ کھانے والے اس حوالے سے تحقیق یا انتباہ پڑھ کر منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ ذائقے کی خاطر ہی تو فاسٹ فوڈ پر جان و دل سے فِدا ہیں! فاسٹ فوڈ میں غذائیت برائے نام ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر مزا بھی جاتا رہا تو پھر بچا کیا؟ فاسٹ فوڈ بنانے اور بیچنے والوں کو بھی اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ خود ان سے متعلق اور ان کے بنائے ہوئے ہر آئٹم کے بارے میں بہ اندازِ تحقیق کیا کہا جارہا ہے۔ ماہرین دماغ چاٹتے رہتے ہیں اور فاسٹ فوڈ کھانے والے انگلیاں چاٹنے سے باز نہیں آتے! اور صاحب، جب ہمارے معاشرے میں ہر معاملہ ہی فاسٹ فارورڈ کے اصول کی بنیاد پر نمٹایا جا رہا ہے تو کھانے پینے کی اشیاء ہی کو کیوں مطعون کیا جائے! یہ بھی کیا کم ہے کہ کسی ایک معاملے میں لذت برقرار ہے؟ 
ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ کھانے پینے کی اشیاء میں چکنائی کی زائد مقدار جسم کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے؟ خون میں کولیسٹرول کا تناسب بڑھنے سے دورانِ خون کی رفتار متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں تمام اعضاء کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طبیعت کا بوجھل پن بڑھتا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ماہرین چکنائی کے نقصانات کا تذکرہ کرکے کھانے پینے کی اشیاء کا مزا کِرکِرا کرنے سے باز نہیں آتے۔ 
اب فرمایا جارہا ہے کہ زیادہ چکنائی والا پیزا یا برگر کھانے سے ذہنی دباؤ یا تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی تان انسانوں کی اشیائے خور و نوش سے شروع کرکے چوہوں پر توڑی گئی ہے یعنی چکنائی کے نقصانات چوہوں پر کیے جانے والے تجربات کی روشنی میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا ہے کہ چکنائی کی مقدار بڑھنے سے محض ذہنی تناؤ ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ رویّوں میں بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ماہرین کے مشاہدے کے مطابق زیادہ چکنائی والا پیزا یا برگر کھانے سے چوہوں کا ذہنی تناؤ بڑھا اور اس کے نتیجے میں وہ خاصے اداس دکھائی دیئے، اُن کے چہرے بجھے ہوئے تھے! ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ چکنائی والی چیزیں کھانے سے قویٰ اور حواس مضمحل ہوجاتے ہیں، چوہوں پر مایوسی چھا جاتی ہے! جس دن انٹ شنٹ تحقیق کے لیے فنڈنگ روک دی گئی اُس دن ہم طے کریں گے کہ اداسی کے عالم میں چوہوں کے چہرے زیادہ لٹکے ہوئے ہوتے ہیں یا ماہرین کے! 
ماہرین ویسے تو خیر خلق ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں حاصل ہونے والے نتیجے کو کسی دوسرے معاملے پر منطبق کریں مگر ان کا ایک ''طریقِ واردات‘‘ ہماری سمجھ میں اب تک نہیں آیا۔ یہ کہ طرح طرح کے تجربے وہ چوہوں پر کرتے ہیں اور ان تجربات کے نتائج سے ڈراتے انسانوں کو ہیں! ماہرین خود ہی نشاندہی فرمائیں دنیا کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ کسی چیز کو کھانے سے جو اثرات چوہوں کے جسم اور ''نفسیات‘‘ پر مرتب ہوتے ہیں وہی انسانوں کے معاملے میں بھی درست ثابت ہوں گے۔ ہم نے تحقیق کرنے والوں کے سِوا کوئی بھی ذی ہوش ایسا نہیں دیکھا جس نے انسانوں اور چوہوں کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کی ہو! حد یہ ہے کہ خواتین خانہ اپنے شوہروں کو خواہ کچھ سمجھتی ہوں، چوہے بہرحال نہیں سمجھتیں۔ اگر وہ اپنے شوہروں کو چوہے سمجھتیں تو اُن سے تھوڑی بہت تو خوفزدہ رہا کرتیں! ضمناً عرض ہے کہ خواتین چوہوں سے جس 
قدر ڈرتی ہیں اگر اس کے دسویں حصے کے برابر بھی شوہروں سے ڈریں تو پھر کوئی شوہر کوئی اور تمنّا نہ کرے! 
انٹ شنٹ موضوعات پر طبع آزمائی کرکے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کی کوشش کرنے والے ماہرین چوہوں کو تختۂ مشق بناکر خواہ کوئی راگ الاپتے رہیں، جو کھانے پینے کے شوقین ہیں وہ بھلا کہاں کچھ سُنتے اور مانتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو زیب نہیں دیتا کہ چوہوں پر کیے جانے والے تجربات کی روشنی میں کھانے پینے کی کسی چیز کا دروازہ اپنے منہ پر بند کرلے! یہ تو چوہوں کا پروفائل خواہ مخواہ اپ گریڈ کرنے والی بات ہوئی! اگر زیادہ چکنائی والی چیزیں کھانے سے ڈرنا ہے تو چوہے ڈریں، ہم کیوں خوفزدہ ہوکر چوہوں کو فخر سے سَر بلند کرنے کا موقع فراہم کریں! 
دنیا بھر کے ماہرین انفرادی یا اجتماعی سطح پر خواہ کچھ کرلیں، فاسٹ فوڈ کو اللہ نے ''عزّت‘‘ دی ہے، اُس کا پرچم دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہمیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے نامعلوم زمانوں تک ''فاسٹ فوڈ دے نعرے وجن گے!‘‘ ع 
''کھانے‘‘ والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی! 
ماہرین اپنا مشاہدہ اپنے پاس رکھیں، ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ فاسٹ فوڈ کے شوقین اپنا یہ شوق پورا کرنے کے معاملے میں خالص فوجی انداز اختیار کرتے ہیں۔ اپنے دل کو افسر کا درجہ دیتے ہوئے وہ صرف اُسی کی بات مانتے ہیں۔ اور جب وہ کچھ کھانے پینے کی ٹھان لیتے ہیں تو پوری طرح تیار ہوکر محاذ پر آتے ہیں اور دشمن سے پہنچنے والے ممکنہ نقصان کی پروا کیے بغیر جو کرنا ہو وہ دھڑلّے سے کر گزرتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved