تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     17-01-2016

عالی گئے اداس……

جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملی نغمہ ہے جسے پانچ سال کے بچوں سے لے کر 75سال کے بابے بھی ایک ہی ردھم سے گا سکتے ہیں۔ اس نغمے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ ہے۔ ظاہر ہے، قومی ترانہ لکھنے کا اعزاز حفیظ جالندھری کو حاصل ہوا اور کیا کمال لکھا۔ جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر کہا گیا۔ اس نغمے کے خالق جمیل الدین عالی اسی ماہ جنوری کی20تاریخ کو 1925 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔23نومبر 2015ء کو نوے برس کی عمر گزار کر اگلے جہان کو سدھارے۔ یوں نقار خانے میں عالی کی صدا کئی دہائیوں تک گونجتی رہی اور نہ صرف یہ کہ گونجتی رہی بلکہ سماعتوں میںاترتی اور دلوں میں جگہ بناتی رہی۔ ہم میں کون ایسا ہو گا جس نے جیوے جیوے پاکستان نہ گنگنایا ہو(بھلے زیر لب ہی) اور کون ایسا ہو گا جس نے دلگداز ملی ترانے ''اے وطن کے سجیلے جوانو!‘‘سنتے ہوئے اپنی آنکھوں کی نمی انگلیوں کی پوروں سے جذب نہ کی ہو۔ عالی صاحب نے جو بھی دھرتی ماں کے لیے لکھا وہ لازوال ہو گیا۔ الن فقیر کے مخصوص انداز میں گایا گیا ملی نغمہ بھی جمیل الدین عالی ہی کے قلم کی تخلیق ہے۔ کیا پیارے بول ہیں: ''اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا۔ ہو اللہ‘‘۔ اور پھر نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں ایک اور ملی نغمہ بھی عالی جی نے لکھا۔''میرا پیغام پاکستان۔ محبت امن ہے اور امن کا انعام پاکستان‘‘۔ عالی جی نے اپنی حیثیت میں اس ملک کو، پاکستانیوں کو بہت کچھ دیا۔ میری خواہش تھی کہ میں ضرور ان پر کچھ لکھتی۔ان کی وفات پر کالم نہ لکھ سکی تو سوچا20جنوری آنے والی ہے تو اسی حوالے سے عالی جی کو یاد کیا جائے۔ ایسے لوگ نایاب اور کم کم ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات بہت ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں اردو کے نفاذ کا بیڑا اٹھائے رکھا۔
جمیل الدین عالی، جنہیں محبت اور احترام سے عالی جی کہا جاتا تھا‘ صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پورے عہد میں عالی جی کی شخصیت کے ان گنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں، اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ملی نغمے لکھے تو لازوال ‘ مصرعے ایسے کہ زبان زدعام ہو گئے۔! اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کی وفات کے بعد 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کے لیے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انگریزی زبان کی کشش اور یلغار کے سامنے اردو کی اہمیت اور ضرورت کو قائم رکھنا‘ اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کی نئی اصطلاحیں رائج کرنا‘ اور اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کوئی آسان ٹاسک نہ تھا، مگر جمیل الدین عالی نے شب و روز ایک کر کے اردو زبان کی ترقی کے لیے کام کیا اور انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج اگر عدالتی حکم نامے 
کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو مل چکا ہے تو اس کے پیچھے عالی جی جیسے دیوانوں کی اردو زبان سے محبت اور محنت شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں اردو زبان کو رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے رکھا۔ ایسا ہی ایک اور قابل قدر کارنامہ عالی جی نے یہ سرانجام دیا کہ اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے تو اسے وفاقی اردو یونیورسٹی تک پہنچایا یعنی 'جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘ کے مصداق عالی جی نے جو بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی،اسے احسن طریقے سے نبھایا اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنا دیا۔
ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ روزنامہ جنگ میں پچاس برس تک اپنا کالم ''نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ ایک ہی کالم میں کئی موضوعات پر یوں لکھتے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں کر رہے ہوں۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔1967ء سے 2010ء تک بغیر کسی وقفے کے اخبار کے لیے کالم لکھنا بھی ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف عالی جی ہی کے حصے میں آیا!
جمیل الدین عالی کا ذکر ہو اور دوہے کی بات نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ اردو میں جدید دوہے کے بانی بھی ہمارے عالی جی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالی جی کو ہر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑنے کا کچھ ایسا چسکا تھا کہ انہوں نے اردو شاعری میں بھی وہ صنف چنی جو شعراء کی نظر میں کم کم تھی اور یوں پارٹیشن کے بعد‘ پاکستان میں دوہے کی روایت کے بانی عالی جی ہی بنے اور آج بھی جمیل الدین عالی اور اردو دوہے کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ شاعروں میں جمیل الدین عالی اپنے مخصوص انداز میں ترنم سے دوہے گاتے تو سامعین بھی وجد میں آ جاتے۔
عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ عالی جی کی زندگی کا ایک مختصر سا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے پر انہوں نے حقیقت پسندانہ فیصلے کیے اور یوں معاشی طور پر بھی نہایت آسودہ حال زندگی گزاری ۔ وہ نواب امیر الدین احمد خان آف لوہارو کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام جمیلہ بیگم تھا جو نواب آف لوہارو کی چوتھی بیوی تھیں۔ معاشی خوشحالی کا یہ دور اس وقت اختتام پذیر ہوتا ہے جب عالی جی کے والد نواب امیر الدین وفات پا جاتے ہیں اور عالی کی عمر صرف 10‘گیارہ برس ہوتی ہے۔ پھر مسائل کا ایک دور شروع ہوتا ہے اور زندگی سرکار برطانیہ کے وظیفے پر بسر ہونے لگتی ہے۔ اینگلو عر بک کالج دہلی سے جمیل الدین گریجوایشن کرتے ہیں۔ معاشیات اور فارسی کے مضامین میں بی اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ اسی برس طیبہ بانو سے نکاح ہوتا ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان کو ہجرت کرتے ہیں تو ان کے ہمراہ ان کی سب سے پہلی صاحبزادی بھی ہوتی ہیں۔
نئی مملکت‘ معاشی حالات ابتر مگر جواں ہمت جمیل الدین 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان دینے کا ارادہ کرتے ہیں۔ امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس کے محکمے میں افسر ہو گئے۔ سفر یہاں رکا نہیں۔1972ء میں ایل ایل بی بھی کر لیا۔ پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف موڑ مڑتے رہے۔ وفاقی وزارت فنانس میں نامور معاشیات دان ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ کام کیا۔ ایک وقت میں سابق صدر غلام اسحق خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ نیشنل بنک جوائن کیا تو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ رائٹرز گلڈ کا ادارہ قائم کیا۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے تین برس تک چیئرمین رہے۔ کئی کتابیں لکھیں، اور اپنی عمر کے آخری برسوں میں انسان کے نام سے ایک طویل نظم کہی جو 10ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے میں کلاسیک یونانی تکنیک کو استعمال کیا۔ پوری نظم مختلف کرداروں مکالموں کے ساتھ سجی ہے۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں عالی جی نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی نہ جانے کیوں عالی جی نے کسی اداس لمحے میں یہ شعر کہا ؎
جیون آنچ نے کیا، بخشا اک سچے سُر کی آس
وہ سچا سُر لگا نہیں اور عالی گئے اداس

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved