پاکستان میں ہیروئن، کلاشنکوف اور مذہبی منافرت امپورٹ کرنے والے ڈکٹیٹر نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی۔اس جمہوری نرسری پرپابندی کی تین وجوہ تھیں۔ایک یہ کہ 1977ء اور78ء میںمارشل لاء کے باوجود طلبہ الیکشن ہوتے رہے۔دوسری جانب ،ڈکٹیٹر شپ قوم کے ساتھ الیکشن کے وعدے سے بھاگ رہی تھی۔پابندی کی دوسری وجہ زیادہ اہم تھی۔ طلبہ یونین کے ذریعے ہر سال قومی سیاست میں نچلے طبقات کا خون شامل ہو رہاتھا۔اور تیسرے مختلف گڈّی لٹ گروپوں پر مبنی''شورہ‘‘ کے نام پر پارلیمنٹ کا ڈرامہ رچانا مقصود تھا۔اس دور میں راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر محترم سعید مہدی تھے۔جب طلبہ لیڈروں کی بے رحمانہ گرفتاریوں کا مرحلہ آیا تو سعید مہدی کی پِدرانہ شفقت کو سلایا نہ جا سکا۔سعید مہدی پرنسپل سیکرٹری کے عہدے تک بھی پہنچے،مگر نجانے کیوں اتنی بڑی صلاحیت کے مالک اور راج نیتی کے دستیاب،چند بہترین ماہرین میں سے ایک کی اہلیت کا خزانہ سرکار نے'' بنک لاکر‘‘ میں ڈال دیا۔
بات ہو رہی تھی طالب علم یونین کی۔ضیاء آمریت سے پہلے سیاست واضح طور پر نظریاتی بنیادوں پر استوار تھی۔اسٹیبلشمینٹ کے حامی دائیں بازو کے نیچے اور عوام دوست بائیں بازو میں تھے۔یہی تقسیم استحصالی بمقابلہ زیردست طبقات کی شکل میں ہمیشہ سے موجود رہی۔ زبردستی کا نام اور شکل تبدیل ہوتی رہی، لیکن تاریخ کا سب سے بڑا جبر یہی ہے کہ کبھی ظالم اور مظلوم،جابر اور مجبور،حاکم اور محکوم،زیر دست اور زبردست،آجراوراجیر ،ٹائیکون اور مزدور،سرمایہ دار اور کارکن ،ہاری اور وڈیرے ۔ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، یہ صدیوں سے دو علیحدہ علیحدہ برادریاں ہیں۔
طلبہ یونینز قومی امور کی تربیت کی ایسی اولین درسگاہ ہے جس کا آغاز مادرِ علمی سے ہوا۔ ایک بات واضح رہے کہ سٹوڈنٹ یونینز ہر سال انتخاب کے ذریعے اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے لیڈر چنتی تھی۔اس کے لیے ووٹر لسٹ،اہلیت،کاغذات نامزدگی،ووٹنگ ،کنویسنگ ،امریکی صدارتی امیدواروں کی طرح ''پروجیکشن ڈی بیٹ‘‘ کے بعد صاف پولنگ کا دستور تھا۔ یہی عمل پاکستان کی ہر بار ایسوسی ایشن میں دہرایا جاتا ہے۔
طلبہ تنظیمیں بالکل دوسری چیز ہے۔ ان کے پیچھے سیاستدانوں کے ہاتھ اور ان کے سر پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے بھی علیحدہ چیز ۔جو سیاسی جماعتیں بظاہر قومی منظرنامہ میں ناکام ہوئیں انہوں نے کئی مزدور وِنگ ، ٹیچر وِنگ، خواتین وِنگ بنائے ۔ان پر کبھی پابندی نہیں لگی،لیکن طلبہ یونین پر پابندی لگ گئی۔اس کھلے تضاد کا مطلب ہوا لسانی، سیاسی، فرقہ وارانہ، معدوم، مذہبی گروہوں کو تعلیمی اداروں میں اپنے سیل بنانے اور پالنے کی مکمل آزادی۔ان سب کے ساتھ1فیصد طلبہ متحرک ہوتے ہیں۔لیکن دوسری جانب 99فیصد طالب علموں کی اکثریت کو یہ کہہ کر جمہوری عمل سے باہر کر دیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں سیاست کی اجازت نہیں ۔کون نہیں جانتا ، دورِ آمریت میں پورے ملک کی مخصوص طلبہ تنظیمیں اپنے وزیروں کے ساتھ مل کر ضیاء آمریت کو مضبوط کرنے کا ''دستی ہتھوڑا‘‘بن گئیں۔
یہ کام کراچی سے خیبر تک اور کوئٹہ سے لاہور تک کھلے عام ہوا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے،لیکن نتیجہ دیکھنے کے لیے حالات کا تقابلی جائزہ ضروری ہو گا۔موجودہ سیاست میں دو طرح کے لوگ سر گرم ہیں۔ایک وہ جو طلبہ سیاست سے ابھر کر آگے آئے۔دوسرے کرپٹ تاجر،لینڈ مافیا ،منی لانڈرنگ اور قرضہ خور ی کے بادشاہ اور ان کی اولادیں۔طلبہ یونین سے سیاست میں آنے والوں کے نام لیں تو رضا ربانی،افراء سیاب خٹک،پشاور یونیورسٹی کے فضل الرحمن جو خیر سے اب مولانا ہیں۔شیخ رشید احمد،پرویز رشید ،جاوید ہاشمی ،لیاقت بلوچ ،شفیع نقی جامع(حالیہ بی بی سی)،فرخ سہیل گوئندی،جہانگیر بدر ،سعد رفیق اور مجھ سمیت لو ئراور مِڈل کلاس کے سینکڑوں طلبہ سٹوڈنٹ پالیٹکس سے ہی قومی منظر نامے تک پہنچے۔
ذرا پیچھے جائیں۔طالب علمی سے سیاست میں آنے والے یہ دو نام پاکستان کا عالمی چہرہ ہیں۔پہلا قیامِ پاکستان سے پہلے ڈاکٹر اقبالؒ۔ان کے زمانۂ طالب علمی میں ہندوستان مغرب کا غلام تھا۔ساری سیاست مغرب میں ہوتی تھی۔وہیں سے اقبالؒ نے سیاست کا آغاز کیا۔دوسرا نام ہے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا ۔جو بیرونِ ملک تعلیم کے دوران سٹوڈنٹ یونین کاالیکشن لڑ کر پہلی دفعہ طلبہ کے ووٹوں سے منتخب ہوئیں۔پھر عالمِ اسلام کی اولین خاتون وزیراعظم۔
ایشیاء میں طلبہ یونین کی تاریخ برٹش انڈیا سے شروع ہوئی ۔ تاجِ برطانیہ نے نو آبادیاتی کالونی میں یونیورسٹیو ںکی بنیاد رکھی تو ساتھ ہی محدود آزادی دے کر طلبہ یونین بنانے کی اجازت دے دی ۔ سرسید احمد خان کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںبھی طلبہ یونین موجود تھی۔ متحدہ ہندوستان میں کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی نے طلبہ یونینز کو پروموٹ کیا۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی اور ڈھاکہ طلبہ تحریکوں کے بڑے مراکز بن کر ابھرے۔ جنوری1953ء میں ڈیموکریٹ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور اس کی حامی طلبہ یونینوں نے کالجوں یونیورسٹیوں کے قیام ،فیسوں اور بسوں کے کرایوں میں رعایت کے لیے تحریک چلائی۔دوسری بڑی مہم انٹر کالجیٹ یونین باڈی نے1963ء میں چلائی ۔ مقصد 3سالہ ڈگری کورس کا خاتمہ تھا۔ سب سے بڑی تحریک این ایس ایف اور دیگر منتخب طلبہ یونینوں نے ایوب آمریت کے خلاف 1968ء میں شروع کی۔ عظیم قربانیاں دے کر سٹوڈنٹس نے اسے 10سالہ آمریت کے خاتمے کی مہم بنا کر چھوڑا۔
طلبہ تحریک کا اگلا دور شہید قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا۔جب وہ ایک آدمی ،ایک ووٹ کے اصول کے تحت پاکستان کے پہلے براہ راست منتخب وزیراعظم بنے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے 1972ء میں عوام کے لیے بنیادی تعلیمی اصلاحات کا پیکج نافذ کیا۔ نیا یونیورسٹی آرڈیننس بنایا۔یوں طلبہ کو اپنے ادارے میں صدر، سیکرٹری اور کالج کابینہ منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔
یہاں ایک اہم واقعہ منظر عام پر لانا ضروری ہے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو حکومت ملی ۔تب آصف زرداری کے ساتھ ایک مختصر میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ پارٹی کا وزیراعظم افتتاحی پارلیمانی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کرے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔لیکن خوف کا استرا ہاتھ میں پکڑے ایک مشیر نے، جسے کبھی کسی ریگولر کالج میں طاب علمی یا نمائندگی کا اعزاز نہیں ملا اسے بطور ٹیکنالوجی استعمال کیا۔اور طلبہ یونین کی بحالی کو حکومت کی ''موت کا منظر‘‘ بنا ڈالا۔
سالوں بعد سینٹ کی متفقہ قرارداد نے طلبہ یونین کی بحالی کو پھر اجاگر کیا ہے۔بلاول بھٹو نے بروقت اقدام کیا۔سندھ اور آزاد کشمیر حکومتوں کو یونین کی بحالی کا ٹاسک دیا،بلکہ نوجوانوں تک رسائی اور پذیرائی کا موقع بھی۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے کم عمر ترین سربراہ کے اس حکم پر آزاد حکومت فرّاٹے بھرتی ہے ،سائیں سرکار خرّاٹے مارتی ہے یادونوں قومی قیادت کی نرسری کا دروازہ کھولنے کے لیے زور دار دھّکا لگاتے ہیں۔
کالم لکھنے کے بعد شام سوا سات بجے بلاول بھٹو سے ملاقات ہے ۔میں اپنا وزن طلبہ یونینوں کی بحالی کے حق میں ڈالوں گا:
گولیوں سے یہ جواں آگ ،نہ بجھ پائے گی
گیس پھینکو گے تو کچھ اور بھی لہرا ئے گی
کب تلک اس سے بچاؤ گے تم اپنے داماں؟
یہ جواںآگ جلا دے گی تمہارے ایواں
یہ جواں خون سیاہ رات نہ رہنے د ے گا
دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات نہ رہنے دے گا
یہ جواں خون ہے محلوں پہ لپکتا طوفاں
اس کی یلغار سے، ہر اہلِ ستم ہے لرزاں
یہ جواں فکر تمہیں خون نہ پینے دے گی
غاصبو ! اب نہ تمہیں چین سے جینے دے گی