تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     18-01-2016

مسلمان اور یورپ کا آزاد معاشرہ

نیو ایئرنائٹ پر جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون (Cologne) میں ہونے والے جنسی حملوں پر مغربی میڈیا میں بدستور بحث جاری ہے۔ ان واقعات کی اب تک سیکڑوں شکایات درج کرائی جا چکی ہیں جبکہ کئی گرفتاریاں بھی عمل آئی ہیں۔ ایک پولیس رپورٹ کے مطابق اب تک یہ بات کم وبیش واضح ہوچکی ہے کہ ان حملوں میں شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارکین ِوطن ملوث تھے۔ 
ابتدائی طور پر پولیس نے پورے واقعے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ ان سے مہاجرین کے خلاف سخت رد ِعمل آئے گا، لیکن جب ان حملوں کے پھیلائو کی خبریں ملنا شروع ہوئیں تو تحقیقات کی گئی اور پولیس چیف کو معطل کر دیا گیا۔ جرمن چانسلر انجلا مرکل کو بھی پناہ گزینوں خاص طور پر شام سے آنے والوں کے لیے دروازے کھولنے کی پالیسی کا جواز پیش کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال جرمنی نے گیارہ لاکھ غیر ملکی تارکین ِوطن کو جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی، ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ ایسا کرنے پر مس مرکل کی انسان دوستی کو بہت سراہا گیا، اگرچہ دائیں بازو کے کچھ عناصر کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔
بدقسمتی سے، اب ان افسوس ناک واقعات کی وجہ سے مس مرکل کے سیاسی مخالفین کو تارکینِ وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے دبائو ڈالنے کا جواز مل جائے گا۔ درحقیقت ان وحشیانہ واقعات کے بعد یورپی یونین کے ارکان، جیسے ہنگری کی تارکین ِوطن کے حوالے سے جرمن پالیسی پر تنقید میں مزید شدت آئی ہے۔ اس دوران دوسرے جرمن شہروں سے بھی اس نوعیت کے حملوں کی مزید خبریں آ رہی ہیں۔ سویڈن کو بھی جس نے ماضی میں اپنے دروازے پناہ گزینوں کے لیے کھولے تھے، اسی قسم کی صورت ِحال کا سامنا ہے۔ یہاں بھی کچھ افغان نوجوانوں کے جنسی حملوں کو پولیس نے دبانے کی کوشش کی تھی، لیکن اب یہ سکینڈل منظر ِعام پر آرہا ہے۔ ان کا شکار گیارہ سال تک کی کمسن لڑکیاں تھیں۔ ان واقعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں تارکین ِوطن کو پناہ دینے کی مخالفت کرنے والا دائیں بازو کا طبقہ توانا ہوتا جا رہا ہے۔ 
اپنی حکومت کو پہنچنے والے سیاسی نقصان کی شدت کم کرنے کے لیے انجلا مرکل نے اعلان کیا ہے کہ کریمنل کوڈ میں ترمیم کرتے ہوئے ایسے تمام پناہ گزینوں کو ڈی پورٹ کرنا ممکن بنایا جائے گا جو قانون شکنی کا ارتکاب کریںگے۔ موجودہ کریمنل کوڈ کے مطابق جرمن حکام صرف اُن مجرموں کو ڈی پورٹ کرسکتے ہیں جنہیں عدالت سے تین سال سے زائد قید کی سزا سنائی جائے۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کہ برطانیہ میں دائیں بازو کا میڈیا ان واقعات کو بنیاد بنا کر اسلامی دنیا سے آنے والے پناہ کے طالب تارکین ِوطن کے بارے میں مزید سخت رویہ اپنائے گا۔ لہٰذا اگر کولو ن حملوں کا ارتکاب کرنے والے تمام افراد گرفتار ہوجائیں، اُنہیں عدالت سے سزا مل جائے اور اُنہیں ڈی پورٹ کردیا جائے تو بھی یورپی ممالک میں پناہ لینے کی آس لگانے والے دیگر مسلمانوں کو اب سخت مشکل کا سامناکرنا پڑے گا کیونکہ ان سے پہلے جرمنی آنے والے مسلمان بھائی اُن کے راستے میں کانٹے بچھا چکے ہیں۔ برطانیہ میں بھی مسلمان نوجوان کمسن سفید فام لڑکیوں کی آبرو ریزی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ روتھرہام (Rotherham) میں مسلمان نوجوانوں کا ایک گینگ (جس میں زیادہ تر پاکستانی نژاد لڑکے شامل تھے)کئی برسوں تک کمسن سفید فام لڑکیوں کو بڑے منظم طریقے سے جنسی زیادتی کا شکار بناتا پایا گیا۔ 
ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان نوجوان جنسی حملوں میں کیوں ملوث پائے جاتے ہیں؟ یہاں لگے ہاتھوں بتاتا چلوںکہ ایسے جرائم پر صرف مسلمان نوجوانوں کی ہی ''اجارہ داری‘‘ نہیں، یقیناً دوسرے مذاہب کے افراد بھی فرشتے نہیں، لیکن اگر تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا تاثر ضرور ملتا ہے 
جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں مسلمان نوجوانوں کی تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کے اپنے انتہائی دقیانوسی معاشرے ہیں جہاں وہ شادی کے علاوہ جنسی جذبات کی تسکین کے مواقع نہیں پاتے۔ جب وہ مغربی معاشروں میں سفید فام جوڑوں کو بلاروک ٹوک دوستی میں شریک پاتے ہیں تو اُن کی ژولیدی فکری اور بیمار ذہنیت انہیں کم عمر لڑکیوں کا شکار کرنے پر اکساتی ہے۔ جرمنی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بارے ایسا لگتا ہے کہ مسلمان پناہ گزینوں نے نئے سال کی تقریبات کے موقع پر بڑی منصوبہ بندی سے حملے کیے۔ اُس وقت نوجوان لڑکیاں بہت بڑی تعداد میں آتش بازی دیکھنے یا اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹیوں میں شرکت کے لیے گھروں سے باہر تھیں۔ بہت سے حملہ آور جنسی اشتعال اور حملے کے عربی الفاظ کے جرمنی مترادفات بولتے سنے گئے۔ چنانچہ ان حملوں کو غیر ارادی جذباتی اشتعال کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ 
مسلمانوں کے یورپی اور امریکی باشندوں کے ساتھ تنائو کی ایک بڑی وجہ ان کا عورتوں کے ساتھ نازیبا اور متشددانہ رویہ ہے۔ مسلمان اپنی عورتوں کو مکمل لباس اور برقع میں عوامی مقامات پر بھیجنا گوارا کرتے ہیں جبکہ مغربی معاشروںمیں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ یاد رہے کہ یورپی معاشرہ ہمیشہ سے ہی ایسا نہ تھا، وہاں عورتوں نے عشروں کی جدوجہد کے بعد حقوق اور آزادی حاصل کی ہے۔ اب عورتیں اپنی مرضی کا لباس پہننے اور کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اُنہیں اپنے جسم و جان پر مکمل اختیار حاصل ہے، وہ اپنی پسند کی شادی کرنے یا شادی کے بغیر کسی سے دوستی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ تاہم یہ آزادی مسلمانوں کے لیے، خاص طور پر اُن کے لیے جو حال ہی میں یورپ آئے ہیں، ایک اجنبی چیز ہے۔ وہ سمجھتے ہیںکہ جسمانی خوبصورتی کا اظہار اور لبوں پر میٹھی مسکراہٹ مخصوص تعلقات کی کھلی دعوت ہے۔ مغرب کی ثقافتی اقدار سے اُنہیں وہ فحش فلمیں بھی بے خبر رکھتی ہیں جو تمام اسلامی دنیا میں بہت شوق اور رغبت سے دیکھی جاتی ہیں۔ یہاں عملی طور پر ایسا نہیں کی یہ پرکشش ماڈلز کسی بھی راہ گزرتے نوجوان کے ساتھ ہم آغوش ہوجائیں، لیکن ایسی فحش فلمیں دیکھنے والے بیمار ذہنیت کے حامل مسلمان نوجوان یہی سمجھتے ہیں کہ اُن فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ دراصل مغربی عورت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ پرلے درجے کی لاعلمی ہے۔
چند سال قبل آسٹریلیا میں ایک کیس سامنے آیا جس میں کچھ عرب تارکین ِوطن نے ساحل پر پیراکی کے مختصر لباس پہن کر سوئمنگ کرنے والی نوجوان لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ جب وہ گرفتار ہوئے تو ایک عالم ِدین نے یہ کہہ کر اُن کا دفاع کیا کہ ''آپ ایک بھوکی بلی کے سامنے گوشت ڈال کر کیا توقع کریں گے؟‘‘ یقیناً ہمارے آسٹریلوی دوست میڈیا میں اس بیان کو سن کر بہت خوش نہیں ہوئے ہوںگے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مغرب میں زیادہ ترنسائیت کی چمپئن (feminists) بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ تارکین ِوطن کو پناہ دینے کے حق میں ہیں۔ تاہم کولون میں پیش آنے والے واقعات کے بعد اُنہیں اپنے لباس اور حرکات و سکنات کی آزادی خطرے میں محسوس ہوئی؛ چنانچہ ان میں سے بہت سی نمائندہ خواتین نے جرمنی میں تارکین ِوطن کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی۔ اس طرح مسلمان تارکین ِوطن کی اکثریت کو چند سو بگڑے ہوئے نوجوانوں کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے مسلمانوں نے عوامی سطح پر معذرت بھی کی ۔ دوسری طرف باشعور جرمن بھی جانتے ہیں کہ چند افراد کی حرکتوں پر لاکھوں افراد کو مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لیکن جس طرح دہشت گردی نے اسلام کا نام بدنام کیا، اسی طرح کولون حملوں نے مسلمان تارکین ِوطن کو نقصان پہنچایاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved