تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-01-2016

اقتصادی راہداری: رحمت یا زحمت؟

اقتصادی راہ داری کا منصوبہ پاکستان کے لیے رحمت کا باعث ہے یا زحمت کا؟ یہ گیم چینجر تو ہے لیکن کس عنوان سے؟
رات گئے پاکستان سے محبت رکھنے والے،کے پی کے ایک دانش ور کا ایس ایم ایس ملا۔ اس پیغام نے میری نیند اڑا دی۔ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ اقتصادی راہداری پر مرکزی حکومت کے رویے پر لکھاتھا: ''ان اقدامات نے فیڈریشن پر ہمارے ایمان کو پوری طرح ختم کر دیا ہے۔ ہمارے پاس اب جینے کے تین راستے ہیں: ما ل مویشی کی طرح رہنا سیکھیں، طاقت اور دھوکے سے اپنے حقوق چھینیں یا پھر خاموشی سے یہ ملک چھوڑ جائیں۔ میں (کے پی کی) نئی نسل کے بہت سے نمائندوں سے ملا۔ وہ پنجاب مرکزیت پر مبنی جمہوریت کے اس ماڈل پر اپنا اعتبار مکمل طور پر کھو چکے جو اہم معاملات کو کبھی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے لانے پر آ مادہ نہیں‘‘۔ دو دن پہلے بلوچستان سے آصف بلوچ ملنے آئے۔ وہ بھی اس منصوبے سے خوش نہیں تھے۔ اب سرائیکی خطے کے اہلِ دانش بتا رہے ہیں کہ انہیں بھی اس راہداری کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ ان آراء کے بعد، ہم اس منصوبے کو کس معنی میں گیم چینجر قرار دیں گے؟
ہر آنے والا دن میرے ابہام میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ در اصل کیا ہے؟ یہ کس نے بنایا؟ کون اِس پر عمل درآ مد کا ذمہ دار ہے؟کوئی کہہ رہا ہے، سرائیکی علاقوںکو شامل کرو۔ کوئی کہتا ہے فاٹا شامل نہ ہوا تو ہم اسے کے پی سے گزرنے نہیں دیںگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ ہے؟ کیا 'راہداری صاحب‘ (زرداری صاحب کے وزن پر) چین کے کوئی صاحبِ وسائل آدمی ہیں جو جہاں سے گزرتے ہیں، پیسے بانٹتے جاتے ہیں۔ اب ہر کوئی چاہتا ہے کہ ہمارے محلے سے بھی ہوتے ہوئے جائیں؟ چین یہ سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کر رہا ہے یا اپنے لیے؟ چین کے مفاد کا تقاضا کیا ہے؟ سب سے اہم سوال: حکومت اسے پارلیمان میں زیرِ بحث کیوں نہیں لا تی؟ پارلیمان کے ہوتے ہوئے اے پی سی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا مفہوم کیا ہے؟
ابہام در ابہام کی اس فضا نے ایک فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ ابہام نے شکوک پیدا کیے اور اب شکوک کواس یقین میں بدلا جارہا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت دراصل پنجاب کی حکومت ہے، جسے صرف اس صوبے کی ترقی سے دلچسپی ہے۔ یہ آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہے۔ اب یہ تاثر زیادہ نمایاں اس لیے ہے کہ آج وزیراعظم بھی پنجاب کا ہے۔ شہباز شریف صاحب کے سارے کام بھی مرکز کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔ یوں ایک بار پنجاب ایک استعمار کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اب راہداری محض ایک حوالہ ہے۔ یہ سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ یہ پہلے سے قائم مقدمے کے حق میں ایک نئی دلیل ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اے پی سی کے اعلامیے میں طے شدہ نکات کی نگرانی کی جائے اور اس سے انحراف نہ ہو۔ مجھے یہ اس لیے مشکل دکھائی دیتا ہے کہ یہ اس نوعیت کی پہلی اے پی سی نہیں۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب اُس اجتماع میں طے شدہ نکات پر عمل نہیں ہوا تو اب کیسے مان لیا جائے کہ اِس کانفرنس کے فیصلوں پر عمل ہوگا؟ جہاں اعتبار کا فقدان اس سطح کا ہو، وہاں کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کون کس صوبے کا حقیقی نمائندہ ہے؟ لوگ منتخب وزرائے اعلیٰ کو بھی نمائندہ ماننے پر آ مادہ نہیں۔ نہ قائم علی شاہ سندھ کی نمائندگی کرتے ہیں نہ پرویز خٹک خیبر پختونخوا کی۔ تو کیا ان قوم پرستوں کو صوبوں کا نمائندہ مانا جائے، جنہیں صوبوں کے عوام نے کبھی ووٹ نہیں دیے؟ ایک بار کے پی میں اُن کی حکومت بنی تو آج بھی لوگ اسے یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اب حقیقی نمائندہ کہاں تلاش کیا جائے؟ اہلِ دانش کا کوئی فورم؟ سوال یہ ہے کہ جمہوریت میں اگر یہ حق علما کے طبقے کے لیے ثابت نہیں تو کسی دوسرے طبقے کے لیے کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنے سوالات کی موجودگی میں، میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ راہداری کو میں پاکستان کے لیے خیر کی علامت قرار دوں یا کچھ اور؟
سوالات یہاں ختم نہیں ہوئے۔ پہلے یہ معلوم ہوا کہ حکومت اصل بات چھپا رہی ہے۔ مطالبہ یہ تھا کہ اصل منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے۔ اصل نقشہ سامنے لایا جائے۔ اب معلوم ہوا کہ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حکومتِ پاکستان کے نمائندے چینی حکومت کے ساتھ مل کراصل دستاویزات تیار کر رہے تھے تو انہوں نے اُس وقت چھوٹے صوبوں کو نظر اندازکیا اور اس میں مغربی راہداری کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ چین کو بتایا ہی نہیں گیاکہ پاکستان میں فیڈریشن کے مسائل کیا ہیں اور چھوٹے صوبوں کی قیادت کیا کہہ رہی ہے۔ یہ سب 2013ء میں طے ہو چکا تھا۔ اب اس میں پاکستان یک طرفہ طور پر کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس وقت جو کچھ کیا جا رہا ہے، یہ عوام کی نظروں میں دھول جھونکنا ہے۔ یہ سب کیوں ہوا؟ ایسا کیوںکیا گیا اور کس نے کیا؟ اس کا جواب ہے: وہی پنجابی ذہنیت جو چھوٹے صوبوں کی ترقی اور تعمیرکو کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی اصل کہانی ہے تو پھر اے پی سی کے اعلامیے کے مطابق جو لائی2018ء تک کون سی مغربی راہداری مکمل ہوگی؟ کمیٹی جس راہداری کی نگرانی کرے گی وہ اصل منصوبے میں کہاں ہے؟ تمام جماعتوں نے کیا ایک خیالی منصوبے کی حمایت کی ہے؟
میں اس ڈورکو جب بھی سلجھانے کی کوشش کر تا ہوں، یہ مزید الجھ جاتی ہے۔ میرے لیے راہداری سے زیادہ اب یہ اہم ہو گیا ہے کہ بطور پنجابی میں اپنی ذات پر چھوٹے صوبوں کا اعتبار قائم کروں۔ یہ کیسے ہوگا؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ مجھے کبھی پنجابی اور پاکستانی کی شناخت میں کوئی تفاوت دکھائی نہیں دیا۔ اب اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ پاکستان تو پنجاب ہی تھا، اس لیے مجھے فرق دکھائی نہیں دیا۔ فرق تو سندھی، بلوچی اور پختونوں کے لیے ہے، پاکستان جن کے لیے پنجاب کا دوسرا نام ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو پھر مجھے کچھ اور سوالات کے جواب بھی چاہئیں۔ مثال کے طور پر نوازشریف صاحب سے پہلے کم و بیش سارے وزرائے اعظم دوسرے صوبوں سے آئے۔ انہوں نے بھی پنجاب ہی کو کیوں پاکستان سمجھا؟ جو فوجی یہاںحکمران رہے، ان میں بھی کوئی پنجابی نہیں تھا۔ انہوں نے کیوں دوسرے صوبوں کے مسائل کو حل نہیں کیا؟ میرے لیے یہ معاملہ اب ایسا مخمصہ بن چکا ہے کہ ایک سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتا ہوں تو مزید دس سوالات راستہ روک کر کھڑے ہو جا تے ہیں۔ یوں شاخ در شاخ یہ سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ میرے چاروں طرف سوالات کا ایک جال ہے جن سے نکلنے کی کوئی کوشش تادمِ تحریر کامیاب نہیں ہو رہی۔ کالا باغ ڈیم کی بات ہوئی تو بھی یہی انجام ہوا۔ سارا ملک تاریکی میں ڈوب گیا لیکن وفاق ( درپردہ پنجاب) صوبوں کے شکوک دور نہ کر سکا۔
میںاس کیفیت میں سوچتا ہوں کہ پاک چین راہداری ہمارے لیے باعثِ رحمت ہے یا باعثِ زحمت؟ یہ منصوبہ گیم چینجر تو ہے مگر کس حوالے سے؟کیا جمہوریت کے اس پنجابی ماڈل سے نجات کی کوئی صورت ہے؟ اگر اس کالم نے آپ کو الجھایا ہے تو مجھے معاف کیجیے کہ ایک لکھنے والا، قاری کو وہی کچھ دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved