پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی
کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے : صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے‘‘ اور انشاء اللہ قیامت تک پُرعزم رہے گا کیونکہ اس وقت تک تو یہ ختم ہونے سے رہی جبکہ حکومت کا کام صرف پُرعزم ہونا ہے جو وہ ہو بھی رہی ہے اور اس کا بار بار اعلان بھی کر رہی ہے جو عزیز دہشت گردوں کو کافی گراں بھی گزر رہا ہے حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہمارے محض پُرعزم ہونے سے ان کی صحت پر اب تک کیا اثر پڑا ہے یا پڑ سکتا ہے‘ علاوہ ازیں یہ بھی اب تک ثابت ہو چکا ہے کہ حکومت جس کام کے بارے میں پُرعزم ہوتی ہے‘ وہ ہمیشہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے‘ اللہ جانے یہ اتنی زیادہ کھٹائی کہاں سے آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم اور قومی اداروں نے اس مقصد کے لیے بے بہا قربانیاں دی ہیں‘‘ اور اب حکومت خود بھی قربانیاں دینے کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ قربانیاں تھوڑے عرصے میں خود ہی لے لی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ''ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے‘‘ جو حکومت کی مخلصانہ کوششوں ہی کا نتیجہ ہے‘ حالانکہ حکومت کے پاس اس کے لیے کوئی وقت ہی نہیں ہے جو دیگر ضروری کاموں میں اس قدر مصروف ہے کہ سر کُھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی اور سر کُھجلی کو ترس گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر سمیت ہمارے تمام مسائل بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائیں‘‘ اور چونکہ ہم نے اس کا بھی عزم کر رکھا ہے‘ اس لیے اس کے بارے میں بھی کسی خوش فہمی کی ضرورت نہیں ہے‘ تاہم انشاء اللہ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح یہ مسائل بھی قیامت سے پہلے ضرور حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ وقت دور نہیں جب پاکستان مکمل طور پر امن کا گہوارہ بن جائے گا‘‘ تاہم وہ وقت کچھ اتنا نزدیک بھی نہیں ہے‘ اس لیے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو خطے میں متعدد چیلنجز درپیش ہیں‘‘ جن میں سب سے بڑا وہ شور و غوغا ہے جو کرپشن کے بارے میں مچایا جا رہا ہے حالانکہ حکومت نے تو کرپشن کا نام ہی پہلی بار سنا ہے اور حیران ہو رہی ہے کہ اتنی کرپشن یہ کون کر رہا ہے‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ کہیں ہے بھی تو اسے ختم کرنے کے لیے بھی حکومت کو پُرعزم ہونا پڑے گا۔ آپ اگلے روز نیشنل ڈیفنس کونسل یونیورسٹی میں خطاب کر رہے تھے۔
قوم کی لُوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے احتساب کا کڑا نظام ضروری ہے : شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قوم کی لُوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے احتساب کا کڑا نظام ضروری ہے‘‘ اور دونوں بڑی پارٹیاں یہ دولت اس لیے واپس نہیں لا رہیں کہ اس کے لیے کوئی کڑا نظام ہی موجود نہیں ہے ورنہ دونوں اسے جلد از جلد واپس لانا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے دل پر اس کا بہت بوجھ پڑا ہوا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اس پر لعنت بھیج رکھی ہے‘ اور اس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں رکھا گیا کیونکہ ایک غلط چیز کا حساب رکھنا خود بہت بڑی غلطی ہے‘ اور الحمد للّلہ خدا نے دونوں کو ایسی غلطیوں سے بچایا ہوا ہے اور یہ نیک نامی ان کے لیے باعث فخر ہے اور ویسے تو ان کے سارے کام ہی ان کے لیے باعث فخر ہیں‘ بہرحال کرپشن کے حوالے سے یہ دونوں مطمئن اس لیے بھی ہیں کہ انہوں نے اسے ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''غربت‘ جہالت کے خاتمے اور ملکی ترقی کا واحد راستہ تعلیم ہے‘‘ اور میٹرو بس اور اورنج ٹرین کا ملک میں جال صرف اس لیے بچھایا جا رہا ہے کہ اگر یہ نہ ہوں گی تو طلبہ اپنی درس گاہوں میں کیسے پہنچیں گے اور ملکی ترقی وغیرہ کے لیے پُرعزم کیسے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''دور آمریت میں ملک میں لُوٹ مار کا بازار گرم رہا‘‘ جس کو ہماری سول حکومتوں نے آ کر ٹھنڈا کیا کیونکہ کھیر ٹھنڈی کر کے ہی کھانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی بنیادوں پر اربوں کے قرضے معاف کرائے گئے‘‘ جبکہ ہمارا دارومدار صرف اپنی نیک کمائی پر ہی رہا ہے اور ماشاء اللہ کبھی قرضہ معاف کرانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے صوبے میں کرپشن فری کلچر کو فروغ دیا‘‘ بلکہ اسے سگنل فری بھی کہنا چاہیے تاکہ معززین کو راستے میں رکنا نہ پڑے اور پوری دلجمعی سے کرپشن فری کلچر کو فروغ دیتے رہیں‘ چنانچہ مختلف حکومتی عمال اور ساری بیورو کریسی کرپشن فری کلچر کو فروغ دینے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے‘ بالخصوص متعدد وزرائے کرام‘ ارکان اسمبلی‘ بیورو کریسی اور بالخصوص محکمہ پولیس اور مال وغیرہ تو اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر درخشندہ روایات قائم کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کی جا سکی ویسے بھی یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پوزیشن ہولڈرز میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی مقاصد کے لیے اقتصادی راہداری
منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے : سرتاج عزیز
امور خارجہ کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ''سیاسی مقاصد کے لیے اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے‘‘ کیونکہ جب اس کے علاوہ یعنی کئی غیر سیاسی مقاصد بھی موجود ہیں جن کے لیے اسے متنازعہ بنایا جا سکتا ہے تو سیاست کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ پہلے ہی کافی بدنام ہو چکی ہے اور محض حکومت کی نیک نامی کی وجہ سے اسے باعزت اور محترم سمجھا جاتا ہے‘ بلکہ اسے تو خود وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب عبادت کا درجہ دے چکے ہیں اور اس سے مسلسل اپنی اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں بلکہ اب تو لوگ اُن کے پاس تعویذ دھاگے کے لیے بھی آنے لگے ہیں اور طرح طرح کی منتیں بھی مانگنا شروع کر دی ہیں اور زائرین کی مُرادیں بھی پوری ہونے لگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کر رہے ہیں‘‘ جس میں بعض مدارس کے تعاون اور کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ برسوں میں مزید امن و استحکام آئے گا‘‘ کیونکہ حکومت اقتصادی راہداری منصوبے سے فارغ ہونے ہی والی ہے کیونکہ ابھی اس سلسلے میں بہت سے تنازعات سر اٹھائیں گے اور چونکہ حکومت خود نہایت امن پسند واقع ہوئی ہے اور جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتی‘ اس لیے امن و امان کے قیام کے لیے خود ہی اسے خیرباد کہہ دے گی جس کے لیے وہ خاص طور پر پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''افغانستان میں امن ضروری ہے‘‘ جس پر مودی صاحب نے بھی بہت زور دیا ہے اور چونکہ وزیراعظم صاحب کو ان کی خاطر کچھ زیادہ ہی مطلوب ہے‘ اس لیے اس سلسلے میں خصوصی کوششیں اور اقدامات کئے جائیں گے جبکہ پاکستان میں تو امن و استحکام کا سمندر پہلے ہی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
گھر پہنچ کر مجھے کھولے جو خریدار، ظفر
اور ہی کچھ نکل آئوں گا دکھایا ہوا میں