تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-01-2016

مشن

وزیر اعظم نواز شریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف ایک ایسے مشن پر ہیں کہ دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ اللہ انہیں سرفراز کرے۔ ان کا نہیں یہ پاکستان کا مشن ہے۔ پاکستان کا نہیں پورے عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کا۔
بالکل بروقت اور بالکل درست فیصلہ انہوں نے کیا ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔سرکارؐ نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا ‘کیا پڑھ رہے ہو، عرض کیا: یا رسول اللہ ''ذوالجلال والاکرام‘‘ فرمایا: مانگو جو اس نام سے مانگتے ہو۔ وہ سب عظمتوں کی عظمت، جس کی صفت رحم اس کی صفت عدل پہ غالب ہے، مسلمانوں پر رحم کرے اور انہیں ہوش کے ناخن عطا کرے۔ سرکارؐ کی امت اذیت میں ہے۔یہ اس کے کرموں کا پھل ہے مگر وہ رحم کرنے والا ہے، اگر اس سے رحم کی التجا کی جائے۔ ایران اور عرب کا تصادم صدیوں کی کہانی ہے...تعصب اور ظاہر ہے کہ تعصب جہل ہے۔ افراد کی طرح افواج کی بھی انا ہوتی ہے اور گاہے وہ اس کی اسیر ہو جاتی ہیں۔ دونوں اس کا شکار ہوئے۔
عربوں کی ثقافت اور روایت پر سب سے اچھی کتاب شاید ''بلوغ الارب‘‘ہے۔ اس کا ایک قابل ذکر حصہ اہل حجاز کی فضیلت پر ہے۔ پیام یہ ہے کہ وہ سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ آپؐ عرب تھے اور آپؐ کے وہ رفیق جن کی آپؐ عالی جناب نے تربیت فرمائی۔ وہ نفوس قدسی جن کے بارے میں قرآن کریم میں یہ لکھا ہے: ''رضی اللہ عنہم و رضو اعنہ‘‘ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ ہاں! مگر سرکارؐ کا فرمان یہ بھی ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔ یہ بھی فرمایا کہ خدا کی قسم علم اگر کسی ستارے پر بھی ہو گا تو کوئی عجمی اسے اتار لائے گا۔ صاحبان علم عربوں میں بھی ہوئے کہ نسل ‘رنگ اور خون سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر اہل علم میں عجمی زیادہ ہوئے۔ تاریخ یہی کہتی ہے اور تاریخ کے فرمان کو کون جھٹلا سکتا ہے۔
ایرانیوں نے عربوں کا غلبہ کبھی دل سے قبول نہ کیا، درآں حالیکہ جس دور میں یہ برپا ہوا، وہ عرب نہیں تھے، فقط مسلمان تھے۔جہاں کہیں وہ گئے‘ چراغ جل اٹھے۔ جہلاء ہمیں بتاتے ہیں کہ اسلام کا غلبہ تلوار کے طفیل تھا۔ جی نہیں ‘ ان کے کردار اور علم کا اجالا ۔ جب وہ عرب ہو گئے تو دستار ان کے سر سے اتار کر دوسروں کو پہنا دی گئی۔ ایک زمانہ وہ بھی آیا کہ پورے عالم اسلام پر ترکوں کا راج ہو گیا۔ وسطی ایشیا ہی نہیں‘ برصغیر اور عالم عرب پر بھی۔ ان کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک صلاح الدین ایوبی تھے۔ کرد! اور دوسرے رکن الدین بیبرس ایک ترک۔
وسطی ایشیا پر ترکوں کا اقتدار ایران عرب کشمکش کی پیداوار تھا جب صفویوں نے حجاز کا ارادہ کیا تو عالم اسلام کا ایک وفد عثمانی ترکوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور تاریخ کا رخ بدل گیا۔ پھر صدیوں تک ترکوں کی تلوار ظفر مندی کے ساتھ دمکتی رہی تاآنکہ زوال نے ان کا گھر دیکھ لیا۔
حالیہ ایران عرب کشمکش کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ باریک بینی مگر احتیاط کے ساتھ ۔ ایسی سے گریزلازم ہے‘ جس سے فتنہ پھیلے۔ پہلے ہی بہت پھیل چکا۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر‘ اس حوالے سے‘ ایک دوسرے پر طعن تو کرنے والے بہت ہیں۔ اللہ کے بندو ‘ اس سے کیا حاصل ہو گا۔ عربوں نے خود کو برباد کیا۔ تیل کی وہ ساری دولت ضائع کر دی جو گزشتہ ساڑھے چار عشروں میں نصیب ہوئی۔ ایک بھی ڈھنگ کی فوج وہ تیار نہ کر سکے۔ اسرائیل کے مقابل پست رہے۔ فروری1979ء کا انقلاب ایران برپا ہواتو ایرانی ملا نے ایک بار پھر وسطی ایشیا پر غلبے کا خواب دیکھا۔ پچھلے دس برسوں ہی کو لے لیجیے۔ حزب اللہ کی انہوں نے مسلسل مدد کی۔ عراق میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ صدام حسین کی حکومت نے شیعہ اقلیت کے ساتھ ظلم روا رکھا تھا۔ اب یہ بدلہ چکانے کا وقت تھا۔ شام میں ایرانیوں نے بشار الاسد کو سہارا دیا۔ بدترین مظالم کے باوجود؛ تاریخ میں جن کی چند ہی مثالیں ہوں گی۔ بشار الاسد اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہا تو اس میں ایران کا ایک کردار ہے۔ امریکہ کی مدد سے بعض عرب ممالک بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے آرزو مند تھے۔ امریکیوں کا مخمصہ یہ تھا کہ اگر وہ نکال دیا گیا تو داعش اس کی جگہ لے گی۔ ایرانیوں کا غم یہ تھا اور قوت بھی یہی کہ بعض عرب ممالک میں اثنا عشری عقائد رکھنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ ایران انہیں اکساتا رہا۔ اگر پوری طرح وہ کامیاب نہ ہو سکا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عرب پہلے ہیں اور اثناعشری بعد میں۔ یمن میں حوثی باغیوں کی امداد اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا تھا۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ نمرالنمر کی پھانسی نے عرب ایران کشمکش کو ہوا دی۔ جی نہیں، دراصل یمن کے بحران نے۔
پاکستان اس میں بچ نکلا۔ اگرچہ سعودی عرب کو ہم نے کسی قدر ناراض کرلیا۔ پاکستانی فوج غیر فرقہ وارانہ ہے اور سول سروس بھی۔ سیاسی جماعتوں میں سے بعض پر کسی خاص مکتب فکر کا اثر گاہے‘ کچھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ الحمدللہ مگر ان میں سے کوئی بنیادی طور پر فرقہ وارانہ کردارکی حامل نہیں۔ چند مذہبی پارٹیوں کے سوا اور ان کا رسوخ محدود ہے۔ ملک میں شیعہ، سنی کشمکش کو ہوا دینے کی بہت کوشش کی گئی۔ دونوں طرف کے انتہا پسند اس میں استعمال ہوئے مگر عوام میں پذیرائی کبھی نہ پا سکے۔ یہ بھارتی تھے، جنہوں نے اس کارڈ کو استعمال کیا مگر ان سے زیادہ عربوں اور ایرانیوں نے، جو اپنی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑتے رہے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی اور پاکستانی عوام یہ سوچتے رہے ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کاآسماں کیوں ہو؟
عربوں سے پاکستان کی قربت زیادہ ہے مگر آخری تجزیے میں ایران بھی پاکستان کا دوست ملک ہی سمجھا جاتا ہے۔ہر آفت میں عربوں نے پاکستان کی مدد کی، خاص طور پر سعودی عرب نے۔ اس کی حقیقت مگر یہ ہے کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہمسائے بدلے نہیں جاسکتے۔ ایران کے ساتھ مخاصمت پاکستان کو سازگار نہیں۔ ادھر بھارت ہے، بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ ادھر افغانستان ہے 2,410 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد، جس کی نگرانی کا کبھی اہتمام نہ کیا گیا، جہاں سے عدم استحکام درآمد ہوتا ہے۔ مسلسل اور متواتر۔ ایسے میں ایران کے ساتھ مراسم بگاڑنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں۔ خدانخواستہ عرب، ایران کشمکش بڑھی تو کئی طرح سے پاکستان پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ جو قوتیںاس معاشرے کے سماجی پیرہن کو تار تار کرنے کی خواہشمند ہیں، ان کی بن آئے گی۔ ریاست کی عمل داری پہلے ہی کم ہے۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو مزید تباہی کے سوا کیا حاصل ہوگا؟
وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل ایک ساتھ گئے تو یہ بجائے خود خوش خبری ہے۔ تنازعہ کم کرنے میں کُچھ بھی کامیاب رہے تو یہ اس سے بڑی خوش خبری ہوگی۔ اولین یہ ہے کہ دونوں ممالک کا نقطہ نظر سُنا اور سمجھا جائے۔ پھر وہ بنیادیں تلاش کی جائیں‘ جن پر صلح کی عمارت اٹھائی جا سکے۔ صرف دعا ہی نہیں‘ اس بات میں حکومت کی عملی طور پر مدد کی جانی چاہیے‘ تاہم تنازعہ کم یا ختم ہونے کا انحصار پاکستان کی کوششوں سے زیادہ اس پر ہے کہ فریقین میں جارحیت کا دم خم کتنا ہے۔ ایرانی ایٹمی پروگرام پر پیشرفت‘ ایران اور امریکہ کے قریب آنے سے سعودی عرب خطے میں کمزور ہوا۔ اس کی قیادت شدید دبائو کا شکار ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایرانی اثاثے واگزار کرنے سے ایرانی حکومت کی قوت بڑھ گئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ ایران کے بعض انتہا پسند انقلابی عناصر اس پر زعم اور گھمنڈ کا شکار نہ ہو جائیں۔ عربوں نے ایرانی انقلاب پر یلغار کر کے ایک تاریخی بلنڈر کا ارتکاب کیا تھا۔ ایران نے بدلہ چکانے کی کوشش تیز کی تو تباہی آئے گی اور دونوں کے لیے۔ دونوں کا مفاد امن سے وابستہ ہے۔ اسرائیل بظاہر خاموش ہے مگر تنازعے اور تصادم کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کو ہو گا۔ 1400 برس سے صہیونیوں کی نظر مدینہ منورہ پر ہے‘ جہاں سے وہ نکال دیئے گئے تھے۔ ایک عشرے میں عالم عرب بہت بدل گیا ہے۔ عرب بہار نے حکومتوں کو چلتا کیا یا کمزور کر دیا‘ پھر شام اور یمن کے تنازعات نے۔ اور اب یہ ایران عرب کشمکش۔ دنیا متحد ہو رہی ہے۔ دو عالمگیر جنگوں میں ایک دوسرے کے دس کروڑ شہری قتل کر دینے والے یورپی ملک اب ایک یونین ہیں۔اور ہم ہمہ وقت خودشکنی پر تلے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف ایک ایسے مشن پر ہیں‘کہ دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے‘ اللہ انہیں سرخرو کرے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved