ہفتہ 16جنوری کو رات گئے اقوامِ متحدہ ‘ یورپی یونین اور امریکہ نے ایران پر عائد جوہری پروگرام کی بنا پر اقتصادی وتجارتی پابندیاں باضابطہ طور پر اٹھالی ہیں۔یہ پابندیاں جولائی 2015ء کے ویانا معاہدے کے تحت اٹھائی گئی ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف سٹاک مارکیٹوں بلکہ سفارتی سیاسی حلقوں میں بھی بہت ہل چل پیدا ہوئی۔ جوہری پروگرام پر پابندیاں 2006ء میں مسلط کئی گئی تھیںلیکن ایران پر سامراج کا سیاسی سفارتی اور اقتصادی جبر تیس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس طویل عرصے میں سامراجیوں نے ایک حوالے سے ایران کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ جب سے امریکہ کے دم چھلے رضا شاہ پہلوی کی حکومت گری ہے امریکہ نے نہ صرف ایران پر سفارتی اور معاشی پابندیاں لگوائیں بلکہ1980ء میں عراق کے ایران پر حملے کی بھی حمایت کی۔ صدام حسین کو اس 8سالہ جنگ میں سب سے بڑی شہہ امریکہ کی جانب سے ہی تھی۔ اس جنگ میں دس لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ عراق اور افغانستان پر براہِ راست سامراجی جارحیت کا ایک مقصد ایران کے گرد گھیرا ڈالنا بھی تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں بیس لاکھ انسانوں کا خون ہوا ۔ شاید یہی وجوہ تھیں کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا پروگرام شروع کیا تھا۔ ان پابندیوں کے باعث ایرانیوں کو شدید مشکلات اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بیروزگاری کا ایک سمندر ہے اور افراطِ زربعض اوقات 100 فیصد سے بھی تجاوز کرتی رہی ہے۔ نچلے ‘درمیانے اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں خاندان دیوالیہ ہو کر تقریباً بھکاری بننے پر مجبور ہوئے گئے تھے۔ لیکن ایران پر اگر ایک طرف جوہری پروگرام کی
وجہ سے پابندیاں لگائی گئیں تو دوسری طرف اسرائیل جو اس خطے کی سب سے بڑی ایٹمی اسلحے کی ریاست ہے اس پر پابندیاں تو کیا سامراجیوں نے وہاں کے '' غیر قانونی‘‘ جوہری پروگرام کی پڑتال پر ایک انسپکٹر بھی نہیں جانے دیا۔ اس لیے ایران کے عوام میں سامراج کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ جولائی میں جب یہ معاہدہ ہو ا تو ایران میں ایک جشن تھا۔ تہران سے لے کر اصفہان تک اور مشہد سے لے کر زاہدن تک زیادہ تر درمیانے طبقے پر مبنی افراد کے ان مظاہروں میں جو نعرے اور بینر تھے ان میں مصدق‘ظریف زندہ باد درج تھا۔ مصدق ایران کا دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلا منتخب وزیراعظم تھا جس نے امریکی اور برطانوی تیل کی کمپنیوں کو قومیاکر لیا تھا جو ایران سے اس کے تیل کی دولت لوٹ رہی تھیں۔ اس جرم کی پاداش میںسی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے اس بائیں بازو کے وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اسے معزول کردیا اور محمد رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت دوبارہ بحال کر دی۔ ان پابندیوں کے خاتمے سے ایران کو ابتدائی طور پر کافی مالیاتی اور تجارتی فائدے حاصل ہوسکیں گے لیکن سامراجیوں نے اپنے مفادات کے تحت ہی یہ پابندیاں ختم کی ہیں۔ اب ایران کو تقریباً 160 ارب ڈالر تیل کی برآمدات کے خسارے سے نجات مل جائے گی اور آمدن میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ایران فوری طور پر 11 لاکھ بیرل تیل کی برآمدات میں چھ لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ کرسکے گا۔ ایران کے بینک عالمی بینکاری نظام میں داخل ہوسکیں گے اور دنیا بھر میں کاروبار کرسکیں
گے۔ایران کو100 ارب ڈالر سے زائد منجمد رقم حاصل ہوسکے گی جس سے اس کی تیل کی صنعت کو شدید درکار مرمت کی جاسکے گا۔ فرانس کی تیل کی اجارہ دار کمپنی ''ٹوٹال‘‘ نے اس شعبے میں''مدد‘‘ اور سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ ایران میں سیاحوں کو جانے کی اجازت بھی مل جائے گی جس سے تقریباً دو کروڑ سیاح دنیا بھر سے ایران ہر سال سیاحت کے لیے جاسکیں گے ۔ اسی طرح ایران کی ریاست اور حکمران معیشت کو وسائل حاصل ہوسکیں گے۔ لیکن اسی عمل میں امریکی اور یورپی صنعتی ومالیاتی اجارہ داریاں جنہوں نے اس معاہدے کو کرانے میں دبائو ڈالا تھا وہ ایران میں سرمایہ کاری کرنے وہاں کے وسائل اور انسانی محنت کے استحصال کے ذریعے اپنے گرتے ہوئے منافعوں میں اضافے کے عزائم بھی رکھتے ہیں۔
اس معاہدے سے جو امر سب سے زیادہ عیاں ہوتا ہے وہ امریکی سامراج کی فوجی ‘سفارتی اور معاشی تنزلی ہے۔ امریکہ کے
عوام اب بیرونی جارحیتوں اور مہم جوئی سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ
ان کے بھاری اخراجات کا خمیازہ انہیں بھی بھگتناپڑتا ہے۔ دوسری جانب امریکی معیشت کی خستہ حالی اور قرضوںپر مبنی بجٹ اور مالیاتی حالت امریکی حکمرانوں کے لیے اس قسم کی بیرونی جنگوں اور حملوں کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔ اپنے پرانے اتحادیوں اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پرانے حریف ایران سے مصالحت اور اسکے علاقائی کردار اور طاقت کو تسلیم کرنا امریکی سفارتکاری کی بڑی شکست ہے۔۔ اس معاہدے اور پابندیوں پر خاتمے کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل اس خطے میں انہی حاکمیتوں کی جانب سے آیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے دائیں بازو کے لیڈر اور ایران میں اشرافیہ کے سخت گیر دھڑے بھی اس مصالحت کے خلاف ہیں۔ ایران کی حکومت کو جو وسائل اور دولت اس عمل سے حاصل ہوگی اس کی بندر بانٹ پر ایران کی اشرافیہ کے ان دھڑوں میں تضادات مزید شدت اختیار کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے موجودہ صدر روحانی کے''میانہ رو‘‘ دھڑے کو سخت گیر دھڑوں کو زیادہ وسائل دینے پڑیں گے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایران کے محنت کش عوام کو اس معاہدے سے کیا حاصل ہوگا؟موجودہ ''اصلاح پسند‘ صدر اس وقت منتخب ہوئے تھے‘ جب ایران سماجی دھماکے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے جمہوری حقوق اور بہتر معیارِ زندگی کے وعدے کیے تھے۔ اس کے بعد اس نے ایران کے محنت کشوں کی توجہ مذاکرات کی جانب مبذول کروا دی تھی جو ان پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری تھے۔ عوام کو اتنی بڑی اور اتنے طویل عرصے سے امیدیں لگوا کر ان کو پورا نہ کرسکنا حکمرانوں کی حاکمیت کے لیے بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اب یہی امیدیں کھل کر ان کے پورا کیے جانے کے عملی مطالبات کی شکل اختیار کریں گی۔ پہلے شاید جمہوری حقوق اور ریاستی جبر کے خاتمے کے مطالبات پر خصوصاً نوجوان نسل کی جانب سے آواز اٹھے گی جو اس سے گھٹن کا شکار ہے۔ یہ بدعنوانی اور منافقت موجودہ حاکمیت میں رچی بسی ہوئی ہے اور عوام میں اس کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی ہے۔موجودہ حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ اس کو کچھ فوری رعائتیں دینی پڑیں گی ورنہ ان کا انجام بھی حسنی مبارک جیسا ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر تھوڑی سی اصلاحات کے ذریعے راستہ معمولی سا بھی کھلتا ہے تو عوام کا ریلا اس کو پھاڑ بھی سکتا ہے۔پابندیوں نے طبقاتی تفریق کو مدہم کرکے جو ایران میں ایک قوم کی کیفیت کو قائم کر رکھا تھا وہ اب طبقاتی بنیادوں پر تضادات اور کشمکش میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح ایران کو اشرافیہ نے سامراجی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے ایشو پر عوام پر اپنا تسلط لمبے عرصے تک برقرار رکھا ہے لیکن اب تو اسی ''شیطان‘‘ سے مصالحت ہوچکی ہے اس لیے یہ نفسیاتی اوزار بھی حکمرانوں کے لیے اب زیادہ کارگر نہیںرہے گا۔ ایران میں موجودہ سرمایہ داری اور کرپشن نے درحقیقت طبقاتی فرق کو بہت وسیع کردیا ہے ۔ ایک طرف اتھاہ غربت تو دوسری جانب اشرافیہ‘ چینی افسر شاہی کی طرح امیر سے امیر تر ہی ہوتی گئی ہے۔ ایران کی تاریخ میں انقلابات اور تحریکوں کی بہت سی شاندار روایات موجود رہی ہیں ۔ 1979ء کا انقلاب درحقیقت ابتدا میں ایران کی ''تودِہ ‘‘ یعنی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کے کنٹرول میں تھا۔ سٹالنسٹ قیادت کی تباہ کن پالیسیوں نے اس کو مذہبی فرقہ واریت کی جھولی میں ڈال دیا ۔ لیکن اب پھر جب بنیادی ضروریات کے خلاف بغاوت ابھرے گی تو وہ مذہبی جبر کے خلاف نہیں اس پورے مالیاتی نظام کو ہدف بنائے گی۔