تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     19-01-2016

پاکستان کی امن مساعی

تاریخ نے پاکستان کو ایک اہم اور نازک دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا۔ ایک سخت آزمائش تھی، پاکستان کو جس کا سامنا تھا۔'' غیر جانبداری‘‘ کہنے کو بہت آسان اور خوبصورت لفظ ہے ، لیکن یہاں یہ معاملہ شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔ 
سعودی عرب اور ایران کی کشمکش ایک نازک مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔ کشیدگی سرد جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی اور معاملہ شاید سرد جنگ تک محدود نہ رہتا۔ ایسے میں پاکستان کا غیر جانبدار رہنا، شاید عرب دوستوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوتا۔ یمن کے معاملے پر پارلیمنٹ کی قرارداد میں ''Neutral‘‘ کے لفظ سے کیا کیا فتنے اُٹھ رہے تھے کہ Damageکنٹرول کے لیے پاکستان کی ایکسرسائز بروئے کار آئی اور نقصان کا ازالہ ہوگیا۔ البتہ ہمارے اماراتی دوست اپنا غصہ چھُپا نہ پائے۔ نریندر مودی نے اِسے فائدہ اُٹھانے کا سنہری موقع جانا۔ ہندوستانی میڈیا نے اس کے دورے کا خوب ڈھنڈورا پیـٹا۔ بعض تجزیہ کار اِسے ''گلف کارڈ‘‘ سے پاکستان کی محرومی قرار دے رہے تھے۔ 
سعودی عرب نے پاکستان کو درپیش کسی بھی مشکل وقت میں ہمارا ہاتھ تھامنے میں تاخیر نہیں کی تھی (یہی معاملہ متحدہ عرب امارات والوں کا تھا)اور یہ معاملہ یک طرفہ نہ تھا۔ پاکستان نے بھی آزمائش کے کسی بھی مرحلے میں اپنے عرب دوستوں کو مایوس نہیں کیا تھا۔ 
دوسری طرف ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اپنی اہمیت تھی۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے ایک نئی مملکت کے طور پر پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ علاقائی تعاون برائے ترقی(آرسی ڈی) میں دونوں ایک دوسرے کے قدم بقدم اور شانہ بشانہ رہے تھے (سہ ملکی اتحاد کا تیسرا رُکن ترکی تھا۔) 1965ء کی پاک بھارت جنگ تھی یا 1971ء میں بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت ، ایران نے پاکستان کے ساتھ دوستی نبھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔وہ شاہ کا ایران تھا۔ انقلاب کے بعد خطے میں مفادات کا ٹکراؤ، باہمی تعلقات میں تلخی کا باعث بھی بنتا رہا، لیکن یہ تلخی ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھی ۔ ایران، عرب آویزش کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ انقلاب کے بعد یہ آویزش ایک نیا رُخ اختیار کر گئی تھی۔ ایسے میں دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو نبھانا، پاکستان کے لیے تنے ہوئے راستے پر چلنے (Tight Rope Walk)کے مترادف تھالیکن پاکستان پل صراط کا یہ سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتا رہا۔ انقلاب کے بعد ایران عراق جنگ میں پاکستان کے لیے اپنے کردار کا تعین کوئی آسان کام نہ تھا۔ افغان جہاد میں امریکہ (اور یورپ کے علاوہ) ہمارے عرب بھائی بھی پاکستان کے پشتیبان تھے۔سفارتی محاذ پر ایران بھی پاکستان کا ہم نوا تھا۔ پاکستان کی طرح اس نے بھی لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی لیکن وہاں افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکت کیمپوں تک محدود تھی جبکہ پاکستان میں معاملہ مختلف تھاکہ یہ افغان جہاد میں برسرِ پیکار سات مجاہد تنظیموں کا بیس کیمپ بھی تھا۔ اس جہاد میں پاکستانی قوم کا عملی تعاون بھی بے پناہ تھا۔ ایران، عراق کے ساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا تھا، تب امریکی دباؤ اور عرب دوستوں کی خواہش کے برعکس، پاکستان نے ایرانی سرحد پر کسی قسم کا دباؤ پیدا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ سوویت انخلاء کے بعد، افغانستان میںایران کے stakes کا پاکستان کو پورا احساس تھا، چنانچہ اس نے ہر اہم مرحلے پر ایران کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا۔ 
افغانستان میں انتقالِ اقتدار کے لیے افغان تنظیموں میں معاہدۂ اسلام آباد طے پایا، تو وزیراعظم نوازشریف افغان لیڈروں کو ریاض اور تہران، دونوں جگہ لے کر گئے۔ افغانستان میں طالبان کے ظہور کے بعد، یہاں ایران اور پاکستان میں مفادات کا تضاد سر اُٹھانے لگا۔ ایران طالبان مخالف شمالی اتحاد کا حامی تھا(بھارت کی ہمدردیاں بھی شمالی اتحاد کے ساتھ تھیں)۔ پاکستان، ایران اور افغان طالبان کی پراکسی وار کا میدان بھی بنا۔ ایسے میں ایران کے ساتھ تعلقات میں پہلے سی گرمجوشی تو نہ رہی، لیکن سردمہری بھی ایک خاص درجے سے نیچے نہ گئی۔
لمحۂ موجود میں ایران، عرب کولڈوار انتہا کو پہنچی تو عربوں کی پاکستان سے توقعات کچھ ایسی بے جا بھی نہ تھیں لیکن پاکستان کی اپنی محدودات تھیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے مفادات اتنے وسیع اور اتنے گہرے نہ سہی، جتنے عربوں کے ساتھ ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کے ''دُشمنوں‘‘ کی صف میں جاکھڑاہونا پاکستان کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ ایسے میں پاکستان نے جس کردار کا انتخاب کیا ، اسے یہی زیبا تھا۔ عالمِ اسلام کے دونوں اہم ملکوں کے مابین سردجنگ کی کیفیت کا خاتمہ، جس میں گرم جنگ بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ بہت اچھا ہوا کہ اس امن مشن میں آرمی چیف بھی وزیراعظم کے ہم رکاب ہیں۔
جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، یہ دوسرا موقع ہے جب جناب وزیراعظم اور آرمی چیف ، بیرونی دورے میں ہم سفر ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال مئی کے وسط میں بھی کابل کے دورے میں یہ دونوں ساتھ تھے، جہاں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت افغانستان کی اہم سیاسی وعسکری شخصیات سے ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا: افغانستان آنا میرے لیے دوسرے گھر میں آنے کے مترادف ہے۔ صدر اشرف غنی کہہ رہے تھے: پاکستان کا دُشمن افغانستان کا دُشمن اور افغانستان کا دُشمن پاکستان کا دُشمن ہے۔ ادھر افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں جنرل راحیل شریف انہیں یقین دِلارہے تھے کہ ہم افغانستان کے دُشمنوں کے ساتھ پاکستان کے دُشمنوں کی طرح نمٹیں گے۔ 
جنرل راحیل شریف گزشتہ نومبر کے اوائل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے شاہ سلمان کے علاوہ ولی عہد، وزیردِفاع اور اپنے سعودی ہم منصب سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت کے خاتمے کے لیے دو طرفہ تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو اس حقیقت کے واشگاف اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب علاقائی استحکام اور خاص طورپر مسلم امہ میں امن واستحکام کے اہم کردار ہیں، دونوں ملکوں کی دوستی پائدار شراکت میں بدل چکی ہے۔ 
کیا امن کے تمام مقاصد اس ایک دورے میں حاصل ہوجائیں گے؟ ظاہر ہے ، یہ ایک خوش کن خواب (Wishful thinking) ہے لیکن اس جانب پیش رفت کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امن، دونوں کی ضرورت ہے، سب کی ضرورت ہے۔ جنگ میں کسی کابھلا نہیںکہ اس میں جیتنے والا بھی ہار جاتا ہے۔ معیشت کی تباہی سمیت اسے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ان سے نمٹنے میں عشرے لگ جاتے ہیں۔ سعودی معیشت ایک بڑے چیلنج سے دوچار ہے۔ اِدھر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران کو بھی اپنی معیشت کی بحالی اور اپنے عہدِ رفتہ کی بازیابی کے لیے امن کاعرصہ درکار ہے۔ دونوں بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں، ان کے لیے اپنے اپنے قومی وقار اور انا کامسئلہ بن گیا ہے، تو مشترکہ دوست کی حیثیت سے پاکستان انہیں اِس مشکل سے نکال سکتا ہے چنانچہ یہ حسن ِ ظن کیوں نہ رکھیں کہ دونوں ملکوں کی طرف سے مثبت اِشاروں کے بعد ہی پاکستانی قیادت نے اس امن مساعی کا ڈول ڈالا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved