تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-01-2016

’’رائے خامہ‘‘ کے جائزے

ہر معاملے میں لوگوں سے رائے طلب کرنا یعنی باضابطہ پروفیشنل انداز سے رائے عامہ کا جائزہ لینا اب بہت حد تک نَفسی مرض کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ ٹیم ہار جائے تو سروے کہ کیوں ہاری۔ اور اگر جیت جائے تو سروے کہ ارے، کیسے جیت گئی! شادیاں چھوٹی عمر میں ہو رہی ہوں تو سروے کہ ابھی تو عمر پڑی ہے! اور بڑی عمر میں ہو رہی ہوں تب بھی سروے کہ بھئی اب کیا ضرورت تھی شادی کرنے کی یعنی کچھ دن بعد ''سمے سماپتی کی گھوشنا‘‘ ہونے ہی والی تھی! 
ہم نے ''سروے کلچر‘‘ کو کبھی پسند نہیں کیا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ فی زمانہ بیشتر سروے ''آرڈر پر مال‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ مارکیٹ میں بہت سے ادارے ہیں جو کلائنٹ کی مرضی کے مطابق سروے کراتے رہتے ہیں اور وہی نتائج دیتے ہیں جو ہر اعتبار سے کلائنٹ کی خواہش کے عکاس ہوں۔ 
انتخابات کے زمانے میں سروے کرانے والوں اداروں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ بس یہ سمجھیے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سَر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ اس کی مقبولیت کا گراف انتہائی بلند دکھایا جائے۔ ہر لیڈر چاہتا ہے کہ اسے قوم کا محبوب بناکر پیش کیا جائے۔ عوام بھی ایسے بھولے بادشاہ نہیں کہ کچھ نہ سمجھتے ہوں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمینی حقیقت کیا ہے اور آرڈر پر مال کہاں کہاں اور کس کس طرح تیار کیا جارہا ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی انفرادی حیثیت سے متعلق کرائے جانے والے ہر سروے کو ہلکا پھلکا یعنی مزاحیہ آئٹم سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں! 
سیاسی سروے کی طرح سماجی سروے بھی ہوتے ہیں جو معاشرے کے ہر اس رجحان کو بہت کچھ بناکر پیش کر رہے ہوتے ہیں جس میں ذرا بھی دم خم نہ ہو! اقدار کے حوالے سے کرائے جانے والے سروے میں بتایا جاتا ہے کہ لوگ اب بھی روایات سے جُڑے ہوئے ہیں جبکہ عوام کو تو اب یاد بھی نہیں روایت کس چڑیا کا نام ہے! اسی طور دوستی، محبت اور شادی سے متعلق کرائے جانے والے ہر سروے میں معاشرے کو کچھ کا کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سماجی سروے بھی لوگوں کے لیے دل بستگی کا سامان کرتے ہیں۔ فیشن کے ہر سروے میں کسی ایک فریق کا پلڑا بھاری دکھایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، جس نے سروے کے لیے جیب ڈھیلی کی ہوگی اُسی کی گڈی اونچی اڑائی جائے گی! 
خواتین اور ازواجی زندگی سے متعلق کرایا جانے والے ہر سروے زندگی کا ایک ایسا انوکھا پہلو سامنے لاتا ہے کہ سروے کے نتائج پڑھنے والے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ جو خواتین سروے کے نتائج کی روشنی میں زندگی بسر کرتی ہیں ان کی حالت کبھی کبھی قابل رحم ہوتی ہے۔ فیشن کے معاملے میں اگر وہ سروے کے نتائج کی روشنی میں کوئی حکمتِ عملی طے کرتی ہیں تو معاملہ کامیڈی کی منزل پر پہنچ کر ہی سکون کا سانس لیتا ہے! ہر عورت چاہتی ہے کہ لباس کے معاملے میں منفرد دکھائی دے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں فیشن پر انحصار کرتی ہے۔ یعنی منفرد بھی دکھائی دینا ہے اور جو کچھ دوسری عورتوں کے تن پر دکھائی دیتا ہے وہی کچھ پہننا بھی ہے! اگر کوئی عورت جدید ترین فیشن کا اپنے طور پر اندازہ لگانے کے بجائے کسی تازہ سروے کے نتائج کو سامنے رکھ کر ملبوسات اور دیگر سامان منتخب کرے تو انتہائی انفرادیت کی مسند پر جلوہ افروز دکھائی دیتی ہے! 
یہی حال خواتین کی عادات و اطوار کا بھی ہے۔ سروے کے ذریعے اس میدان میں بھی شاندار کامیڈی کو جنم دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات خواتین اپنے مزاج اور عادات کے بارے میں پڑھ کر خود بھی ورطۂ حیرت میں پڑ جاتی ہیں اور یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ایسی واقع ہوئی ہیں! 
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران سوشل میڈیا نے ایسا ہنگامہ برپا کیا ہے کہ اب بیشتر خواتین کا اپنے مزاج اور عادات پر بھی کچھ خاص اختیار نہیں رہا۔ برطانیہ کے ایک جریدے نے اپنے تازہ سروے میں بتایا ہے کہ خواتین دن میں کم از کم آٹھ مرتبہ اپنے وجود پر تنقید کرتی ہیں۔ 2000 سے زائد خواتین کی آراء پر مشتمل اس سروے میں 40 فیصد سے زائد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ دن کا آغاز ہی خود کو کسی نہ کسی حوالے سے کوسنے سے کرتی ہیں۔ سروے کے مطابق خواتین موٹاپے اور وزن کے حوالے سے خود کو خصوصی طور پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ سیلفی اور دیگر سوشل پکچرز پر دوستوں کی نکتہ چینی آتشِ تنقید کو مزید بھڑکاتی ہے۔ احباب کی تنقید کا خواتین کی سوچ، کیریئر اور روزمرہ امور پر خاصا اثر پڑتا ہے اور وہ جذبات کی سطح پر شدید عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خواتین اپنے حسن اور ''فِگر‘‘ کے حوالے سے بھی بہت پریشان رہا کرتی ہیں۔ انہیں رات دن یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے شوہر کو اب بھی پسند ہیں یا نہیں۔ اور یہ کہ وہ کسی اور میں تو دلچسپی نہیں لے رہے۔ مگر ایک اچھا رجحان یہ بھی ہے کہ بہت سی خواتین تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد اپنے وجود کو بہتر بنانے اور دل کشی برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ 
ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ خواتین کی ایک معقول تعداد دن کا آغاز خود کو بُرا بھلا کہنے سے کرتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بیشتر خواتین خانہ بیداری کے بعد سب سے پہلے یہ سوچتی ہیں کہ کس پر کس بہانے سے تنقید کی جائے، کلاس لی جائے۔ اور اس معاملے میں کوئی اور کیوں تختۂ مشق بنے؟ شوہروں کے سَر خم ہیں تو سہی، جو مزاجِ یار میں آئے! اور معاف کیجیے گا، اگر کوئی خاتون صبح کے حسین لمحات میں بڑبڑاتے ہوئے اپنے وجود کو لتاڑنے لگیں تب بھی بے چارے شوہر کا دل لرز اٹھتا ہے اور وہ اِس self-criticism کو بھی اپنی ذات پر لعنت ملامت تصور کرتے ہوئے دست بستہ عرض کرتا ہے ''کیا حکم ہے میری آقا!‘‘ 
فیشن کی دنیا نے خواتین کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ وہ رات دن اِسی فکر میں غلطاں رہتی ہیں کہ کون سی چیز in ہے اور کون سی out ہوچکی ہے۔ in اور out کے چکر نے ان کی زندگی کو گھن چکر بنا رکھا ہے۔ سیلفیاں لینا اب ذہنی مرض کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ تقریبات میں خواتین اور بالخصوص لڑکیاں سیلفیاں لینے ہی میں مگن رہتی ہیں۔ اور ہر نئی سیلفی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے۔ اور اس کے بعد تبصروں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کچھ تبصرے اپنی ذات میں مزید گم کردینے والے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر اچھے خاصے موڈ کا لِنک ایک پل میں ڈاؤن ہوجاتا ہے! 
برطانوی جریدے کے سروے کے نتیجے میں بیان کی جانے والی یہ بات بھی ہمارے فہم سے بالا ہے کہ تنقید ہی سے خواتین میں اپنی اصلاح کی راہ نکلتی ہے یعنی وہ خود کو زیادہ پرکشش اور قابل توجہ بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ سروے کی روشنی میں اگر آپ خواتین پر ذرا تنقید کر دیکھیے اور پھر دیکھیے کہ وہ آپ کا کیا حشر کرتی ہیں! آپ کی تنقید سے وہ تو اصلاحِ نفس پر کیا مائل ہوں گی، آپ کی اصلاح کر ڈالیں گی اور وہ بھی کچھ اِس انداز سے کہ آپ پھر کبھی بگڑنے کے قابل نہ رہیں گے! 
رائے عامہ کے جائزوں پر طائرانہ نظر ضرور ڈالیے مگر دل بہلانے کی خاطر۔ اگر کسی سروے کے نتائج پڑھ کر آپ پر سنجیدگی طاری ہوجائے تو نتائج کے ذمہ دار آپ ہوں گے، سروے کا اہتمام کرنے والا ادارہ نہیں۔ اگر ہر سروے کو درست مان لیا جائے تو معاشرہ ایک ایسے جانور کی شکل میں سامنے آئے گا جس میں پیٹ گائے کا ہوگا، ٹانگیں ہاتھی کی ہوں گی، گردن اونٹ کی ہوگی، منہ بکری کا ہوگا اور اُس میں چونچ کسی بڑے پرندے کی لگی ہوگی! رائے عامہ کے جائزے بھان متی کی طرح ہوتے ہیں یعنی کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا لے کر کنبہ جوڑتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مزا نہ آئے تو پیسے واپس نہیں ملتے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved