تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-01-2016

اے مادے او رتوانائی کے رب!

اے مادے اور توانائی کے رب! اپنے اس بندے کو ذرا دیکھ، جس کے بال سفید ،کمر خمیدہ ہے ۔ تیرے اس پہلے آسمان میں ،اس پہلی زمین میں ،اب وہ کس قدر تھک گیا ہے ۔اس کے بدن کی توانائی اس کششِ ثقل سے کم ہے ، جس سے تونے اسے اِس زمین پہ باندھ رکھا ہے ؛چنانچہ اب وہ قدم اـٹھانے سے قاصر ہے ۔کیا تو نے اسے خوب آزما نہیں لیا اور کیا اب بھی وہ تجھ سے ہم کلام نہ ہو؟
اے مادے اور توانائی کے رب! اپنی استطاعت کے مطابق،تیرے حضور میں ایک ذرا سا جھک جاتا تھا لیکن میں بڑے عبادت گزاروں میں نہیں تھا۔ میں جبّے ، عمامے، داڑھی اور محراب والوں میں نہیں تھا۔ اپنی بساط کے مطابق میں تو ایک ذراسا تجھے دیکھنے کی کوشش کرتا رہ گیا۔ ہر روز اور ہر شب اس مادی دنیا میں اپنے گرد و پیش کا تماشہ دیکھتا رہ گیا۔ کیا اس کے باوجود تو مجھے بخش دے گا؟ کیا تو مجھے جنّت میں لے جائے گا؟ 
اے مادے او ر توانائی کے رب !جنّت کیا ہے ؟ کیا مٹی کا بدن وہاں تھکتا نہیں ؟کیا وہ بیمار نہیں ہوتا؟ سنا ہے ، عمر گزرنے کے ساتھ وہاں خلیات بوسیدہ نہیں ہوتے ، جسم جوان رہتاہے ۔ سنا ہے ، وہاں تفکرات نہیں ہوتے ؟ وہاں رزق کمانا ہوتاہے ، نہ بیٹی بیاہنی ہوتی ہے ۔ نافرمان اولاد وہاں نہیں ہوتی ۔ مادے کے ٹکرائو سے حادثات نہیں ہوتے ۔ ذہنی خلیات ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں تو محض مسرّت کی نوید دیتے ہیں ۔ 
سنا ہے ، وہاں آرزوئیں پوری ہوتی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو تیرا یہ بندہ حجاب اٹھا دینے کی آرزو کرتا ہے ۔ کیا تو سارے خفیہ رازوں سے، اِ س کائنات اور اُس جہاں کی ساخت تک اسے رسائی دے گا؟ مو ت کے بعد، جب میں ہلکا پھلکا ہو جائوں گا تو کیا تو مجھے اس کائنات کی سیر کرائے گا؟ کیا وقت کے سمندر میں ، تو مجھے بہائو کے مخالف تیرائے گا؟ کیا تو مجھے تیرہ ارب سال پہلے کی نوزائیدہ کائنات کے حضور لا کھڑا کرے گا؟ کیا اپنی آنکھوں سے میں اوّلین عناصر کو جڑتا دیکھوں گا؟ کیا میں اپنے وجود کا حصہ بننے والے عناصر کو سورجوں میں پیدا ہوتا دیکھوں گا؟ کیا میری آنکھوں کے سامنے گرد کے ذرّات باہم جڑتے ہوئے زمینیں تشکیل دیں گے ؟کیا تو مجھے لوہا نازل کر کے دکھائے گا؟ زمین کی تہوں میں کوئلہ، تیل او رگیس بچھائے گا؟ کیا تیز رفتاری سے تو مجھے ہمسایہ کائناتوں تک لے جائے گا؟ کیا میں ان کے انوکھے اصولوں، منفرد تخلیقات سے لطف اندوز ہوں گا؟ 
یہاں اس زمین پر میرا جسم جب اپنی ضروریات پوری کیا کرتا تو گویا مادہ ماد ے سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ وہاں اس دنیا میں کیا ہوگا؟ 
کیا آسمان کے نیلے سمندر میں، تو مجھے روشنی سے تیز دوڑائے گا؟ کیا میں اس کی وسعتیں ناپ سکوں گا؟ 
تونے ہی بتایا ہے کہ جنّت سب آسمانوں اور سب زمینوں سے وسیع تر ہے ۔ اس میں ، میں کیسے سفر کروں گا؟ کیا میں روشنی سے تیز تر ہو جائوں گا؟ کیا یہ سست رفتار مادی جسم ایک طاقتور ،برق رفتار بدن سے بدل دیا جائے گا؟ 
اے مادے او رتوانائی کے رب! اس الوہی عقل کا کیا ہوگا، 
دوسرے جانوروں پر جس نے اس جانور کو برتری دی ۔ کیا وہ میرے ساتھ جائے گی ؟ کیا میں اشیا کو پرکھوں گا؟ ان کی حقیقت سے آشنا ہوجائوں گا؟کیا تو مجھے میرے اندر کی سیر کرائے گا؟ خوشی، غم، ہوس، لذت کا باعث بننے والے دماغی خلیات کے روابط(Connections)کیا مجھ سے کلام کریں گے ؟ نفس کو تو اپنا سب سے بڑا دشمن کہتا ہے ۔ کیا میں اس عفریت کو دیکھ پائوں گا؟ کیا تو اس کی سب چالیں مجھ پر منکشف کرے گا؟ کیا میں شیطان کو اپنے روبرو دیکھوں گا؟ کیا اس کا مکر تو مجھے دکھائے گا؟ 
کائنات تشکیل دینے والے92عناصر میں سے کچھ سے تو نے میر ا جسم بنایا ہے ۔ انہی میں سے کچھ سے میں اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہوں ۔ انہی میں سے کچھ کو تو نے زندگی دی ۔ انہی میں سے کچھ میں تونے عقل سمو ئی ۔ یہ سب کتنا حیرت انگیز ہے ۔ کیا تو مجھے عام سے عناصر کو زندگی بنتا دکھائے گا؟ کیا میں اعصاب اور حسیات کو تشکیل پاتا دیکھوں گا؟ اے خدا، کیا تو ان عناصر میں سے کچھ کو میرے سامنے ذہین زندگی میں تبدیل کرے گا؟ عقل تخلیق کر کے ، تو نے اس پہ ناز کیا تھا۔ کیا میں بھی اس عقل کو اپنے روبرو چلتا دیکھوں گا۔ 
کیا وہ پرانے واقعات میں دیکھ سکوں گا؟ کیا میں فرشتوں کو تعجب کرتا دیکھوں گا؟ کیا میں آدمؑ کو اسما سیکھتا دیکھوں گا۔ اوّلین معرکے میں عقلِ آدمؑ کو غالب آتا دیکھوں گا؟ کیا میں شیطان کو اکڑتا دیکھوں گا؟ کیا میں آدم اور حوّا کو شجر چھوتا دیکھوں گا؟ کیا میں انہیں زمین پہ اترتا دیکھوں گا؟ کیا میں اوّلین انسان کو زمین پہ بستا دیکھوں گا؟ کیا اس ز مین پر میں اسے آگ دریافت کرتا دیکھوں گا؟ کیا میں پہلے پہیے کو گھومتا دیکھوں گا؟ کیا میں برف بنی زمین دیکھوں گا؟ کیا میں آسمان سے برستے پتھروں اور مخلوقات کو ناپید ہوتا دیکھوں گا؟ کیا میں انسانی کاسۂ سر میں عقل کا نزول دیکھوں گا؟ کیا میں کہکشائوں کو کہکشائوں میں ملتا دیکھوں گا؟ کیا میں ایک پوری کہکشاں کو اس کے مرکزی بلیک ہول کے گرد ناچتا دیکھوں گا؟میرے سر میں جو شے تو نے نازل کی ہے ، تجسس کی رہنمائی میں وہ عقل حقیقت سے آشنا ئی چاہتی ہے ۔ کیا تو دے گا، میرے مالک؟
میں مجبور ہوں ، معذرت خواہ ہوں کہ تجھے فقط مادے اور توانائی کا رب کہہ کر مخاطب کر رہا ہوں ۔ انسانی عقل تو اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دنیا میں نظر آنے والی ہر شے محض پانچ فیصد ہے ۔ باقی پچانوے فیصد ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کی صور ت میں پوشیدہ ہے ۔ کیا یہ پوشیدہ مادہ اور توانائی ہی وہ دھاگہ ہے ، جس سے تونے کہکشائوں کو باندھ رکھا ہے ؟ میں معذرت خواہ ہوں کہ تجھے فقط مادے اور توانائی کا رب کہتا رہا۔ تو ُ تو یہ کہتاہے کہ تو ظلمات اور نور ، دونوں کا خالق ہے ۔ میری بصارت، میری سماعت تو نور تک ہی محدود ہے ۔ 
جنّت کی لذّتیں اپنی جگہ، اے مادے اور توانائی کے رب، اے تاریکی کے خالق! کیا میں سب کچھ جان لوں گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved